Showing posts with label Allah. Show all posts
Showing posts with label Allah. Show all posts

Tuesday, August 11, 2015

Surah Naml 27,, Ayat 50-51 ..


Abu-al-Houl ..

ابوالہول عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’خوف کا باپ‘‘ ہیں۔ جیزہ (قاہرہ) کے عظیم الجثہ بت کا عربی نام، جس کا دھڑ شیر کا اور سر آدمی کا ہے۔ ابوالہول نام فاطمی دور میں رائج ہوا۔ اس سے قبل اس کا قبطی نام ’’بلہیت‘‘ مشہور تھا۔ عہد قدیم میں لفظ ’’ابوالہول‘‘ کا اطلاق اس مجسمے کے سر پر ہوتا تھا کیونکہ اس زمانے میں اس کا پورا دھڑ ریت میں دبا ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بہ بت ایک طلسم ہے جو وادی نیل کی حفاظت کرتا ہے۔
قدیم مصری دیو مالا میں اس قسم کے مجسمے فراعنہ کی الوہیت کی علامت سمجھے جاتے تھے اور بعض مجسموں میں مینڈھے یا عقاب کا سر بھی بنایا جاتا تھا۔ جیزہ کا ابوالہول (سفنکس) ایک ہی چٹان سے تراش کر بنایا گیا تھا جو خفرع کے ہرم کے نزدیک ہے۔ ابوالہول کا تصور دراصل یونانیوں نے مصر کے علم الاصنام یا دیو مالا سے مستعار لیا۔ یونانیوں کے نزدیک ابوالہول ایک پردار مادہ ببر شیر تھا جس کا چہرہ نسوانی تھا۔ یونانیوں کا کہنا تھا کہ ابوالہول یونان کے شہر ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی۔
جو لوگ بھی اس کے سامنے سے گزرتے وہ انہیں ایک معمہ حل کرنے کو دیتی۔ جو اس کا صحیح حل نہ بتا سکتا اس کو ہڑپ کر جاتی۔ بالآخر ایک تھبیس ہیرو اوڈی پس نے اس معمہ کا صحیح حل پیش کیا اور یوں اس کی موت کا سبب بنا۔ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح کو چار ٹانگوں پر چلتا ہے۔ دوپہر کو دو ٹانگوں پر اور شام کو تین ٹانگوں پر۔ جو بھی اس معمہ کا حل نہ بوجھ سکتا اسے عفریت ہلاک کر ڈالتا۔ آخر اوڈی پس نے یہ معمہ حل کر لیا۔ اس پر سفنکس نے چٹان سے گر کر خودکشی کر لی اور اوڈی تھیبس شہر کا بادشاہ بن گیا۔
ابوالہول کی لمبائی 189 فٹ اور اونچائی 65 فٹ کے قریب ہے۔ دور سے دیکھیں تو پہاڑ سا نظر آتا ہے۔ یہ مجسمہ تقریباً تین ہزار سال قبل مسیح کے لگ بھگ ایک بڑی چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون (Khafre) کی شبیہہ ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس کی شبیہہ (Khafre) کے بجائے اس کے بھائی (Rededef) سے ملتی جلتی ہے۔ یہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے 60 میل دور جیزہ (غزہ) کے ریگستان میں موجود چونے کے پتھر (Lime Stone) کی پہاڑی کو کاٹ کر بنایا گیا ہے۔ جب یہ مجسمہ تیار ہوا ہوگا تو بہت ہی حسین نظر آتا ہوگا کیونکہ اس میں جا بجا رنگ استعمال کیے گئے۔
ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کی شکل میں یہ رنگ نظر آتے ہیں۔ اس کے سر پر اب بھی فرعون کے روایتی رومال اور اس کے درمیان پیشانی پر ناگ کی شبیہہ صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ ناگ کی اس شبیہہ کو قدیم مصری (Wadjet) کہتے ہیں اور سر کے رومال کو اپنے دیوتا (Horus) کے پھیلے ہوئے دونوں پروں سے تشبیہہ دیتے تھے۔ اس مجسمہ کی ناک اور داڑھی بھی ٹوٹی نظر آتی ہے۔
