Thursday, October 3, 2013

Bano Qudsia : Qutab Numa


خان صاحب کے بر عکس مجھے دوسروں کی دنیا سدھارنے کا اتنا شوق ہے ، دوسروں کو ٹھیک کرنے کا ایسا چسکا ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کے بغیر میں مجبور لوگوں کو مشورے دیے چلی جاتی ہوں ۔میری نیت ہوتی ہے کہ لوگ مجھے سراہیں ، میری تعریف کریں اور میری دانش کے قائل ہوں ۔مجھے خان صاحب کے ساتھ ایک گلا ہے جو اب وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے جہاں انھوں نے پڑھنے لکھنے میں میری مدد کی ۔میری تربیت میں اتنی تگ و دو کی وہاں مجھ سے ایک راز چھپا گئے کہ نیت کے قطب نما کو کیسے سیدھا رکھا جاتا ہے ۔اتنی بات مجھ پر عیاں ہو گئی ہے کہ نیت کی صفائی ہی سے ان میں محبّت کا چشمہ اندر ہی اندر بہنے لگا تھا ۔وہ نہ تو اس محبّت کا اعلان کرتے اور نہ ہی پرچار کرتے ۔ان کا رابطہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ بڑی خاموشی سے پروان چڑھاتا اور قائم رہتا ۔ان کے چلے جانے کے بعد مجھ پر یہ بھید کھلا کہ ان کے قارئین ، ناظرین ، مداحین کی چاہت بھی کسی طور ان سے وقت کے ساتھ کم نہیں ہوئی ۔

Aehtram by Ashfaq Ahmad


بابا جی کہنے لگے کہ اللہ تو اس کے شہ رگ کے پاس ہے۔ اور تم اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ تمہیں اس کا احترام کرنا پڑے گا۔ یعنی جس بندے کی بھی شہ رگ کے پاس اللہ موجود ہے اس کا احترام کرنا آپ کا فرض ہےاب اس دن سے مجھے ایسی مصیبت پڑی ہے کہ ہمارے گھر میں جو مائی جھاڑو دینے آتی ہے، وہ بہت تنگ کرتی ہے۔ میری کتابیں اٹھا کرکبھی ادھر پھینک دیتی ہے کبھی اُدھر پھینک دیتی ہے۔ اب میں اس سے غصے بھی ہونا چاہتا ہوں لیکن کچھ کہتا نہیں ہوں۔ بانو قدسیہ کہتی ہے کہ آپ اسے جھڑک دیا کریں۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ نہیں اس کے پاس تو اللہ ہے میں اس کو کیسے کچھ کہوں۔ مجھے اس دنیا سےمصیبتِ جاں پڑی ہوتی ہے۔ تارکِ دنیا ہو کر اللہ کو یاد نہیں کرنا بلکہ اللہ کو ساتھ رکھ کے یاد کرنا ہے۔

Wednesday, October 2, 2013

Raja Gidh By Bano Qudsia


آگے جانے والے پیچھے رہے ہوئے لوگوں کو کبھی یاد نہیں کرتے۔۔۔ جس کو کچھ مل جائے، اچھا یا برا، اس کی یاد داشت کمزور ہونے لگتی ہے۔اور جن کو سب کچھ کھو کر اس کا ٹوٹا پھوٹا نعم البدل بھی نہ ملے، ان کا حافظہ بہت تیز ہو جاتا ہے۔۔۔ اور ہر یاد بھالے کی طرح اترتی ہے۔۔۔۔

Nokhaiz.com Kash….ye muqablay bhi munaqid hon


Kash....ye muqablay bhi munaqid hon

Allah Kay Sath Dosti..


ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں۔ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