Thursday, June 9, 2011

عشق پیدل بھی سواروں سے اُلجھ پڑتا ہے

ایک ہو کر بھی ہزاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
عشق پیدل بھی سواروں سے اُلجھ پڑتا ہے
سازش ِ زردی ِ موسم میں نہیں گر تُو شریک
کیوں بہاروں کے اشاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
کوئی الزام نہیں تم سے فقط پوچھا ہے
تیر کیا خود ہی شکاروں سے اُلجھ پڑتا ہے؟
خواہش ِ گل میں تو ملتی ہے سزا عجلت کی
یونہی دامن نہیں خاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
گاہے گاہے تجھے کیا ہوتا ہے اللہ جانے
بے سبب اپنے ہی یاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
ایک لمحے کے لیے چاند جو اُوجھل ہو جائے
دل وہ ضدی کہ ستاروں سے اُلجھ پڑتا ہے
ظبط دریا کا بھی دیکھا ہے علی تاصف نے
بوجھ پڑتے ہی کناروں سے اُلجھ پڑتا ہے

No comments:

Post a Comment