ان دونوں چیزوں کے ٹوٹنے کی وجہ یہ ہے کہ 820ء میں خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے عبداللہ مامون نے اہرام اعظم کے اندرونی حصے کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنے کچھ ماہرین تعمیرات کے ساتھ مصر میں قدم رکھا۔ کافی عرصے تک جان توڑ کوشش کے باوجود بھی جب مسلمانوں کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی تو غصے میں انہوں نے ابوالہول کے مجسمے کی ناک اور داڑھی کو توڑ ڈالا۔ یہ ٹوٹی ہوئی ناک قاہرہ کے عجائب گھر اور داڑھی برطانیہ کے مشہور زمانہ برٹش میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔
ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں کے درمیان سنگ خارا (Granite) کا ایک کتبہ موجود ہے جس کے مطابق فرعون (Tothmusis iv) جس نے 1420 قبل مسیح تک حکومت کی تھی۔ اس کی جوانی کا ایک واقعہ درج ہے کہ ابوالہول کے سامنے ریگستان میں شکار کھیلتے ہوئے ایک بار وہ تھکن سے چور ہوکر اس مجسمے کے سائے میں سو گیا۔ اس زمانے میں یہ مجسمہ ریگستان کی ریت میں کندھے تک دھنس چکا تھا اور اگر کچھ عرصہ اور اسی طرح رہتا تو شاید یہ مکمل طور پر ریت میں دھنس جاتا۔
قدیم مصریوں کے مطابق ابوالہول ان کے سورج دیوتا ’’راحوراختے‘‘ (Rahor-Akhte) کا دنیاوی ظہور تھا۔ یہ دیوتا سوئے ہوئے شہزادے کے خواب میں آیا اور اسے مخاطب کرکے یہ ہدایت دی کہ اگر شہزادہ اسے ریت کے اندر سے پوری طرح باہر نکال دے تو جلد ہی شہزادہ تاج و تخت کا مالک ہوجائے گا۔ نیند سے بیدار ہوتے ہی شہزادے نے ایسا ہی کیا اور واقعی کچھ عرصے کے بعد وہ مصر کا شہنشاہ بن گیا۔ اسی واقعہ کی یاد میں اس فرعون نے یہ کتبہ ابوالہول کے اگلے دونوں پنجوں میں نصب کرایا۔
ابوالہول کے مجسمہ کی عمر کے بارے میں آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ فرعون خوفو کا درد تقریباً 2600 ق م تھا۔اس سے بھی پہلے یعنی تقریباً 3100 ق م فرعون مینیس (Menes) کا زمانہ تھا۔ اس قدیم دور سے بھی پہلے موجود عراق (سمیری Sumer) کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیب انتہائی عروج پر پہنچی ہوئی قوم سمیرین (Sumeren) اپنی بہت ساری دستاویزات میں اہرام اور ابوالہول کی موجودگی کی شہادتیں چھوڑ گئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی شہادتیں موجود ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ابوالہول انسانی تعمیرات کا ایک انتہائی قدیم شاہکار ہے اور اس کی عمر کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ کب، کس نے اور کیوں بنایا؟
سورج دیوتا کی حیثیت سے اس کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ امتداد زمانہ سے اس کی صورت کافی بگڑگئی ہے اور اس کا وہ ’’پروقار تبسم‘‘ جس کا ذکر قدیم سیاحوں نے کیا ہے ناپید ہو چکا ہے۔ اب یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرتا ہے۔ اسی وجہ سے عربوں نے اس کا نام ’’ابوالہول‘‘ (خوف کا باپ) رکھ دیا ہے۔ حکومت مصر نے یہاں سیاحوں کے لیے موسیقی اور روشنی کے شو کا انتظام کیا ہے۔ صحرا کی بے پناہ پہنائی میں ابوالہول کی پرہیبت آواز ماضی کے مزاروں میں گونجتی سنائی دیتی ہے۔

