Showing posts with label PCB Officials. Show all posts
Showing posts with label PCB Officials. Show all posts

Sunday, September 6, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

Pakistan Super League players will be auctioned

لاہور: پاکستان سپر لیگ میں کرکٹرز نیلامی کے بجائے امریکی فٹبال لیگ کی طرز پر فروخت کیے جائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق پی سی بی اپنی سپر لیگ کے اولین ایڈیشن کا انعقاد آئندہ سال فروری میں کروانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے غیر ملکی کرکٹرز سے رابطوں کا آغاز ہوچکا، چند کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر ان کو معاہدوں کے مسودے بھی ارسال کیے جاچکے، ایونٹ میں مجموعی طور پر 25انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، معاملات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، تاہم دستیاب کرکٹرز کی فہرست مکمل ہوجانے کے بعد اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ 5 فرنچائز ٹیموں کے مالکان کن کھلاڑیوں کو اپنے اسکواڈز کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی رپورٹ کے مطابق انڈین پریمیئر لیگ کے برعکس کھلاڑیوں کی نیلامی نہیں ہوگی بلکہ امریکی نیشنل فٹبال لیگ میں 1936سے رائج ڈرافٹ سسٹم کا طریقہ کار اپنایا جائے گا، کرکٹرز کو 5کیٹیگریز پلاٹینم، ڈائمنڈ،گولڈ، سلور اور ایمرجنگ میں تقسیم کرکے ڈراز کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا کہ کون کس کے حصے میں آتا ہے، اسکواڈ میں ہر کیٹیگری سے مخصوص تعداد شامل کرنے کی اجازت ہوگی، یعنی یہ پہلے سے ہی طے کردیا جائے گاکہ ایک ٹیم میں پلاٹینم، ڈائمنڈ یا دیگر کیٹیگری کے زیادہ سے زیادہ کتنے کھلاڑی شامل کیے جاسکتے ہیں، اس پلان سے ایک تو اسٹار کرکٹرز کی نمائندگی متناسب رہنے سے اسکواڈ متوازن رکھنے میں مدد ملے گی، دوسرے اوپن نیلامی میں کھلاڑیوں کی قیمتیں فرنچائزز کے مجموعی اخراجات کو مخصوص حد سے زیادہ کرسکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پی ایس ایل میں اظہار دلچسپی کرنے والی فرنچائزز کو بتایا گیا ہے کہ اولین ایڈیشن میں کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف پر مجموعی طور پر ایک ملین ڈالر سے زیادہ لاگت نہیں آئے گی۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشریاتی اور اسپانسر شپ حقوق، ٹکٹوں اور شرٹس کی فروخت میں سے حصہ وصول کرنے کی پیشکش بھی کردی گئی۔
علاوہ ازیں ہر فرنچائز اپنے اسپانسرشپ حقوق اور شرٹ لوگو کی فروخت سے بھی آمدن حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔ آئیکون اور انٹرنیشنل کرکٹرز کے ساتھ ایمرجنگ کیٹیگری میں شامل پاکستانی نوجوان کھلاڑیوں کو بھی آمدن کا اچھا موقع ہاتھ آئے گا، کسی بھی فرنچائز کے لئے منتخب ہونے والے ہر ڈومیسٹک پلیئر کو 21 روزہ ایونٹ کے دوران 15 سے 20 ہزار ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل انتظامی معاملات کمزور ہونے پر بنگلہ دیش اور سری لنکن پریمیئر لیگز ناکام ثابت ہوچکی ہیں، پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی اور تجربہ کار بینکر سلمان سرور بٹ کی قیادت میں جاری منصوبے کو کامیاب دیکھنے کے خواب دیکھا رہا ہے لیکن دیار غیر میں پی ایس ایل کا پہلی بار انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہیں، اخراجات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے ایونٹ کو بڑے ناموں سے مزئین کرنا اور اپنی پراڈکٹ کو فائدے کا سودا بنانا آسان نہیں ہوگا۔

