Saturday, November 10, 2012

Friday, November 9, 2012

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Pandara Rupay Ka Note

ایک شخص جو اپنے بوڑھے باپ سے بڑا تنگ تھا  ، ایک دن اسے کمر پر لاد کر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور چلتے چلتے وہ دونوں دریا پر پہنچ جاتے ہیں ۔  وہ شخص پانی میں اترتا ہے اور گہرے پانی میں جانے لگتا ہے ۔  اور ایک مقام پر اس کا  بوڑھا باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ   " بیٹا کیا کر رہے ہو " ؟

وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیری روز روز کی بڑ بڑ سے تنگ آ کر تجھے دریا برد کرنے آیا ہوں ۔  (یا ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کو کوئی اور جواب دیا ہو ) اور سوچ رہا ہوں کہ تجھے ذرا گہرے پانی میں پھینکوں  تا کہ تو جلدی ڈوب جائے  تو اس کا بوڑھا باپ جواب دیتا ہے  " بیٹا جس جگہ تو مجھے پھینک رہا ہے یہاں نہ پھینکنا بلکہ  ذرا اور آگے اور گہرے پانی میں پھینکنا " ۔

بیٹا پوچھتا ہے کہ " کیوں ، یہاں کیوں نہ پھینکوں "

اس کا باپ کہتا ہے کہ " اس جگہ میں نے تیرے دادا اور اپنے باپ کو پھینکا تھا " ۔

یہ سن کر اس کا بیٹا اپنے باپ کو واپس گھر لے آتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہوگا تو اس کی منزل اس سے بھی گہرا پانی ہوگا ، جہاں وہ اپنے باپ کو پھینکنے والا تھا ۔ ادلے کا بدلہ تو ہونا ہی ہوتا ہے ناں ! ۔

 

اشفاق احمد زاویہ 3  پندرہ روپے کا نوٹ صفحہ 46 

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Pandara Rupay Ka Note

ایک شخص جو اپنے بوڑھے باپ سے بڑا تنگ تھا  ، ایک دن اسے کمر پر لاد کر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور چلتے چلتے وہ دونوں دریا پر پہنچ جاتے ہیں ۔  وہ شخص پانی میں اترتا ہے اور گہرے پانی میں جانے لگتا ہے ۔  اور ایک مقام پر اس کا  بوڑھا باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ   " بیٹا کیا کر رہے ہو " ؟

وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیری روز روز کی بڑ بڑ سے تنگ آ کر تجھے دریا برد کرنے آیا ہوں ۔  (یا ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کو کوئی اور جواب دیا ہو ) اور سوچ رہا ہوں کہ تجھے ذرا گہرے پانی میں پھینکوں  تا کہ تو جلدی ڈوب جائے  تو اس کا بوڑھا باپ جواب دیتا ہے  " بیٹا جس جگہ تو مجھے پھینک رہا ہے یہاں نہ پھینکنا بلکہ  ذرا اور آگے اور گہرے پانی میں پھینکنا " ۔

بیٹا پوچھتا ہے کہ " کیوں ، یہاں کیوں نہ پھینکوں "

اس کا باپ کہتا ہے کہ " اس جگہ میں نے تیرے دادا اور اپنے باپ کو پھینکا تھا " ۔

یہ سن کر اس کا بیٹا اپنے باپ کو واپس گھر لے آتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہوگا تو اس کی منزل اس سے بھی گہرا پانی ہوگا ، جہاں وہ اپنے باپ کو پھینکنے والا تھا ۔ ادلے کا بدلہ تو ہونا ہی ہوتا ہے ناں ! ۔

 

اشفاق احمد زاویہ 3  پندرہ روپے کا نوٹ صفحہ 46 

Friday, November 2, 2012

A Beautiful Lesson..

ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو....
نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ 
سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں، اس نے کاؤنٹر والی سے کہا "میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں.... اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو، یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ میرا دین مجھے پردے کا حکم کادیتا ہے تم نسلی مسلمان ہو کر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔مجھے صرف اپنے اللہ کا خوف ہے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محبت ہے ، اور حکم کو پورا کرنے میں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ،

اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے دنیا کے بدلے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا..

A Beautiful Lesson..