The translation of the Quran ..

عہدِ رسالتﷺ میں

قرآن کریم حضورﷺ پر عربی زبان میں نازل ہوا۔ حضور ﷺ کی اپنی زبان عربی تھی۔ آپ کی احادیث اور تعلیمات سب عربی میں ہوئی اور آپ کی دعوت کل عالم اور تمام اقوام کے لئے تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ غیر عرب کو ان کی زبانوں میں دین کی دعوت دی جاتی۔ اور نماز میں قرآن کا پڑھنا عربی زبان میں ہی ہو مگر دین سیکھنے کے مواقع اپنی اپنی زبانوں میں ہوں۔ اس غرض سے ترجموں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ علم سیکھانا اور ایک فطری طلب ہے ، علماء اس طلب سے آنکھیں بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ترجمہ کیا۔ علم کی اپنی کوئی زبان نہیں وہ ہر زبان کا لباس پہن سکتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہر زبان اور ہر ماحول میں ڈھل سکتی ہیں۔ اور اسے ہر خطۂ ارض کی ضرورت کے مطابق کسی بھی زبان میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلام میں اس کی پوری گنجائش موجود ہے۔
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
أَمَرَنِى رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- فَتَعَلَّمْتُ لَهُ كِتَابَ يَهُودَ وَقَالَ « إِنِّى وَالله مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابِى ». فَتَعَلَّمْتُهُ فَلَمْ يَمُرَّ بِى إِلاَّ نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى حَذَقْتُهُ فَكُنْتُ أَكْتُبُ لَهُ إِذَا كَتَبَ وَأَقْرَأُ لَهُ إِذَا كُتِبَ إِلَيْهِ(ابو داؤد، كتاب العلم، رواية حديث أهل الكتاب: 319)
’’آنحضرتﷺ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں آپﷺ کے لئے یہود کی کتابت سیکھوں اور فرمایا مجھے اپنے خطوط کے سلسلوں میں یہودیوں کی کتابت پر اعتماد نہیں، پس میں نے سیکھنا شروع کیا۔ نصف مہینہ گزرنے نہ پایا تھا کہ میں نے اس میں مہارت پیدا کر لی، چنانچہ میں آپ کی طرف سے یہود کولکھا کرتا تھا اور جب آپ کی طرف خط آتے تو میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا تھا۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری زبانوں میں ترجموں کا آغاز خود عہد رسالت میں ہی ہو گیا تھا اور آپ نے خود اس کی تعلیم دی تھی مگر عہد نبوی میں کسی اور زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ کسی سورہ کے ترجمہ کے بارے میں بھی پتہ نہیں چلتا ۔ کیونکہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں

آنحضرتﷺ کے صحابی عبد اللہ بن عباس جب حدیث کا درس دیتے تو ابو حمزہ نصر بن عمران تابعی کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتے ۔ابو حمزہ مترجم کے فرائض ادا کرتے اور عربی سے فارسی میں ترجمہ کرتے۔(فضل الباری: ج1 ص 539)
حضرت عبد اللہ بن عباس بصرہ میں رہتے تھے اور بصرہ کی سرحد ایران سے ملتی تھی اس لیے انہیں ترجمہ کی ضرورت تھی۔
غیر عرب ملکوں میں ایران پہلا ملک ہے جہاں اسلام پہنچا۔ اور فارسی پہلی زبان ہے جس میں قرآن و حدیث کے پہلے ترجمے ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی نے سورۃ فاتحہ کا پہلا فارسی ترجمہ کیا۔
علامہ سرخسی﷫ لکھتے ہیں:
"فكانوا يقرؤن ذلك في الصلاة حتى"ٓ(شمس الائمه السرخي، المبسوط: ج ص 37، مصر، 1324ھ)
’’سو وہ اس فارسی ترجمے کو نماز میں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی زبانیں عربی سے ماخوذ ہو گئیں۔‘‘
نزول قرآن کے بعد صحابہ صاحب قرآن سے تفہیم کے محتاج رہے۔ اس کے بعد بھی کوئی دور ایسا نہیں جس میں تفہیم اور تفسیر کی ضرورت کو محسوس نہ کیا گیا ہو۔ صاحب قرآن کے بعد اس ضرورت کو صحابہ کرام اور پھر تابعین﷫ نے محسوس کرتے ہوئے کام جاری رکھا۔
امام جلال الدین سیوطی﷫ (1505ء ، 911ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’ الاتقان‘ میں ذکر فرمایا ہے اور دس صحابہ کے نام رقم کیے ہیں:
٭ حضرت ابو بکر صدیق (634ء ؍ 13ھ)
٭ حضرت عمر فاروق (644ء؍ 23ھ)
٭ حضرت عثمان غنی (656ء؍35ھ)
٭ حضرت علی (661ء؍40ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن عباس (687ء؍ 68ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن مسعود (653ء؍ 32ھ)
٭ حضرت ابی بن کعب (640ء؍ 32ھ)
٭ حضرت زید بن ثابت (665ء؍ 44ھ)
٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری (665ء؍ 44ھ)
٭ حضرت عبد اللہ بن زبیر (692ء؍ 73ھ)
امام سیوطی﷫ ( 1505ء؍ 911ھ) نے مذکورہ بالا صحابہ کرام کے علاوہ 43 صحابہ وصحابیات کی تفسیر روایات بھی نقل کی ہیں۔
عہد تابعین﷭

