Sunday, March 4, 2012

Daily Quran And Hadith


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة







از مولانا وحید الدین خان,پلاسٹک کے پھل اور پھول, عنوان الله اکبر (Plastic Kay Phal Aur Phool)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

آجکل پلاسٹک کے پھول اور پھل بنتے ہیں،دیکھنے میں بالکل پھول اور پھل کی طرح معلوم ہونگے لیکن سونگھیے تو اس پھول کی خوشبو نہیں اور منہ میں ڈالیے تو اس پھل کا مزہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح موجودہ زمانے میں دین داری کی عجیب قسم وجود میں ائی ہے بظاہر اس میں دھوم کی حد تک دین دکھائی دے گا لیکن قریب سے تجزیہ کیجیے تو وہی چیز موجود نا ہوگی جو دین کا اصل خلاصہ ہے ۔۔۔۔اللہ کا ڈر ر انسان کا درد۔۔۔۔۔ پلاسٹک کے دور میں شائد دین داری بھی پلاسٹک کی بن کہ رہ گئی ہے

لوگ دین دار ہیں مگر کوئی شخص اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار نہیں ،کوئی شخص اللہ کی خاطر اپنی اکڑ ختم نہیں کرنا چاہتا ۔زاتی فائدہ کی خاطر بےشمار لوگ اپنے اختلاف اور شکائت کو بھول کر دوسروں سے جڑے ہوئے ہیں مگر خدا کی زمین پر کوئی نہیں جو خدا کے لیے اپنے اختلافات اور شکایت کو بھول کر دوسرے سے جُڑ جائے.

از مولانا وحید الدین خان,پلاسٹک کے پھل اور پھول, عنوان الله اکبر

Friday, March 2, 2012

Ashfaq Ahmad (Aazadi)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ایک فقیر رند مشرب مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا " مولوی بابا ہمیں شراب پلوا -"
شاہ صاحب نے ایک روپیہ ان کی نظر کیا اور فرمایا جو چاہو سو کھاؤ پیو تم کو اختیار ہے - 
وہ بولا " ہم نے تو آپ کا بڑا نام سنا تھا لیکن آپ تو قید میں ہیں - " 
شاہ صاحب نے فرمایا ، " صاحب من ! کیا آپ قید میں نہیں ہیں ؟ "
کہاں " نہیں - ہم تو رند مشرب لوگ ہیں کدھر کی قید کدھر کی پابندی - ہم آزاد ہیں اور آزادی کے پرستار ہیں - ہمارے یہاں جکڑ بندیاں نہیں - " 
شاہ صاحب نے فرمایا کہ " اگر کسی روش کے قیدی نہیں ہو تو آج غسل کرو ، جبہ پہنو ، عمامہ باندھ کر مسجد میں چلو اور نماز پڑھو ............. ورنہ جس طرح تم رندی کی قید میں ہو اسی طرح ہم شریعت عزا کی قید میں پابند ہیں - اصل میں تمھاری آزادی ایک خیال خام ہے - 
یہ بات سن کر وہ چپ ہوا اور شاہ صاحب کے قدم پکڑے کہ " در اصل ہمارا خیال غلط تھا جو آزادی کا دم بھرتے تھے - " 

Amazing ... Husn Kiska.. ?


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

نارسیس وہ خوبصورت نوجوان تھا، جو ہر روز اپنی خوبصورتی کا نظارہ کرنے کے لئے جھیل کے پانی میں اپنا عکس دیکھنے جایا کرتا تھا.وہ اپنی خوبصورتی سے اتنا مہبوت اور اتنا محو ہوتا کہ ایک دن وہ جھیل میں گرا اور ڈوب گیا.ٹھیک اسی جگہ جہاں وہ گرا تھا ،وہاں ایک خوبصورت پھول اگ آیا جس کا نام نرگس رکھا گیا.
نارسیس کی موت کے بعد جب اورے آد "جنگل کی دیویاں" اس شیریں آب جھیل کے کنارے پر آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ جھیل آنسوؤں کے مرتبان میں تبدیل ہو چکی تھی.
"تم کیوں رو رہی ہو؟" اورے آد نے پوچھا.
میں نارسیس کے لئے رو رہی ہوں. جھیل نے جواب دیا.
یہ بات ہمارے لئے بلکل بھی حیران کن نہیں ہے، انہوں نے کہا. ہم تو جنگل میں مسلسل نارسیس کے تعاقب میں رہتی تھیں، لیکن افسوس یہ کوشش کبھی بارآور نہیں ہوئی. مگر تم تو اکیلی تھیں جو اسکی خوبصورتی کو نزدیک سے دیکھ سکتی تھیں.
"تو کیا نارسیس خوبصورت تھا؟" جھیل نے پوچھا.
"تم سے بہتر بھلا کون یہ جان سکتا ہے؟ اورے آد نے بڑی حیرانی سے یہ پوچھا.وہ روزانہ تمہارے ہی کنارے پر تو آ کر دوزانو ہوتا تھا!"
جھیل ایک لمحہ کے لئے خاموش رہی.پھر اس نے کہا.
" میں نارسیس کے غم میں اگرچہ روتی ہوں،لیکن مجھے کبھی بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ نارسیس خوبصورت تھا.میں تو صرف اس لئے روتی ہوں کہ جب کبھی بھی وہ میرے کنارے پر آ کر جھکتا تھا، تو میں اسکی آنکھوں کی گہرائی میں اپنے حسن کا عکس دیکھ سکتی تھی.

