Monday, November 4, 2013

Aik Ajeeb Aur Abratnaak Waqia


مکہ مکرمہ میں ایک عالم کا انتقال ہوا ۔ انہیں عام قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور شخص کا انتقال ہوگیا ۔ چونکہ عرب کا دستور ہے کہ ایک قبر میں کئی کئی مردے دفن کرتے ہیں اس لیے اس شخص کو دفن کرنے کے لیے اس عالم کی قبر کھولی گئی تاکہ اس شخص کو بھی اسی قبر میں دفن کردیا جائے لیکن قبر کھولتے ہی ایک عجیب منظر نظروں کے سامنے تھا قبر میں اس عالم کی میت کی بجائے ایک نہایت حسین لڑکی کی میت تھی اور وہ لڑکی کسی یورپین ملک کی معلوم ہوتی تھی ۔ سب لوگ بہت حیران ہوئے اور یہ بات تھوڑی ہی دیر میں سارے علاقے میں پھیل گئی کہ فلاں عالم کی قبر میں انکی میت کی جگہ ایک حسین لڑکی کی لاش ہے ۔ اتفاق سے وہاں پورپ کے کسی ملک سے آنے والا ایک مسلمان سیاح بھی موجود تھا اس نے جب اس لڑکی کی صورت دیکھی تو کہا کہ میں اس لڑکی کو جانتا ہوں یہ فرانس کی رہنے والی ہے اس کا سارا گھرانہ عیسائی ہے لیکن یہ خفیہ مسلمان ہوگئی تھی اور اس نے مجھ سے بھی اسلام کی کچھ کتابیں پڑھیں تھی پھر کچھ دن بعد یہ بیمار ہوکر فوت ہوگئی تو گھر والوں نے عیسائیوں کے قبرستان میں دفن کردیا اور اب اس کی میت یہاں پہنچی ہوئی ہے لوگوں نے کہا کہ اس کی میت یہاں منتقل ہونے کی وجہ تو سمجھ میں آگئی کہ یہ نیک اور مسلمان تھی لیکن پھر عالم صاحب کی میت کہاں گئی ۔ کسی نے کہا ہوسکتا ہے انکی میت اس لڑکی کی قبر میں چلی گئی ہو اس سیاح نے کہا کہ میں حج سے فارغ ہو کر چند دن میں واپس جا رہا ہوں میں اس لڑکی کے ورثا سے مل کر اسکی قبر کشائی کرکے دیکھوں گا کہ کیا معاملہ ہے ان لوگوں نے عالم کے ورثا میں سے ایک شخص اس کے ساتھ کردیا جب وہ شخص واپس گیا تو اس لڑکی کے والدین سے سارا قصہ بیان کیا ۔ وہ بہت حیران ہوئے چنانچہ انہوں نے لڑکی کی قبر کشائی کی تو لڑکی کے تابوت میں اس عالم کی میت تھی جو مکہ میں دفن ہوا تھا وہ لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے ۔ مکہ میں جب یہ خبر پہنچی کے اس عالم کی میت عیسائیوں کے قبرستان میں اس لڑکی کی قبر میں ہے تو سب کو بہت حیرانی ہوئی ۔ کہ لڑکی کا یہاں منتقل ہونا تو اسکے مسلمان ہونے اور نیک ہونے کی وجہ سے تھا لیکن عالم صاحب سے ایسا کونسا گناہ ہوگیا جس کی وجہ سے انہیں عیسائیوں کے قبرستان میں منتقل کردیا گیا ۔ چنانچہ اسکی بیوی سے پوچھا گیا کہ تیرے شوہر میں ایسی کونسی بات تھی جو اس کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ، اس کے بیوی نے کہا کہ میرا شوہر بہت نیک اور نمازی تھا ، تہجد گزار اور قران کا پڑھنے والا تھا ۔ لوگوں نے کہا کہ سوچ کے بتاؤ کوئی تو ایسی بات ہوگی جس وجہ سے یہ معاملہ ہوا ۔ بیوی نے غور کرکے کہا کہ اس کی ایک بات پر میں ہمیشہ کھٹکتی تھی کہ جب بھی اس پر غسل جنابت واجب ہوتا تو وہ نہانے سے پہلے کہتا کہ عیسائیوں کے مذہب میں یہ بات بہت اچھی ہے کہ ان پر یہ غسل واجب نہیں ہے ہمیں سردی میں بھی نہانا پڑتا ہے ۔ پس اللہ نے اسے انکے درمیان ہی پہنچا دیا جس کے طریقے کو وہ پسند کرتا تھا اور اسلام کے کسی حکم کو ٹھیک نہیں سمجھتا تھا (ذم النسیان صفحۃ 2 ۔ مواضہ اشرفیہ جلد 4 صفحہ 322 ) آج ہم لوگ کتنی ایسی باتیں کرجاتے ہیں جس میں اسلام کے کسی حکم کی حقارت ظاہر ہوتی ہے لیکن ہم پرواہ نہیں کرتے

Hazrat Junaid Bagdari


کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔ ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔ جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔ جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کان میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔ اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔ اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔ کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔ اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ "آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔ ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔ (زلف و زنجیر صفحہ 72)

Amanat


شیخ عبد القادر جیلانی اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھا کر کھاتا رہا یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں، اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہو جاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لئے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لئے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لئے ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ [طالب فقہ] ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم اے بھائی میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہو گیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لئے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لئے مردار بھی حلال ہے اس لئے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی، یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے ، شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ [السیر ۴۴۴، ۴۴۵/ ۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]

Karailay


امی جی نے کریلے بہت شوق سے خریدے تھے۔ زیبا باجی نے بکتے جھکتے کاٹے تھے۔ امی جی نے عبادت کی طرح خاموشی اور لگن سے پکائے تھے، پر زیبا باجی خفا ہو گئی تھیں، اتنی زیادہ کہ کمرے سے باہر نہ نکل رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ ابا جی کو اس مقدمے کی پیروی کرنا ہی ہو گی۔ میں یہی سوچتی ہوئی ان کے کمرے کی طرف چل پڑی اور دروازے پر ہی جیسے میرے قدم ٹھہر سے گئے۔ امی جی رو رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں: "مجھے سہیل بہت یاد آتا ہے جی، وہ پچھلی بار فون پر کہہ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی گھر آ سکتا ہے۔ آپ کو تو پتہ ہے اسے سرپرائز دینے کا کتنا شوق ہے، جانے کب میرا بیٹا گھر آ جائے۔ اسے کریلے بہت پسند ہے نا جی اسی لئے روز پکا لیتی ہوں، سوچیں بھلا کیا سوچے گا میرا بیٹا کہ ماں نے اس کی پسند کے کریلے تک نہ بنا کر رکھے۔ یہ لڑکیاں تو سمجھتی نہیں، آپ تو سمجھتے ہیں نا میری بات"۔ اب امی جی یقیناً اپنی غلافی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کے ساتھ ابا جی کو تائید میں دیکھ رہی ہوں گی اور ساتھ ساتھ اپنی نیلے سوتی دوپٹے سے اپنی آنکھیں بھی بےدردی سے صاف کرتی جا رہی ہوں گی۔ مجھے یوں لگا جیسے میری ماں کے آنسو میری آنکھوں میں رہنے آ گئے تھے ۔