مکہ کے تفسیری مکتب سے عہد تابعین میں جن لوگوں نے تفہیم وتفسیر کا کام جاری رکھا ان میں سے چند مشہور نام یہ ہیں:
٭ حضرت سعید بن جبیر﷫ (714ء؍ 95ھ)
٭ حضرت مجاہد بن جبیر مخزومی﷫ (721ء؍ 103ھ)
٭ حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباس (700ء؍ 181ھ)
٭ حضرت طاؤس بن کسان یمان﷫ (724ء؍ 106ھ)
٭ حضرت عطاء بن رباح﷫ (732ء؍ 114ھ)
اس مکتب کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن عباس ( 687ء؍ 68ھ) نے رکھی۔
اسی طرح مدینہ کے تفسیری مکتب فکر کے کچھ نام خاص اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے مشن جاری رکھا۔ ان کے اسماے گرامی یہ ہیں:
٭ حضرت ابو العالیۃ (709ء؍ 90ھ)
٭ حضرت محمد بن لعب القرظی (726ء؍ 108ھ)
٭ حضرت زید بن اسلم (753ء؍ 136ھ)
اس مکتب کی بنیاد رکھنے میں جلیل القدر صحابی کا نام آتا ہے۔ وہ حضرت ابی بن کعب (240ء؍ 19ھ)ہیں۔
ان کے دو بڑے مکاتیب کے بعد جس تیسرے بڑے مکتب تفسیر کا نام آتا ہے اس کے بانی حضرت عبد اللہ بن مسعود (653ء؍ 32ھ) تھے یہ مکتب عراق سے تعلق رکھتا ہے۔
اس میں جن بڑے ناموں کا ذکر آتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
٭ حضرت علقمہ بن قیس﷫ (882ء؍ 62ھ)
٭ حضرت مسروق بن اجدع ہمدانی﷫ (683ء ؍ 62ھ)
٭ حضرت اسود بن یزید﷫ (714ء ؍ 95ھ)
٭ حضرت مرہ ہمدانی﷫ (695ء ؍ 76ھ)
٭ حضرت عامر شعبی﷫ (761ء؍ 103ھ)
٭ حضرت حسن بصری﷫ (748ء ؍ 110ھ)
٭ حضرت قتادہ بن دعامہ سدوسی ﷫ (736ء؍ 118ھ) (پروفیسر غلام احمد حریری، تاریخ تفسیر ومفسرین: 103۔ 120، ملک سنز پبلیشرز کارخانہ بازار ، فیصل آباد بار دوم، 1987ء)
بنو اُمیہ کے دور میں بربر زبان میں مکمل ترجمہ کا ثبوت ملتاہے جسے قرآن مجید کا اولین ترجمہ شمار کیا جاتا ہے۔ (علوی، سعید الرحمٰن، قرآن مجید اور اس کے تراجم، ماہنامہ ‘الحق’ خٹک، اکتوبر 1996ء، ص: 44)
روح کی ضرورت اور غذا مذہب سے وابستگی اور اللہ کا خوف ہے۔ اللہ کا خوف مسلسل عمل ہے جو ساری زندگی رہنا چاہیے۔ قرآن فہمی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہمارے سلف صالحین نے اس ضرورت کو دیکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جا ری رکھی ۔ جس کا آج بھی امت مسلمہ کھا رہی ہے۔ قرآن کا فہم کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خاص کتاب کےلئے خاص فہم چاہیے، خاص معیار چاہیے، اس کے لئے بڑے ذرخیز ذہن کی ضرورت ہے اور ہنوز ذرخیز ذہن اللہ کی توفیق سے یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔

Monday, August 10, 2015

Umera Ahmed Quotes ..


