Thursday, November 7, 2013

شہادت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

شہادت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت سیدنا عمرو بن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:''جس دن حضرت سیدنا عمر فاروقِ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کیا گیا اس دن میں وہیں موجود تھا ۔ حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نمازِ فجر کے لئے صفیں درست کرو ارہے تھے۔ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بالکل قریب کھڑا تھا، ہمارے درمیان صرف حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حائل تھے۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفوں کے درمیان سے گزرتے اور فرماتے :اپنی صفیں درست کرلو۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ صفیں بالکل سیدھی ہوچکی ہیں، نمازیوں کے درمیان بالکل خلا نہیں رہا اور سب کے کندھے ملے ہوئے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور تکبیرتحریمہ کہی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ صبح کی نماز میں اکثر سورہ یوسف اور سورہ نحل میں سے قراءت فرماتے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی رکعت میں کچھ زیادہ تلاوت فرماتے تاکہ بعد میں آنے والے بھی جماعت میں شامل ہو سکیں، ابھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز شروع ہی کی تھی کہ ایک مجوسی غلام جو پہلی صف میں چھپ کر کھڑا تھا اس نے موقع پاتے ہی ایک دودھاری تيز خنجر سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ کردیا۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سنائی دی کہ مجھے کسی کُتےّ نے قتل کردیا یا کاٹ لیا ہے وہ مجوسی غلام حملہ کرنے کے بعد پیچھے پلٹا اور بھاگتے ہوئے تیرہ نمازیوں پر حملہ کیا جن میں سے سات شہید ہوگئے ، ایک نمازی نے آگے بڑھ کر اس پر کپڑا ڈالا اور اسے پکڑ لیا، جب اس بدبخت غلام نے دیکھا کہ اب میں پکڑا جاچکا ہوں ، تو اپنے ہی خنجرسے خودکشی کر لی، جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر حملہ ہوا تو صفوں میں دور دور کھڑے اکثر نمازی اس حملہ سے بے خبر تھے جب انہوں نے حضر ت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراء َت نہ سنی تو سبحان اللہ ، سبحان اللہ کہنا شروع کردیا۔ حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز فجر پڑھائی ، اکثر لوگو ں کو نماز کے بعد واقعہ کا علم ہوا۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شدید زخمی ہوچکے تھے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:''اے ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہما!معلوم کرو کہ مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ''آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ باہر گئے ،کچھ دیر بعد واپس آکربتایا: ''مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ابولولو فیروز نے آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ پر حملہ کیا ہے ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''وہی غلام جو لوہار تھا ؟'' حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جواب دیا:''جی ہاں ۔ ' ' حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ''اللہ عزوجل اسے غارت کرے !میری اس سے کوئی دشمنی نہیں تھی ،بلکہ میں نے تو اسے نیکی کی دعوت دی تھی ، میں تو اس کے ساتھ بھلائی کا خواہاں تھا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھوں زخمی نہ ہوا۔'' پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گھر لے جایا گیا۔ حضرت سیدناعمرو بن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:'' ہم لوگ بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر کی طرف چل دیئے ۔ لوگوں پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ گویا اس سے پہلے کبھی ایسی پریشانی اور مصیبت سے دو چار نہ ہوئے تھے۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تسلی دینے لگے: حضور! آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یشان نہ ہوں، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زخم جلد ہی ٹھیک ہوجائیں گے، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کھجور کی نبیز پلائی گئی لیکن وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیٹ سے زخموں کے ذریعے باہر آگئی۔ پھر دودھ پلایا گیا تو وہ بھی زخموں کے راستے پیٹ سے باہر نکل آیا ، لوگ سمجھ گئے کہ اب ہم آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت سے زیادہ دیر تک فیضیاب نہ ہو سکیں گے۔