ایک باپردہ عورت نے فرانس کی ایک سپرمارکیٹ سے خریداری کی اور اس کے بعد وہ عورت پیسوں کی ادائیگی کیلئے لائن میں کھڑی ہو گئی۔ اپنی باری آنے پر وہ چیک آؤٹ کاؤنٹرآئی، جہاں اسے رقم ادا کرنا تھی، وہاں اس نے اپنا سامان ایک ایک کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ چیک آؤٹ پر کھڑی ایک بے پردہ مسلم لڑکی نے اس خاتون کی چیزیں ایک ایک کر کے اٹھائیں، اور ان کی قیمتوں کا جائزہ لینے لگی۔
تھوڑی دیر بعد اس نے نقاب والی خاتون گاہک کی طرف ناراضی سے دیکھا اور کہنے لگی! ہمیں اس ملک میں کئی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل میں ایک مسئلہ تمہارا نقاب ہے۔ ہم یہاں تجارت کرنے کے لئے آئے ہیں نہ کہ اپنا دین اور تاریخ دکھانے کے لئے۔ وہ مسلم عرب عورت جو نام نہاد روشن خیال تھی اپنی بے ہودہ تقریر جھاڑے جا رہی تھی کہ اگر تم اپنے دین پر عمل کرنا چاہتی ہو اور نقاب پہننا ضروری سمجھتی ہو تو اپنے ملک واپس چلی جاؤ، جہاں جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو۔ وہاں نقاب پہنو، برقع پہنو، ٹوپی والا برقع پہنو، جو چاہے کرو مگر یہاں رہ کر ہم لوگوں کے لئے مسائل مت پیدا کرو....
نقاب پہننے والی خاتون ایک مسلم عورت کے منہ 
سے نکلنے والے الفاظ پر دم بخود ہو کر رہ گئی۔ اپنے سامان کو بیگ میں رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ رک گئے اور اچانک اس نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دیا، کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی کیونکہ نقاب والی لڑکی کے بال سنہری اور آنکھیں نیلی تھیں، اس نے کاؤنٹر والی سے کہا "میں فرانسیسی لڑکی ہو نہ کہ عرب مہاجر، یہ میرا ملک ہے، میں مسلمان ہوں.... اسلام میرا دین ہے، یہ نسلی دین نہیں ہے کہ تم اس کی مالک ہو، یہ میرا دین ہے اور میرا اسلام مجھے یہی سبق دیتا ہے جو میں کر رہی ہو۔ میرا دین مجھے پردے کا حکم کادیتا ہے تم نسلی مسلمان ہو کر ہمارے یہاں کے غیر مسلموں سے مر عوب ہو، دنیا کی خاطر خوف میں مبتلا ہو، مجھے کسی کا خوف نہیں ہے۔مجھے صرف اپنے اللہ کا خوف ہے اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے محبت ہے ، اور حکم کو پورا کرنے میں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ،

اس فرانسیسی نو مسلم عورت کے یہ لفظ تو بے پردہ مسلم عورتوں کے منہ پر طمانچہ تھے کہ تم پیدائشی مسلمانوں نے دنیا کے بدلے اپنا دین بیچ دیا ہے اور ہم نے تم سے خرید لیا..

Ashfaq Ahmad In Zavia 2

میرے پاس ولایت اور یہاں کی بے شمار ڈگریاں ہیں  ۔ لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے با وصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے ۔  یہ اللہ کی عطا ہے ۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے ، میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا ۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب رہا کرتے تھے ، میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا  کہ ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے ۔ وہ کہنے لگا کہ جی جو میرا  چھوٹے سے بڑا بیٹا ہے  وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتیدار ہوئے ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں ۔  میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے ۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو مین نے کہا اللہ ان سب کو سلامت رکھے  لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں ۔  وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا 

   " صاحب جی محبت کو تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں ۔ "

وہ بلکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے ۔ 

میں اکثر سوچتا ہوں  کہ واقعی یہ ضروری نہیں  ہے کہ کسی کے پاس ہنر یا عقل کی ڈگری ہو ،  یہ ضروری نہیں کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے ۔

اشفاق احمد زاویہ 2  ان پڑھ سقراط  صفحہ 239

Ashfaq Ahmad In Zavia 2

میرے پاس ولایت اور یہاں کی بے شمار ڈگریاں ہیں  ۔ لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے با وصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے ۔  یہ اللہ کی عطا ہے ۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے ، میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا ۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفیٰ تبسم صاحب رہا کرتے تھے ، میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا  کہ ماشاءاللہ بہت پیارا بچہ ہے ۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے ۔ وہ کہنے لگا کہ جی جو میرا  چھوٹے سے بڑا بیٹا ہے  وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے ۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتیدار ہوئے ۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں ۔  میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے ۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو مین نے کہا اللہ ان سب کو سلامت رکھے  لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں ۔  وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا 

   " صاحب جی محبت کو تقسیم نہیں کیا کرتے ۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں ۔ "

وہ بلکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے ۔ 

میں اکثر سوچتا ہوں  کہ واقعی یہ ضروری نہیں  ہے کہ کسی کے پاس ہنر یا عقل کی ڈگری ہو ،  یہ ضروری نہیں کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے ۔

اشفاق احمد زاویہ 2  ان پڑھ سقراط  صفحہ 239