Thursday, March 1, 2012

علامہ اقبال۔ زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال۔ صفحہ، 241، 242 (Allama Iqbal :Zinda Roodad Az-Javaid Iqbal)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

آنحضورؐ نے اپنے عہد کی شاعری کی نسبت وقتاََ فوقتاََ جن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا ہے، تاریخ نے انہیں محفوظ کیا ہے لیکن دو موقعوں پر جو تنقیدات آپ نے ارشاد فرمائیں ان سے مسلمانانِ ہند کو اس زمانے میں بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے، اس لئے کہ ان کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کا نتیجہ ہے اور اب انہیں کسی نئے ادبی نصب العین کی تلاش ہے۔ ایک تنقید تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاعری کیسی نہ ہونی چاہئے اور دوسری تنقید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہئے۔ امرا القیس نے اسلام سے چالیس برس قبل کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہے کہ آنحضورؐ نے اس کی نسبت ایک موقع پر رائے ظاہر کی کہ "اشعر الشعرا وقائد ھم الی النار" یعنی وہ شاعروں کا سرتاج ہے لیکن جہنم کے راستے میں ان کا سردار۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں امرا القیس کی شاعری میں کیا دکھائی دیتا ہے؟ شراب ارغوانی کے دور، عشق و حسن کے جاںگداز جذبات یا ہوش ربا داستانیں، آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈر اور ریتلے ویرانوں کی خاموشی کے دل دہلا دینے والے مناظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ یہی عرب کے دورِ جاہلیت کی کل تخیلی کائنات ہے۔ امرا القیس قوتِ ارادی کو جنبش میں لانے کے بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔رسول اللہؐ نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنونِ لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ آرٹ میں جو کچھ خوب ہے، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں خوب سے مشابہت رکھتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک شاعر خوبصورت اشعار کہتا ہو لیکن اس کے باوجود اپنے معاشرے کو دوزخ کی طرف دھکیل دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعر پر جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کی بجائے فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کی ذمے داری تو یہ ہے کہ فطرت کی لازوال دولتوں میں سے حیات و قوت کا جو حصہ اسے ودیعت کیا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ کہ اٹھائی گیرا بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے اس کو بھی ہتھیا لے۔ ایک دفعہ قبیلہ بنو عبس کے مشہور شاعر عنترہ کا یہ شعر آنحضورؐ کے سامنے پڑھا گیا
ولقدابیت علی الطویٰ والظلہ
حتٰی انال بہ کریم الماکل
یعنی میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تا کہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ رسول اللہؐ، جن کی بعثت کا مقصدِ واحد یہ تھا کہ انسانی زندگی کو دل کش بنائیں اور اس کی آزمائشوں اور سختیوں کو خوش آیند اور مطبوع کر کے دکھائیں، اس شعر کو سن کر بہت محظوظ ہوئے اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا! کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوقِ ملاقات پیدا نہیں کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعر کے کہنے والے کو ملنے کے لئے میرا دل بے اختیار چاہتا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ آنحضورؐ جن کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈال لینا، دیکھنے والے کے لئے دنیوی برکت اور اُخروی نجات کی دو گونہ سرمایہ اندوزی کا ذریعہ تھا، خود ایک بت پرست عرب سے اس کے ایک شعر کی خاطر ملاقات کا شوق ظاہر کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے جو عزت عنترہ کو بخشی اس کی وجہ عیاں ہے۔ عنترہ کا شعر صحت بخش حیات کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانا پڑتی ہیں، جو کڑیاں جھیلنی پڑتی ہیں، اس کا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے۔ آنحضورؐ نے جو اس شعر کی تعریف فرمائی، اس سے آرٹ کے ایک اور اہم اصول کی شرح ہوتی ہے کہ آرٹ حیاتِ انسانی کے تابع ہے، اس پر فوقیت نہیں رکھتا۔ تمام انسانی عمل کا منتہائے نظر شوکت، قوت اور جوش سے بھری ہوئی زندگی کی تحصیل ہے۔ اس لیے ہر انسانی آرٹ اس غایت آفرین کا مطیع ہونا چاہئے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہئے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے۔ ارفع آرٹ وہی ہے جو ہماری خوابیدہ قوتِ عزم کو بیدار کر ے اور ہمیں زندگی کی آزمایشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے۔ لیکن وہ سب کچھ، جس کے اثر سے ہم اونگھنے لگیں اور جو جیتی جاگتی حقیقتیں ہمارے گرد و پیش موجود ہیں، ان کی طرف آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، انحطاط اور موت کا پیغام ہے۔ آرٹ میں افیون نوشی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ یہ نعرہ کہ آرٹ برائے آرٹ یا آرٹ برائے قائم بالذات ہے، انفرادی و اجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے اور اس لئے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکا دے کر چھین لی جائے۔ پس آنحضورؐ نے عنترہ کے شعر کی خوبی کا اعتراف کر کے ہم پر ہر نوع کے آرٹ کے ارتقا کے اصل الاصول کی ؤضاحت کر دی ہے۔

علامہ اقبال۔ زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال۔ صفحہ، 241، 242

Common Sense In pakistani People

"Common Sense"