Tuesday, October 30, 2012

Mushtaq Ahmad Yousfi : Khansamaa Ki Talaash May..

خانساماں کی تلاش میں ۔۔۔ 

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک" پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔

کہنے لگے: " صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!"
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا ۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کروگے؟ "
" یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔"

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری ، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا " جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔"
" پھر بھی ؟"
کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی ! "

مشتاق احمد یوسفی - شہ پارے

Mushtaq Ahmad Yousfi : Khansamaa Ki Talaash May..

خانساماں کی تلاش میں ۔۔۔ 

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک" پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔

کہنے لگے: " صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!"
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا ۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کروگے؟ "
" یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔"

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری ، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا " جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔"
" پھر بھی ؟"
کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی ! "

مشتاق احمد یوسفی - شہ پارے

Sabaq Aamoz...

امام غزالیؒ کے ابتدا تعلیم کا ایک واقعہ ہے ۔ایک مرتبہ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر مدرسہ نظامیہ میں گیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔اس مدرسہ میں امام غزالیؒ بھی پڑھتے تھے ۔اور جا کر الگ الگ طلبہ سے دریافت کرنا شروع کیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے۔ سب نے مختلف جواب دیئے کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنی نیت بتائی جب امام غزالیؒ سے پو چھا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا ۔اس لئے کہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو ۔پھر اس کے بعد فرمایا کہ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں۔بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے ظاہر کر دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں ۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے ۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں

 گا۔

حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے ۔ایک بے نمازی مسلمان کو انھوں نے نمازپڑھنے کی تلقین کی ۔اس نے کہا حضرت میں نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں مگر مجھ سے وضو کا اہتمام نہیں ہو سکتا ۔حاجی صاحب ؒ نے فرمایا !اچھا نماز پڑھ جیسے ہو سکے ۔بظاہر وضو کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت دے کر حضرت حاجی صاحبؒ نے ایک خلاف دین عمل کیا تھا ۔مگر حقیقۃً یہ عین دینی عمل تھا ۔کیونکہ حکمے دین کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اس شخص نے پہلے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنی شروع کی مگر جلد ہی وہ با وضو نماز پڑھنے لگا۔

مولانا عبد السلام صاحب صدر شعبہ عربی شبلی کالج اعظم گڈھ ناقل ہیں کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ پھرہا اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے ۔ایک گاڑی فلیٹ فارم پر آکر رکی اور ڈپٹی عبد الغنی انصاری مرحوم (انکم ٹیکس کمشنر) کسی کمپار منٹ سے برآمد ہو ئے مولانا پر نظر پڑی تو بڑے اشتیاق واحترام سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا تے ہو ئے ان کی طرف بڑھے لیکن مولانا نے فرمایا میں داڑھی منڈوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ۔پلیٹ فارم پر مجمع اچھا خاصا تھا ۔عبد الغنی صاحب کچھ خفیف ہوئے آرزودگی کے ساتھ لیکن ادب کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔مولانا آپ نے بھرے مجمع میں میری ہتک کر ڈالی ۔آپ کو کوئی نصیحت کر نی تھی تو تنہائی میں کر سکتے تھے ۔موقع ومحل کی رعایت بھی تو کوئی چیز ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ پندرہ منٹ تک بولتے رہے اور ایک اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ،مولانا عبد السلام فرماتیہیں ۔میں مولانا کو دیکھتا تھا وہ بڑی توجہ اور اور خاموشی سے سنے چلے جا تے تھے ،درمیان میں بالکل نہیں ٹوکا۔ ہم سب نے سوچا بات بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔آخر مولانا ان باتوں کا جواب ہی کیا دے سکتے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ خاموش ہوئے تو مولانا نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا ! عبد الغنی اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہو جب مجمع اس سے بڑا ہو گا اور رسوائی اس سے بھی کہیں ذیادہ ہوگی----

 

Sabaq Aamoz...