Wednesday, August 26, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar
لاہور: پی سی بی نے پہلی پاکستان سپر لیگ آئندہ سال قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور سپر لیگ کی گورننگ کونسل کے چیئرمین نجم سیٹھی نے قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ٹورنامنٹ آئندہ سال 4 سے 24 فروری تک قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوگا جس میں 5 ٹیمیں حصہ لیں گی اور اس دوران مجموعی طور پر 24 میچ کھیلے جائیں گے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ میں بھارت کے سوا دیگر تمام ممالک کے نامور کرکٹرز نے کھیلنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ویسٹ انڈیز کے 4، جنوبی افریقا اور سری لنکا کے 2، 2 ٹاپ کھلاڑی شامل ہیں جب کہ توقع ہے کہ انگلینڈ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے  کھلاڑی بھی ایونٹ میں شریک ہوں گے۔
سپر لیگ  کے پہلے ایڈیشن کی انعامی رقم 10 کروڑ روپے ہے  اور اس میں لاہور، کراچی، اسلام آباد ،پشاور اور کوئٹہ کی ٹیمیں شامل ہوں گی جب کہ تمام میچ دوحا کے اسٹیڈیم میں ہی کھیلیں جائیں گے۔ فرنچائز کے مالکان، براڈکاسٹرز اور اسپانسرز کی تفصیلات اگلے 3 ماہ میں طے کی جائیں گی جب کہ قطر کے حکام سے آئندہ 10 روز میں معاہدہ طے کرلیا جائے گا ۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی پی ایل کی طرز پر ٹی ٹوئنٹی لیگ کے انعقاد کے لیے کافی عرصے سے کوشش کررہا ہے لیکن ملک میں سیکیورٹی خدشات  اور مختلف وجوہات کے سبب یہ لیگ منعقد نہیں ہو سکی۔ پہلے یہ لیگ متحدہ عرب امارات میں ہونا تھی لیکن مقررہ تاریخ میں وہاں کے اسٹیڈیمز دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے سپر لیگ کو قطر منتقل کرنا پڑا۔

Thursday, August 13, 2015

Contracts, the players and the board remain in deadlock ..