Quran and Hadith 10 August 2015 ..

Quran


Hadith


Surah Naml 27,, Ayat 49 ..



Kya ehl e jannat ko nend aye ge....?

ایک شخص نے سوال کیا: یارسول اللہ ! کیا اھل جنت کو نیند آئےگی؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
نیند موت کی بہن ہے 
اور جنتیوں کو موت نہ آئےگی ،
لھذا نیند بھی نہ آئےگی-

بیہقی فی شعب الا یمان:4559،
عن جابر رضی اللہ عنہ
--------------

Pathr ka Rasool Allah S.A.W ko salam kerna....

سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں 
جو مکہ میں ہے، 
وہ مجھے نبوت سے پہلے سلام کیا کرتا تھا۔

صحیح مسلم: 5939
--------------

Wo Shaks gharq hoa , Wo Shaks gharq hoa ..

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے

رسول صلى الله عليه واله وسلم کو یہ کہتے سنا.


وہ شخص غرق ہوا،
وہ شخص غرق ہوا،
پوچھا گیا کون شخص؟ 
تو آپ صلى الله عليه واله وسلم نے فرمایا 
کہ وہ جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا 
اور انکی خدمت کر کہ جنّت حاصل نہ کر سکا.

[ مسلم: کتاب: 32 ، حدیث: 6189 ]
------------------

Sunday, August 9, 2015

Sheikh Saadi Quotes ..


Ashfaq Ahmed Quotes ..


Quran and Hadith 09 August 2015 ..

Quran 


Hadith 


Surah Naml 27,, Ayat 47-48 ..



The whole nation will be in paradise ..

حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا

"ساری امّت جنت میں جائے گی ،سوائے ان کے جنہوں نے انکار کیا۔''
صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنھما نے عرض کیا:" یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! انکار کون کرے گا؟"
''فرمایا کہ جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے انکار کیا۔''
صحیح البخاری۔ حدیث نمبر ۷۲۸۰۔ جلد ۸
اس حدیث مبارکہ کو پڑھنے کے بعد ہم سب کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے، ہم رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت کے تو دعویدار ہیں لیکن ہماراعمل اس دعویٰ کے منافی دکھائی دیتا ہے، یہ ہمارے قول وعمل کا تضاد ہی ہے کہ ہم اپنے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نہ تو سنتوں کی پیروی کرتے ہیں ، اور نہ ہی احادیث مبارکہ پر عمل کرتے ہیں..
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

He committed suicide ..


رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا

جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کر لی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا 
اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی تو وہ زہر اسکے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے ہمیشہ پیتا رہے گا 
اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اسکا ہتھیار اسکے ہاتھ میں ہوگا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا.

صحیح بخاری 5778 جلد 7

God forbid it was hell ..


رسول الله صلی الله علیه وسلم نےفرمایا

"جس مسلمان بندے کی آنکھ سے الله کےڈر سے مکھی کے سر کے برابر بھی آنسو نکل پڑے
تو الله اس پر جہنم حرام کر دیتے ھیں"
(سنن ابن ماجة حدیث:4197)

I want to salute the initiative ..

قال رسول اللہ ﷺ:
"من بدأ بالكلام قبل السلام فلا تجيبوه"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
جو شخص سلام کرنے سے پہلے 
گفتگو شروع کردے
اس کی بات کا جواب نہ دو

(الجامع الصغیر لجلال الدین السيوطي: 8556 وحسنه الألباني)
-----------------
حدیث شئیر کرکے صدقہ جاریہ حاصل کریں
جزاک اللہ خیر.
-----------------
RASOOL ALLAH
SalAllahoAlayhiWaAlaiheeWaSalim 
Ne Farmaya ..

Jo Shakhs Salam Karne Se Pehle
Ghuftagu Shuro Kare
Us Ki Baat Ka Jawab Na Do

Which will come to an astrologer ..

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

جو کسی نجومی کے پاس آۓ گا اور اس سے سوال کرے گااور اس کی تصدیق کرے گااس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہ ہونگیترمذی،نسائی،ابن ماجہ،مسلم


---------------------------