امام غزالیؒ کے ابتدا تعلیم کا ایک واقعہ ہے ۔ایک مرتبہ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر مدرسہ نظامیہ میں گیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔اس مدرسہ میں امام غزالیؒ بھی پڑھتے تھے ۔اور جا کر الگ الگ طلبہ سے دریافت کرنا شروع کیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے۔ سب نے مختلف جواب دیئے کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنی نیت بتائی جب امام غزالیؒ سے پو چھا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا ۔اس لئے کہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو ۔پھر اس کے بعد فرمایا کہ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں۔بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے ظاہر کر دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں ۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے ۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں

 گا۔

حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے ۔ایک بے نمازی مسلمان کو انھوں نے نمازپڑھنے کی تلقین کی ۔اس نے کہا حضرت میں نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں مگر مجھ سے وضو کا اہتمام نہیں ہو سکتا ۔حاجی صاحب ؒ نے فرمایا !اچھا نماز پڑھ جیسے ہو سکے ۔بظاہر وضو کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت دے کر حضرت حاجی صاحبؒ نے ایک خلاف دین عمل کیا تھا ۔مگر حقیقۃً یہ عین دینی عمل تھا ۔کیونکہ حکمے دین کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اس شخص نے پہلے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنی شروع کی مگر جلد ہی وہ با وضو نماز پڑھنے لگا۔

مولانا عبد السلام صاحب صدر شعبہ عربی شبلی کالج اعظم گڈھ ناقل ہیں کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ پھرہا اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے ۔ایک گاڑی فلیٹ فارم پر آکر رکی اور ڈپٹی عبد الغنی انصاری مرحوم (انکم ٹیکس کمشنر) کسی کمپار منٹ سے برآمد ہو ئے مولانا پر نظر پڑی تو بڑے اشتیاق واحترام سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا تے ہو ئے ان کی طرف بڑھے لیکن مولانا نے فرمایا میں داڑھی منڈوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ۔پلیٹ فارم پر مجمع اچھا خاصا تھا ۔عبد الغنی صاحب کچھ خفیف ہوئے آرزودگی کے ساتھ لیکن ادب کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔مولانا آپ نے بھرے مجمع میں میری ہتک کر ڈالی ۔آپ کو کوئی نصیحت کر نی تھی تو تنہائی میں کر سکتے تھے ۔موقع ومحل کی رعایت بھی تو کوئی چیز ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ پندرہ منٹ تک بولتے رہے اور ایک اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ،مولانا عبد السلام فرماتیہیں ۔میں مولانا کو دیکھتا تھا وہ بڑی توجہ اور اور خاموشی سے سنے چلے جا تے تھے ،درمیان میں بالکل نہیں ٹوکا۔ ہم سب نے سوچا بات بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔آخر مولانا ان باتوں کا جواب ہی کیا دے سکتے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ خاموش ہوئے تو مولانا نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا ! عبد الغنی اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہو جب مجمع اس سے بڑا ہو گا اور رسوائی اس سے بھی کہیں ذیادہ ہوگی----

 

Panch Haslatain...

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرم

انی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: "جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو "۔ اس آدمی نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں اللہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے ، ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو' جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا….ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ' تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیں تو ان کے ہمراہ مت جاناآدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔
کیا ہم سب بھی ان باتوں میں سے کسی بات پر قادر ہیں اگر نہیں تو کس وجہ سے دن رات اللہ کی نافرمانی والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں 
اللہ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائے اور اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے 

Panch Haslatain...

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرم

انی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: "جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو "۔ اس آدمی نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں اللہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے ، ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو' جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا….ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ' تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیں تو ان کے ہمراہ مت جاناآدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔
کیا ہم سب بھی ان باتوں میں سے کسی بات پر قادر ہیں اگر نہیں تو کس وجہ سے دن رات اللہ کی نافرمانی والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں 
اللہ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائے اور اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے 

Hikayat-e-Aoulia

ہمیشہ خلقت کی بہتری چاہو۔۔اللہ تمھارے دشمنون کو تمھارا مطیع کر دے گا۔۔۔ نیکی ایسے کرو جیسے بارش جگہ نہیں دیکھتی بلکہ ہر جگہ کو سیراب کر دیتی ہے۔۔یاد رکھو تمھارے عمل سے ثابت ہونا چاہئے کہ تم رب رحمان کے ماننے والے ہو۔۔۔

اس انسان پر افسوس جو ظلم کے جواب میں ظالم بن جائے۔ اس انسان پر افسوس نام اللہ کا لے مگر شر کے ذریعے اللہ کی رضا کو تلاش کرے۔ اس انسان پر افسوس جو رسول اللہ کو اپنا رہبر مانے۔اور ان کی شریعت کو اللہ کی رضا کے حصول کے غرض سے پامال کرے