لاہور: سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے پر قومی کرکٹرز اور پی سی بی میں ڈیڈلاک برقرار ہے، پلیئرز کا مطالبہ ہے کہ تینوں فارمیٹ میں میچ اور سیریز دونوں کی جیت پر بونس دیے جائیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ورلڈکپ کی وجہ سے گذشتہ سال کے سینٹرل کنٹریکٹس کو 6 ماہ تک توسیع دیدی تھی، نئے معاہدے 30 جون سے 12ماہ کیلیے ہونگے، ابتدائی فہرست بھی تیار کی جا چکی لیکن بعض معاملات پر پی سی بی اور کھلاڑیوں کے درمیان ڈیڈ لاک کی اطلاعات سامنے آئی ہیں،غیرملکی نیوز ایجنسی کے مطابق رواں ہفتے ٹیسٹ کپتان مصباح الحق اور ون ڈے کرکٹ میں ہم منصب اظہر علی کی بورڈ کے اعلیٰ حکام سے ملاقات میں اس ضمن میں بات چیت کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی،ذرائع کے مطابق کھلاڑیوں کا مطالبہ ہے کہ انھیں تینوں فارمیٹ میں صرف سیریز ہی نہیں بلکہ ہر میچ جیتنے پر بھی بونس ملنا چاہیے۔
دوسری جانب پی سی بی گذشتہ سینٹرل کنٹریکٹ کی طرح اس بار سیریز جیتنے پر بونس دینے کے حق میں ہے، ہر فتح پر انعامی رقم کا اجرا کرنے کی پالیسی نہیں اپنانا چاہتا۔ ایک آفیشل کے مطابق یہ پالیسی بالکل واضح ہے کہ بھارت یا عالمی رینکنگ میں سر فہرست کسی بھی ٹیم کیخلاف سیریز جیتنے پر 100فیصد بونس دیا جائیگا، چوتھے سے ساتویں نمبر کی ٹیموں پر فتح پر 75اور اس سے نچلے درجے کی سائیڈز کو ہرانے پر 50فیصد کی شرح سے ادائیگی ہوگی، بونس کی رقم کا تعین میچ فیس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، مثال کے طور پر اگر ایک کھلاڑی کوفی ٹیسٹ5لاکھ روپے ملتے ہیں تو بھارت کیخلاف سیریز جیتنے پر اتنی ہی رقم بطور بونس دی جائے گی،پلیئرز کا مطالبہ ہے کہ پورے ایونٹ کے نتائج پیش نظر رکھنے کے بجائے ہر میچ میں فتح پر انعام ہونا چاہیے، اسے پی سی بی حکام جائز نہیں سمجھتے، ٹیم صرف ایک میچ جیت کر سیریز کے باقی مقابلوں میں شکست کھا جائے تو کسی قسم کا بونس دینا معقول بات نہیں ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کپتانوں کا یہ بھی اصرار ہے کہ پلیئرز کو دنیا کے کئی ممالک سے کم معاوضہ ملتا ہے، اس لیے ماہانہ تنخواہوں میں10کے بجائے 25 فیصد اضافہ کرنے کے ساتھ میچ فیس بھی بڑھائی جائے۔
دوسری جانب چیئرمین پی سی بی شہریار خان،چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد اورایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے واضح کردیاکہ کرکٹرز کی توقعات کے مطابق اضافے نہیں کیے جا سکتے، عہدیدار نے وضاحت پیش کی کہ گذشتہ معاہدوں میں ماہانہ تنخواہوں میں 20 جبکہ میچ فیس میں 10فیصد اضافہ کیا گیا تھا، اس لیے اب زیادہ توقع وابستہ نہیں کرنا چاہیے۔ ذرائع کے مطابق سعید اجمل کے معاملے پر بورڈ حکام کی رائے منقسم ہے،آف اسپنر بولنگ ایکشن کی اصلاح کے بعد آئی سی سی سے کلیئرنس پانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن دورئہ بنگلہ دیش میں ماضی جیسی متاثر کن بولنگ کرنے میں ناکام رہے، زمبابوے کیخلاف ہوم سیریز کے بعد انھیں سری لنکا میں تینوں فارمیٹ کی سیریز میں کامیابی حاصل کرنے والے اسکواڈز کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا، ان دنوں وہ ووسٹرشائر کی جانب سے انگلش کاؤنٹی میں مصروف ہیں جہاں کارکردگی غیر معمولی نہیں،بورڈ حکام میں سے کچھ سعید اجمل کی سابق خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اے سے تنزلی کرکے بی کیٹیگری میں سینٹرل کنٹریکٹ دینے کے حق میں ہیں، دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ سعید اجمل مستقبل قریب کے پلانز کا حصہ نہیں ہیں، ایسے میںکسی نوجوان کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

Tuesday, August 11, 2015

Wellcome back PCB ..

