Tuesday, September 24, 2013

Ashfaq Ahmad In Zavia 1 : Behroopia


اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا : " باوجود اس کے کہ آپ رنگ و رامش ، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہیں ۔ شہنشاہ معظم ! لیکن میں فنکار ہوں اور ایک فنکار کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میں بہروپیا ہوں ۔ میرا نام کندن بہروپیا ہے ۔اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے کو دھوکہ دے سکتا ہوں اور میں غچہ دے کر بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جاتا ہوں ۔اورنگزیب عالمگیر نے کہا : تمھاری بات وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ میں تو شکار کو بھی بیکار کام سمجھتا ہوں یہ جو تم میرے سامنے دعوہ کر رہے ہو اس کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا - " اس نے کہا : " ہاتھ کنگن کو آرسی کیا - آپ اتنے بڑے شہنشاہ ہیں اور دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ میں بھیس بدلونگا آپ پہچان کر دکھائیے - " تو انھوں نے کہا ! " منظور ہے " اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں ۔ اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دینے دار ہوں ۔لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلا تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا ۔شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے ۔ اسے پتا چلا کے اگلے سال شہنشاہ مرہٹوں پر حملہ کریگا چنانچہ وہ وہاں سے پا پیادہ سفر کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا ۔ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اور پڑاؤ ڈالا تو تھوڑا سا وہ خوفزدہ تھا ۔ اور جب اس نے مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں ۔لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش ولی الله رہتے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں پھر دعا کریں پھر ٹوٹ پڑیں ۔شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس - سلام کیا اور کہا ؛ " حضور میں آپ کی خدمت میں ذرا ............ " انھوں نے کہا ! " ہم فقیر آدمی ہیں ہمیں ایسی چیزوں سے کیا لینا دینا ۔ " شہنشاہ نے کہا ! " نہیں عالم اسلام پر بڑا مشکل وقت ہے ( جیسے انسان بہانے کرتا ہے ) آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں ۔ " تو فقیر نے فرمایا ! " نہیں کل مت کریں ، پرسوں کریں اور پرسوں بعد نماز ظہر - " اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا ! چانچہ اس نے بعد نماز ظہر جو حملہ کیا ایسا زور کا کیا اور ایسے جذبے سے کیا اور پیچھے فقیر کی دعا تھی ، اور ایسی دعا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی ۔مفتوح جو تھے پاؤں پڑ گئے ۔بادشاہ مرہٹوں کے پیشوا پر فتح مند کامران ہونے کے بعد سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا ۔باوجود اس کے کہ وہ ٹوپیاں سی کے اور قران پاک لکھ کے گزارا کرتا تھا لیکن سبز رنگ کا بڑا سا عمامہ پہنتا تھا بڑے زمرد اور جواہر لگے ہوتے تھے - اس نے جا کر عمامہ اتارا اور کھڑا ہوگیا دست بستہ کہ حضور یہ سب آپ ہی کی بدولت ہوا ہے ۔ اس فقیر نے کہا : " نہیں جو کچھ کیا الله ہی نے کیا " انھوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں درویش نے کہا : " نہیں ہم فقیر لوگ ہیں ۔اورنگزیب نے کہا دو پرگنے یعنی دو بڑے بڑے قصبے ۔ اتنے بڑے جتنے آپ کے اوکاڑہ اور پتوکی ہیں ۔وہ آپ کو دیتا ہوں اور اور آئندہ پانچ سات پشتون کے لئے ہر طرح کی معافی ہے ۔ اس نے کہا : " بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں ۔ ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی ۔ " اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا ۔اور اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گیا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت کندن بہروپیا اسی طرح منکے پہنے آیا ۔تو شہنشاہ نے کہا : " حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ۔ " کندن نے کہا ! " نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں کندن بہروپیا ہوں ۔ میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں ۔ " اس نے کہا : " تم وہ ہو ۔کندن نے کہا ہاں وہی ہوں ۔جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا ۔اورنگزیب نے کہا : " مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کو دو پرگنے اور دو قصبے کی معافی دی جب آپ کے نام اتنی زمین کر دی جب میں نے آپ کی سات پشتون کو یہ رعایت دی کہ اس میری ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں ۔ آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا ؟ یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں ۔اس نے کہا : " حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی ۔ وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں ۔ یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں ۔ "

