All about Pakistan,Islam,Quran and Hadith,Urdu Poetry,Cricket News,Sports News,Urdu Columns,International News,Pakistan News,Islamic Byan,Video clips
Sunday, February 24, 2013
Koi Umeed Bar Nahi Aati
Qaroon aur us ka Maal
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قارون نام کا ایک بہت بڑا مالدار شخص تھا۔ سورہ قصص میں بیان ہوا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اتنے خزانے عطا کررکھے تھے کہ ان کی کنجیاں اٹھانا ہی آدمیوں کی ایک جماعت کے لیے بہت بھاری بوجھ تھا۔مگر ان نعمتوں پر شکر گزاری کے بجائے فخر وغرور اور نمائش ودکھاوا اس کا معمول تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ مال اسے اس کی علم و صلاحیت کی بنا پر ملا ہے۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہوں کی پاداش میں اسے اس کے مال سمیت زمین میں دھنسا دیا۔
مال بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ لیکن اس نعمت کی حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کوبطور آزمائش دیا جاتا ہے۔ وہ آزمائش کیا ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبی سے اس طرح بیان کیا ہے کہ تمھارے کمزوروں کی وجہ سے تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے،(بخاری رقم ،2896)۔
اس دنیا میں جس کو جو ملا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی عطاسے ملاہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے ذہین
اورباصلاحیت لوگ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں اور بے ہنر لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مالدار ہوجاتے ہیں۔ لوگ اسے قسمت کہتے ہیں، درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی تقسیم ہے۔ یہ تقسیم ہمیشہ غیر متوازی کی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پیسے والے لوگ مال پاکر قارون بنتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ جان لیتے ہیں کہ یہ مال اصل میں انہیں ضعیفوں کی وجہ سے ملا ہے۔
جو لوگ قارون بنتے ہیں ان کا انجام بھی قارون جیسا ہوگا۔ لیکن جو لوگ اسے عطیہ الہی سمجھ کر غریبوں پر خرچ کرتے ہیں، انہیں اللہ کے نبی کے ساتھ بسادیا جائے گا---
Mother : Secret to Happiness
ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے ۔ بچپن میں ایک بار بادوباراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا ۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا ۔ میری ماں نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا تو محسوس ہوا جیسے میں امان میں آگیا ہوں ۔
میں نے کہا اماں ! اتنی بارش کیوں ہو رہی ہے ؟ اس نے کہا بیٹا ! پودے پیاسے ہیں ۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پانی تو پلانا ہے مگر یہ بجلی بار بار کیوں چمکتی ہے ؟ وہ کہنے لگیں روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا ۔ اندھیرے میں تو کسی کی منہ میں کسی کی ناک میں پانی چلا جائے گا ۔ اس لیے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے ۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا ۔ پھر مجھے پتہ نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی یا نہیں ۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لیے ، جو خوفزدہ ہو گیا ہے اسے خوف سے بچانے کے لیے پودوں کو پانی پلانے کی مثال دیتی ہے ۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی ۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھی ۔ دولت مند ، بہت عالم فاضل ، کچھ بھی ایسا نہیں تھا ۔ لیکن وہ ایک ماں تھی ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 خوشی کا راز صفحہ 32
Daily Quran and Hadith Rabi Al Thani 15, 1434 February 25, 2013
علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔قسط دوم مرتب: سید آصف جلال
علوم جدیدہ اور مذہب۔۔۔
قسط دوم مرتب: سید آصف جلال : ڈاکٹر شفلر shefflerkکہتا ہے کہ روح مادہ ہی کی ایک قوت کا نام ہے جو اعصاب سے پیدا ہوتی ہے،ویرشو کا قول ہےکہ"روح ایک قسم کی میکانکل حرکت ہے"۔ بوشنرBchnerکہتا ہے کہ "انسان صرف مادہ کا ایک نتیجہ ہے"۔ دویمواریمون Sumobois Reymondکہتا ہے کہ "تمام اعصاب میں ایک کہربائی تموج پایا جاتا ہے، اس جس کو فکر کہتے ہیں، وہ مادہ اسی ہی ایک...