2 ماہ کی چھٹیاں گزارنے کے بعد شہریار خان برطانیہ سے واپس آ ہی گئے، اتوار کو جب میں نے ان سے فون پر گفتگو کی تو ایسا لگا جیسے تازہ دم ہو کر واپس آئے ہیں اور اب بورڈ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے ہیں تیار ہو چکے۔  ویسے آج کل کے زمانے میں اتنے اہم ادارے کے سربراہ کا طویل رخصت پر جانا بڑا عجیب سا تھا.
پی سی بی ملازمین 2 دن کی چھٹی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا جگہ نہ چھین لے،ہمارے ملک میں تو ویسے بھی ماتحت ایک دن اختیار ملنے پر بھی خود کو بادشاہ سمجھتے ہوئے ایسی من مانی کرتا ہے۔جیسے اس سے اچھا کام کوئی کر ہی نہیں سکتا، چیئرمین کرکٹ بورڈ کے نجم سیٹھی سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، دونوں لاکھ کہیں کہ ہم دونوں بہت اچھے دوست ہیں مگر یہ بات تو شاہ رخ خان اور سلمان خان بھی کہتے ہیں البتہ دل سے کتنے قریب ہیں یہ کوئی راز نہیں،سیٹھی صاحب کو پی سی بی اتنا پیارا ہے کہ انھوں نے آئی سی سی کی صدارت کو ٹھکرا دیا، یا وہ سمجھ گئے تھے کہ صدر کا عہدہ کتنا ’’بااختیار‘‘ ہے اسی لیے اپنے دوست ظہیرعباس کو تحفتاً سونپ دیا۔
وہ اب تک سری لنکا تو جا چکے ہیں اپنے دور میں چند ٹورز اور کر لیں گے، اس کے سوا کچھ کام تو ان سے کوئی لے گا نہیں، نجم سیٹھی سابق چیئرمین رہ چکے اور اب طاقتور ایگزیکٹیو بورڈ کے سربراہ ہیں،ان سے کوئی ٹکر لینے کا نہیں سوچ سکتا، اس کے باوجود 2ماہ تک ان کیلیے میدان خالی چھوڑ کر شہریارخان نے دو باتیں واضح کر دیں، ایک یہ کہ انھیں عہدے کی کوئی فکر نہیں جس کو آنا ہے آ جائے ان کا کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔
دوسرا اس سے چیئرمین کی ملکی کرکٹ کے لئے سنجیدگی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ٹیم برے حالات سے گزر رہی تھی، چیمپئنز ٹرافی میں رسائی خطرے میں پڑنے سمیت کئی دیگر تنازعات کا بھی سامنا تھا، مگر انھوں نے کسی بات کی پروا نہ کی اور طویل رخصت پر چلے گئے، ایسے میں ٹیم سری لنکا سے ایک ٹیسٹ ہار گئی،پھر میڈیا میں شور مچا کہ چیئرمین کرکٹ میں دلچسپی نہیں لے رہے تو ایک دم سے ان کے ’’چاہنے والوں‘‘ نے پریس ریلیز جاری کر دی کہ وہ تو انگلینڈ میں کرکٹ آفیشلز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بے کار نہیں بیٹھے ہوئے،ادھر موقع ملنے پر نجم سیٹھی نے کھل کر اسٹروکس کھیلنے شروع کیے۔ وہ سپر لیگ ،دیگر باتوں کی وجہ سے میڈیا میں ’’ان‘‘ ہوئے تو ایک دم سے لندن سے شہریارخان کا بیان سامنے آ گیا کہ لیگ ’’فلاپ ہو جائے گی، میں تو اس کے حق میں ہی نہیں ہوں‘‘، ان کے ساتھی دن رات جس ایونٹ کی کامیابی کیلیے کام کر رہے ہیں اس کے بارے میں ایسی باتیں کچھ حیران کن سی تھیں، بعد میں جاری کردہ پریس ریلیز بھی اس کے اثرات زائل نہ کر سکا، اصولاً تو جب چیئرمین چھٹیوں پر تھے تو انھیں میڈیا سے دور ہی رہنا چاہیے تھا ایسے میں ہر روز نت نئے انٹرویوز نے جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا کام کیا، نجم سیٹھی کو ایسا لگنے لگا کہ ان کی کوششوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
بورڈ کے دونوں بڑوں کو آمنے سامنے لانے میں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘‘ کا کردار ہے،کس نے ایسا کیا اس کی تحقیقات ہوں تو سب واضح ہو جائے گا، شہریارخان اور نجم سیٹھی بظاہر تو ساتھ ساتھ مگر حقیقتاً ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہو گا، چیئرمین کو واپسی پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے، سب سے پہلے انھیں کھل کر واضح کرنا چاہیے کہ سپر لیگ کا انعقاد چاہتے ہیں یا نہیں، اگر ہاں تو نجم سیٹھی و دیگر کا ساتھ دیں، ایونٹ کی کامیابی سے کوئی ایک شخص ہیرو نہیں بنے گا بلکہ بورڈ کوہی فائدہ ہو گا، اسی طرح ناکامی صرف نجم سیٹھی کی نہیں بلکہ پورے پی سی بی کی ہوگی،اسی لیے سب کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے، ایک اور عجیب بات ٹیم کی فتوحات کے باوجود تنازعات ہیں۔
سرفراز احمد کو نہ کھلانے پر شہریارخان نے لندن سے ہی بیان داغ دیا کہ ’’کپتان اور کوچ سے وضاحت طلب کروں گا‘‘، اس نے بھی صورتحال بگاڑ دی، ایسے معاملات پر اگر کچھ پوچھنا ہی تھا تو خاموشی سے پوچھ لیتے ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی، اس تنازع سے ٹیم کے ساتھ قومی اتحاد کو بھی نقصان پہنچا ہے، لوگ سرفراز کو نہ کھلانے کے معاملے کو کچھ اور ہی رخ دے رہے ہیں، یہ غلط ہے،چیئرمین کو اس تنازع کو بھی فوراً ختم کرنا ہوگا، ڈومیسٹک کرکٹ میں مجوزہ تبدیلیوں کے بعد اب کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کھل کر مخالفت کر رہی ہے۔ اس کے تحفظات بھی دور کرنا چاہئیں، بورڈ اس معاملے میں بھی محاذ آرائی کے موڈ میں لگتا ہے اس سے بہتری کے بجائے مسائل میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ ویسے اگر چیئرمین کو لگتا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں، سپر لیگ ان کی مخالفت کے باوجود ہو رہی ہے تو ایسے میں مناسب یہی ہے کہ وہ عہدہ چھوڑ کر کسی دوسرے کو کام کرنے کا موقع دیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری ٹیم اس وقت ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر آ چکی، کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے، ورلڈکپ اور بنگلہ دیش میں کیا ہوا یہ اتنی پرانی بات نہیں جسے فراموش کر دیا جائے، درحقیقت معاملات اس وقت بھی بگڑے ہوئے ہیں البتہ تشکیل نو کے مراحل سے گذرنے والی ٹیم پر فتح سے وقتی طور پر ریلیف مل گیا ہے، آگے انگلینڈ کی سیریز بھی آنے والی ہے، مسائل کے مستقل حل کیلیے اختیارات کی رسہ کشی چھوڑ کر سب کو ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔

Saturday, August 8, 2015

Misbah keen to India tour Pakistan in December ..

لاہور: مصباح الحق دسمبر میں پاک بھارت سیریز کیلیے بے تاب ہیں، ٹیسٹ کپتان کا کہنا ہے کہ کھیلوں کو سیاست سے دور رکھا جائے، دیگر کھیلوں کے باہمی مقابلے ہوسکتے ہیں تو کرکٹ میں کیوں نہیں؟پاکستان سپر لیگ سے کرکٹرز کو مالی فائدہ اور صلاحیتیں نکھارنے کا موقع حاصل ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق ممبئی حملوں کے بعد سے پاک بھارت کرکٹ سیریز تعطل کا شکار ہے، فیوچر ٹور پروگرام کے تحت دونوں ممالک کو رواں برس دسمبر میں سیریز کھیلنا ہے، پی سی بی مقابلوں کا انعقاد یواے ای میں کرنے کا خواہاں مگر بھارتی ہٹ دھرمی ایک بار پھر رکاوٹ بنتی جارہی ہے، گورداس پور میں پولیس اسٹیشن پر حملے کو جواز بناتے ہوئے کھیلنے سے انکار کیا جانے لگا، اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی ٹیسٹ کپتان مصباح الحق نے کہاکہ کھیلوں کو سیاست سے دور رکھا جائے۔
دونوں الگ، الگ چیزیں ہیں، خطے میں  کرکٹ کے فروغ کیلیے پاک بھارت سیریز کا انعقاد بیحد ضروری ہے، روایتی حریف ایکشن میں ہوں تو نہ صرف دونوں ممالک کے عوام  بلکہ دنیا بھر میں شائقین کی نظریں مرکوز ہوتی ہیں، انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر کھیلوں کے مقابلے ہورہے ہیں تو باہمی کرکٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟
مصباح الحق نے پاکستان سپر لیگ کے قطر میں انعقاد کیلیے کوششوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایونٹ سے قومی اور ڈومیسٹک کرکٹرز کو مالی فائدے کے ساتھ بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل کر اپنی صلاحیتیں نکھارنے کا موقع بھی ملے گا۔ انھوں نے کہا کہ سری لنکاکا ان کے گھر میں شکار کرنے کے بعد اگلا ہدف یواے ای میں انگلینڈ کیخلاف شیڈول ٹیسٹ سیریز میں کامیابی ہے ۔