Ashfaq Ahmad In Zavia 1 : Ilam Ki Muhabbat


بیٹا وہاں جا کر لوگوں کو اپنا علم عطا کرنے نے بیٹھ جانا ، ان کو محبّت دینا ۔ میں نے کہا سر ، محبّت تو ہمارے پاس گھر میں دینے جوگی بھی نہیں ، وہ کہاں سے دوں ۔میرے پاس تو علم ہی علم ہے ۔کہنے لگے نہ انھیں علم نہ دینا ۔ انھوں نے محبت سے بلایا ہے ، محبّت سے جانا اگر ہے تو لے کر جانا ۔لیکن ہم تو ظاہر علم سکھاتے ہیں کہ اتنا اونچا روشندان رکھو ، مویشی کو اندر مت باندھو ، ناک سے سانس لو منہ سے نکالو وغیرہ وغیرہ ۔اور یہ محبّت ! میں نے کہا ، جی یہ بڑا مشکل کام ہے ۔ میں یہ کیسے کر سکونگا ۔ میں گیا کوششیں بھی کیں لیکن بلکل ناکام لوٹا ۔کیونکہ علم عطا کرنا ، اور نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے ۔اور محبّت دینا بڑا مشکل کام ہے ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 2


ممکن ہے آپ کی آنکھ میں ٹیڑھ ہو اور اس بندے میں ٹیڑھ نہ ہو ۔ ایک واقعہ اس حوالے سے مجھے نہیں بھولتا جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے ۔یہ لاہور میں ایک جگہ ہے ۔وہ ان دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا اچھا پوش علاقہ تھا ۔وہاں ایک بیبی بہت خوبصورت ، ماڈرن قسم کی بیوہ عورت ، نو عمر وہاں آ کر رہنے لگی ۔ اس کے دو بچے بھی تھے ۔ہم جو سمن آباد کے "نیک " آدمی تھے ۔ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آکر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے ۔ اور اس کا انداز زیست ہم سے ملتا جلتا نہیں ہے ۔ایک تو وہ انتہائی اعلا درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی ، پھر اس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی۔تیسری اس میں خرابی یہ تھی کہ اس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتیں تھیں ۔اس کے جو دو بچے تھے وہ گھر سے باہر بھاگتے پھرتے تھے ، اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے ۔لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے اور جن گھروں میں جاتے وہیں سے کھا پی لیتے ۔یعنی گھر کی زندگی سے ان بچوں کی زندگی کچھ کٹ آف تھی ۔ اس خاتون کو کچھ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے ۔ گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھ دیکھ کر آپ جان جاتے ہیں۔ لیکن اس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتیں تھیں ۔ظاہر ہے اس صورتحال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں اخذ کر سکتے ۔اس کے بارے میں ہمارا ایسا ہی رویہ تھا ، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سنا رہا ہوں ، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہونگے ۔ ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے محلے میں آباد ہو گئی ہے ۔ میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا ، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی ۔کوئی کام نہیں کرتی تھی ۔ اسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا ۔بچوں کو بھی کئے بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی ۔ ایک روز وہ سبزی کی دکان پر گر گئی ، لوگوں نے اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی ۔تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی ، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی ۔جو بندے اس کے ہاں آتے تھے ۔انھوں نے ہی اس کے کفن دفن کا سامان کیا ۔بعد میں پتا چلا کے ان کے ہاں آنے والا ایک بندہ ان کا فیملی ڈاکٹر تھا ۔ اس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا ۔ اس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی skin وغیرہ کی کہ اس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی ۔جس پر زخم ایسے تھے اور اسے خوشبو کے لئے اسپرے کرنا پڑتا تھا ، تا کہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو ۔اس کا لباس اس لئے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جو بدن کو نہ چبھے ۔دوسرا اس کے گھر آنے والا وکیل تھا ، جو اس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا ۔ تیسرا اس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا ، جو اپنی بھابھی کو ملنے آتا تھا ۔ ہم نے ایسے ہی اس کے بارے میں طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا ، تو وہ بچوں کو دھکے مار کر گھر سے نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی ۔ میرا یہ سب کچھ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام الله پر چھوڑ دیں وہ جانے اور اس کا کام جانے ۔ ہم الله کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں ، کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے آدمی سارے کا سارا "چبہ" ہو جاتا ہے ، کمزور ہو جاتا ہے ، مر جاتا ہے ۔ الله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Dozakh Ki Aag