Funny : Mamooli Teacher Ki Daastan
" ایک مرتبہ میں لاہور میں ایک معمولی سا ٹیچر بن گیا لیکن گاؤں میں مشہور ہو گیا کہ پروفیسر ہو گیا ہوں چنانچہ سفارش کا تانتا لگ گیا. سب سے پہلے ایک پرانے ہم جماعت کامران صاحب آ گئے. بولے"منشی فاضل کا امتحان دیا ہے. دوسرا پرچہ بہت نکمّا ہوا ہے. پروفیسر قاضی صاحب ممتحن ہیں. انہیں کہہ کے پاس کرا دو."
ایک روایت کے مطابق پروفیسر قاضی صاحب تک ان کی بیوی بھی مشکل سے ہی پہنچتی تھی. میری رسائی سے تو وہ سراسر باہر تھے، لیکن کامران صاحب کو ٹالنے اور کسی حد تک اپنی پرعفیسری کا رعب جمانے کے لئے کہہ دیا.
"ارے قاضی-وہ تو ہمارا لنگوٹیا ہے. تمھیں فرسٹ ڈویژن دلوا دیں گے."
اس کے بعد کامران سے سرخروئیکی خاطر دُعائیں تو بہت مانگیں لیکن وہ فیل ہو گیا اور جب کامران نے نتیجہ سنا تو فوراً لکھا."اب گاؤں کبھی نا آنا ورنہ مار ڈالوں گا." دو ہی دن گزرے تھے کہ میرے ہمسائے مبّشر صاحب اپنے بیٹے کی سفارش لے کر آ دھمکے.بولے." کاکے جمیل نے میٹرک کا امتحان دیا ہے. ریاضی کا پرچہ تھوڑا گڑبڑ ہو گیا ہے. محسن صاحب کے پاس پرچے ہیں، انہیں اشارہ کر دیجئے گا."
اشارے کے لفظ سے ظاہر تھا کہ مبّشر صاحب کے ذہن میں میرے رسوخ کا بلندتصور تھا چنانچہ اس وقت تو کہہ دیا کہ فکر نہ کریں مبّشر صاحب محسن صاحب کا کان پکڑ کے لڑکے کو پاس کرا دوں گا. لیکن حقیقت یہ تھی کہ محسن صاحب کے کان میری گرفت سے یکسر باہر تھے. بہر حال مجھے معلوم تھا کہ لڑکا فیل ہی ہو گا. چنانچہ اپنی بریت اور کار گزاری دکھانے کے لئے ایک ترکیب نکالی…. ایک دن مبّشر صاحب اور ان کے بیٹے جمیل کو بلا بھیجا اور کسی قدر جلال میں آ کر مبّشر صاحب سے خطاب کیا.
"واہ مبّشر صاحب واہ. آپ نے ہماری خوب کرکری کرا دی، ہم محسن صاحب کے پاس گئے تو انہوں نے پرچہ نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ تم خود ہی انصاف سے جو چاہو نمبر دے دو. اور پرچہ دیکھتا ہوں تو اوٹ پٹانگ لکھا ہے. اکبر کے بیٹے کا نام دین الٰہی تھا اور پرویز لاٹھیں بیچا کرتا تھا، جانگیر کبوتر پالتا تھا، اس کے علاوہ ہجے غلط، املاء خراب. خدا جانے یہ لڑکا پورا سال کیا کرتا رہا ہے؟"
اس پر ہماری کارگزاری سے مطمئن ہو کر مبّشر صاحب نے اپنا ڈنڈا اور جمیل کے رسید کرتے ہوئے فرمایا:
"کم بخت تاش کھیلتا رہا ہے اور کیا کرتا رہا ہے؟"
لیکن کچھ دن بعد جب نتیجہ نکلا تو جمیل پاس ہو گیا اور پھر باپ کا ڈنڈا لے کر میری تلاش میں پھرنے لگا….