پھر لوگو ں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرنا شروع کردی، ایک نوجوان آ کر کہنے لگا: ''اے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو مبارک ہو کہ عنقریب اللہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے رِحلت فرمانے والے دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے ملا دے گا ۔اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ! آپ کو خلافت کا منصب عطا کیا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عدل وانصاف سے کام لیا، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اچھے خلیفہ اور لوگوں کے خیر خواہ و محسن ہیں۔'' حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: ''میں تو اس بات کو پسند کرتا تھا کہ مجھے بقدرِ کفایت رزق ملے، نہ کوئی میرا مقروض ہو، نہ ہی میں کسی کا مقروض ہوؤں۔'' پھر وہ نوجوان واپس جانے لگا تو اس کا تہبند ٹخنوں سے نیچے تھا اور زمین پرلگ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگو ں سے فرمایا:'' اس نوجوان کو میرے پاس بلاؤ۔'' جب وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی ہی شفقت سے فرمایا:'' اے بھتیجے !اپنا کپڑا ٹخنوں سے اونچا کر لے، بیشک اس میں تیرے کپڑوں کی پاکیزگی اور تیرے رب کی بارگاہ میں تیرا یہ عمل تقوی اور پر ہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔( سبحان اللہ! قربان جائیے ان پاکیزہ ہستیوں کے جذبہ تبلیغ پرکہ آخری لمحات میں بھی نیکی کی دعوت دینا ترک نہ کی اورا س حالت میں بھی خلافِ شرع کام برداشت نہ ہوسکا۔)
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعا لیٰ عنہما سے فرمایا:''حساب لگا کر بتاؤ، مجھ پر کتنا قرض ہے ؟'' انہوں نے حساب لگا کر بتایا:'' تقریباً چھیاسی ہزار(86,000) درہم ۔''
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اگر یہ قرض میرے مال سے ادا ہوجائے تو ادا کردینا اور اگر میرا مال کافی نہ ہو تو بنی عدی بن کعب کے مال سے ادا کرنا اگر پھر بھی ناکافی ہو تو قریش سے سوال کرنا، ان کے علاوہ اور کسی سے سوال نہ کرنا، پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے صاحبزادے سے فرمایا: '' تم اُم المؤمنین حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں چلے جاؤ اور ان سے عرض کر و کہ عمر بن خطاب اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ اسے اس کے ساتھیوں کے ساتھ دفن کیا جائے اور حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں جگہ عطا فرمائی جائے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور سلام عرض کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رو رہی تھیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا :'' حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو سلام عرض کر رہے ہیں اور اس بات کی اجازت چاہتے ہیں کہ انہیں ان کے ساتھیوں کے قرب میں دفن کیا جائے۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:'' یہ جگہ تومیں نے اپنے لئے رکھی تھی لیکن اب میں یہ جگہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایثار کر تی ہوں، انہیں جا کر یہ خوشخبری سنا دو۔''چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اجازت لے کر واپس تشریف لائے۔
جب حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آگئے ہیں توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''مجھے بٹھا دو۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوسہارا دے کر بٹھا دیا گیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''اے میرے بیٹے! کیا خبر لائے ہو؟ ''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اجازت عطا فرمادی ہے، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خوش ہو جائیں ،جس چیز کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پسند کیا کرتے تھے وہ آپ کو عطا کردی گئی ہے ۔'' یہ سن کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے اس چیز سے زیادہ اور کسی چیز کی فکر نہیں تھی ، الحمد للہ مجھے میری پسندیدہ چیز عطا کردی گئی ہے۔''
پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' جب میری روح پر واز کرجائے تو مجھے اٹھا کرسرکارِ ابد ِقرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے روضہ اقدس پر لے جانا ، پھر بارگاہِ نبوت میں سلام عرض کرنا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کرنا:''عمر بن خطاب اپنے دوستو ں کے ساتھ آرام کی اجازت چاہتا ہے ، اگر وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہاں دفن کردینا اور اگر اجازت نہ ملے تو مجھے عام مسلمانوں کے قبر ستان میں دفنادینا ۔
جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رو ح خالقِ حقیقی عزوجل سے جا ملی تو ہم لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مسجد نبو ی شریف علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں لے گئے،اور حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حجرہ مبارکہ سے باہر کھڑے ہو کر اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو سلام عرض کیا ،اور حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حجرہ مبارکہ میں دفن کرنے کی اجازت طلب کی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت عطا فرمادی ، چنانچہ حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضور نبی پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے جلووں میں حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔

 

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Sab Da Bhala Sab Di Hair


خواتین و حضرات ! دعا کا طریقہ بھی ایسے ہی ہے جیسے نلکا " گیڑ " کر پانی نکالنے کا ہے ۔ جو ہینڈ پمپ یا نلکا چلتا رہے اور بار بار " گڑتا " رہے اس میں سے تو بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے ، لیکن جو ہینڈ پمپ سوکھا ہوا ہو اور اس پر " گیڑے " جانے والی کیفیت کبھی نہ گزری ہو تو آپ چاہے اس پر کتنا بھی زور لگا لیں پانی نہیں نکلتا ۔ اس لیے دعا کے سلسلے میں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے ۔ آپ ہر وقت دعا ماگتے چلے جائیں مگر مانگیں توجہ کے ساتھ ۔

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba : Guftar


گفتار کی بڑی اہمیت ہے ، بلکہ گفتار ہی اہم ہے۔ الفاظ کے اندر ہی خیر و شر کی قوّتیں پنہاں ہوتی ہیں ۔ الفاظ کو آپ لائف سیونگ گولیوں کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور الفاظ ہی کو آپ کلاشنکوف کی گولیوں کے طور پر استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ گفتار میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔

Momin aur Muslim By Ashfaq Ahmad


ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا، مومن اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟۔ بہت لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کے جواب سے مطمئن نہ ہوا، ایک دفعہ ایک گاؤں سے گذرا۔ دیکھا کہ ایک بابا جی گنے کا رس نکال رہے ہیں۔ دل میں خیال آیا کہ ان سے سوال پوچھوں تو میں نے سلام کیا اور اجازت لے کر سوال بتایا۔ انھوں نے سوچا اور جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔ مسلمان وہ ہے جو اللہ "کو" مانتا ہے، اور مومن وہ ہے جو اللہ "کی" مانتا ہے"۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Galti


پیارے بچو ! ٹینشن اس بات کی نہین تھی کہ اس لڑکے کو اس کی مستری استاد نے مرغا کیوں بنایا ہے ۔ ظاہر ہے اس نے کوئی غلطی کی ہوگی یا کام سیکھنے میں کوتاہی ہوئی ہوگی ۔ مجھے یا میرے ذہن میں مسئلہ یہ تھا کہ آخر کوئی بزرگ یا دوسری دوکان کا استاداس کے استاد کو یہ کیوں نہیں آ کر کہتا کہ اسے آج چھوڑ دو ۔ اسے معاف کر دو ۔ یہ آئندہ غلطی نہیں کرے گا ۔ میرا دل کہتا ہے کہ اگر کوئی اسے معافی دلوا دیتا تو وہ لڑکا دوبارہ وہ غلطی نہ کرتا جس پر اسے سزا ملی تھی ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Do Bol Muhabbat Kay..


ایسی بات ہر گز نہیں ہے کہ کوئی بھوکا مرتا، خود کشی کرتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ کیسوں میں یہ عنصر ہو لیکن مجموعی طور پر اور غالب عنصر یہی ہوتا ہے کہ ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے کوئی موت کو گلے لگاتاہے۔ ہم اپنے اپنے کاموں اور غرض کے ساتھ وابستہ ہو گئے ہیں اور ہمارے پاس کسی دوسرےکے لیے وقت نہیں ہے اور لوگ ان کندھوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں جن پر وہ اپنا ماتھا رکھ کے رو سکیں ۔ یہ کوتاہی معاشرے کی ہے۔

Akhri Badshah – Javed Chaudhry


javed Chaudhry