بغداد میں ایک نوجوان تھا ۔وہ بہت خوبصورت تھا ، اور اس کا کام نعل سازی تھا ۔ وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا ۔نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی " جمور " یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے شکل دیتا تھا ۔ لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا ؟ اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے ۔اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی ۔اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا " یہ تو کوئی اور ہی بات ہے ۔ " اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ ؟ اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے ، اور کسی حادثے کا شکار ہو کے وہ دونوں فوت ہو گئے ۔ اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی ۔وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی ، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے ۔ آخر کار نہایت غمزدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی ۔ اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا " کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے " ؟میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے ۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں ؟ اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا ۔میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا ۔ میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاونگا وہ لڑکی چلی گئی ۔اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا ۔جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا ۔جو میری دسترس میں تھا ۔جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑہائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریب المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں ۔ اس نے مزید کہا " اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے " ۔ وہ نوجوان کہنے لگا میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا - میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا ۔اس لڑکی نے مجھے کہا کہ " میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں " ۔ اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا ، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ " مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو" ۔ یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ " اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے " ۔ یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ " اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے "۔ نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی ۔ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا ۔میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں ۔

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba


آپ نے غور سے میری طرف دیکھا اور انگلی اٹھا کر کہا ، نوٹ ! " مباحثہ ہمیشہ کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور شوکت نفس کے لئے کیا جاتا ہے " ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Naqable-Yaqeen


ایک بڑی خوبصورت دھان پان کی پتلی سی لڑکی ایک ٹوٹے سے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر انار کلی بازار آئی۔ وہاں میں اپنے دوست ریاض صاحب کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا ۔اس لڑکی نے آ کر کہا کہ کیا آپ کے پاس کوئی اعلیٰ درجے کا عروسی جوڑا ہوگا۔تو میرے دوست نے کہا کہ جی بلکل ہے ۔ یہ دس ہزار کا ہے ۔ یہ پندرہ ہزار کا ۔ یہ بیس ہزار کا ہے ۔ پسند کر لیجئے۔ بہت اچھے ہیں ۔یہ پچیس ہزار کا بھی ہے ۔وہ کہنے لگی بس بس یہاں تک کا ہی ٹھیک ہے ۔ کیا مجھے اس پہن کر دیکھنے کی اجازت ہے ۔میرے دوست کہنے لگے ہاں ہاں ضرور ۔ یہ ساتھ ہمارا ٹرائے روم ہے آپ ٹرائے کریں ۔وہ لڑکی اندر گئی اس کے ساتھ ایک سہما ہوا اور ڈرا ہوا نوجوان بھی تھا ۔وہ عروسی جوڑا پہن کر باہر نکلی تو دوکاندار نے کہا ! " سبحان الله بیبی یہ تو آپ پر بہت سجتا ہے ایسی دلہن تو ہمارے پورے لاہور میں کبھی ہوئی نہ ہوگی "۔ (جس طرح سے دوکاندار کہتے ہیں )کہنے لگی جی بڑی مہربانی ٹھیک ہے ۔ اسے دوبارہ سے پیک کر لیں ۔ وہ مزید کہنے لگی کہ میں تو صرف ٹرائے کے لئے آئی تھی میں اپنے اس خاوند کو جو میرے ساتھ آیا ہے یہ بتانے کے لئے لائی تھی کہ اگر ہم امیر ہوتے اور ہمارے پاس عروسی جوڑا ہوتا اور اگر میں پہن سکتی تو ایسی دکھائی دیتی۔ آج ہماری شادی کوسات دن گزر چکے ہیں ۔ ہم الله کے فضل سے بہت خوش ہیں ۔لیکن میں اپنے خاوند کو جو بڑا ہی ڈپریسڈ رہتا ہے اسے خوش کرنے آئی تھی۔ میرے دوست نے کہا کیا آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں ؟ اس نے کہا نہیں ہمارے پاس پیسے تو تھے لیکن میری ایک چھوٹی بہن جو ایم بی بی ایس کر رہی ہے اس کو پیسوں کی ضرورت تھی اور میرے والدین نے کہا کہ اگر میں یہ قربانی دوں تو اس کی ضرورت پوری ہو جائے ۔ تب میں نے کہا کہ بسم اللہ یہ زیادہ ضروری ہے ۔ چنانچہ میں نے سادہ کپڑوں میں ہی شادی کر لی۔ جب یہ بات میں اپنے دوستوں کے پاس لے گیا تو انھوں نے کہا کہ it is too good to be true -

Bano Qudsia in Dast-e-Badast


عورت کی کھوپڑی در اصل حجلہ عروسی ہے ۔ اس میں ہمیشہ ڈھولک بجتی ہے ۔ پھر کمبخت چاہتی ہے کہ اسے مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں ۔ عورت پروفیسر ہو چاہے وکیل چاہے ملک کی ادیبہ ہو یا لیڈر اس کے دماغ میں ہمیشہ عشق و عاشقی ہی ٹھنی رہتی ہے ۔