Tuesday, February 28, 2012

Motia By Muhammad Khan (Bazam Aaraian)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

تیسرا دن تھا - پچھلے پہر صحن میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی باوقار سی خاتون داخل ہوئی قریب آئے تو میں تعظیمأ کھڑا ہوگیا - خاتون بغیر کسی تمہید کے بولی : 
بیٹا مجھے پہچانتے ہو ؟ 
نہیں ، میں نے کسی قدر معذرت کے ساتھ کہا - 
" میں موتیا کی ماں ہوں " 
ایک لمحے کے لئے میرا دماغ جواب دے گیا ذرا سنبھلا تو کرسی پیش کی ، لیکن اس نے کرسی کی طرف توجہ نہ دی میرے منہ سی نکلا : 
موتیا تو خیریت سے ہے ؟ 
موتیا کی خیریت کی بہت فکر ہے ؟ 
مجھے ڈر تھا آپ اسے ایذا نہ پہنچائیں - 
ہم اور موتیا کو ایذا ؟ موتیا ہماری بیٹی ہے - 
شکر ہے - 
لیکن تمھیں کچھ اس ایذا کا بھی خیال ہے جو موتیا کے ماں باپ کو پہنچی ہے ؟ 
اس فقرے پہ میں چونکا تو تو موتیا کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ، اگلے لمحے میں اس کی پلکیں آنسو نہ تھام سکیں اور ایک گرئیے کے عالم میں اس کے منہ سے نکلا -
" اے کاش میری بیٹی تو یہاں نہ آئی ہوتی -" 
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا - میری زبان گنگ تھی - مجھے اس وقت تک اگر کسی کی رسوائی کا خوف تھا ، تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی رسوائی تھی - موتیا اور اس کے ماں باپ کی رسوائی میرے ذھن میں نہیں آئی تھی - 
میں اسی سوچ میں تھا کہ موتیا کی ماں چل کھڑی ہوئی - جاتے جاتے میری طرف دیکھا اور ایک کرب انگیز لہجے میں کہا : 
" ہر گھر میں موتیا کا چرچا ہے اور جب تک تم یہاں موجود ہو ، رہے گا -" 
میں نے پیچھے چلتے ہوئے کہا : 
" آپ اطمینان رکھیں - میں کل شام سے پہلے یہاں سے چلا جاؤنگا - " 
موتیا کی ماں کا چہرہ کھل اٹھا - دروازے سے نکلنے لگی ، تو ممنونیت میں اس کے منہ سے دعانکلی : 
" جیتے رہو ! بھگوان تمہارا بھلا کرے - " 
کوئی گھنٹہ بھر بعد میرے دوست اکرم آئے اور آتے ہی بولے : 
سنا ہے تمھارے گھر موتیا کی ماں آئی تھی ، اور تم نے ہندوؤں سے صلح کر لی ہے - 
پھر ؟ میں نے کہا 
مولوی عبد الغفور بڑے مشتعل ہو رہے ہیں تمھارے خلاف فتویٰ دینے والے ہیں 
میرا قصور ؟ 
مولوی صاحب کے پاس چشم دید شہادت پہنچی ہے کہ موتیا کی ماں کو تمھارے گھر کے دروازے پر دیکھا گیا اور تمھیں دعا دیتے سنا گیا - 
دعا لینا کب سے گناہ ٹھہرا ہے ؟ میں یہ کہ ہی رہا تھا کہ دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے چند لونڈے ایک زبان ہو کر بولے : 
" ہمارا غدار ............ مردہ باد " 
دوسرے روز ہم بالا پور سے اپنی درخواست پر تبدیل ہو کر ایک دوسرے شہر میں پہنچ گئے اور فتوے کے زد سے نکل گئے - وہاں دو روز بھی نہ گزرے تھے کہ ہمارے نام ایک اجنبی سا خط آیا - کھول کر دیکھا ، تو فقط اتنا لکھا تھا : 
" پردیسی نال نہ لائیے یاری ، توڑے لکھ سونے دا ہووے !" 
یہ موتیا کا خط تھا - جہاں فتویٰ نہ پہنچ سکا تھا ، عشق پہنچ گیا - موتیا کی محبّت کو بظاہر خاندان کی بد نامی کا احساس نہ تھا - میرے پہلو میں بھی دل تھا - بے اختیار بھر آیا - چاہا کہ جواب میں اسی شعر کا دوسرا مصرع لکھ بھیجوں اور کلیجہ چیر کر کاغذ پر رکھ دوں : 
" پر اک گلوں پردیسی چنگا ، جد یاد کرے تان رووے !" 
لیکن قلم اٹھایا ، تو ایک بےبس ماں کی روتی آنکھیں سامنے آ گئیں اور قلم رکھ دیا - 

از محمد خان بزم آرائیاں صفحہ ٦٣ ، ٦٤

Monday, February 27, 2012

Ashfaq Ahmad (Baba)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

آپ مراقبہ کریں ، تفکیر کریں ، یا خاموش ہو کر ایسے ہی بیٹھ رہیں - اس میں آپ کو ایک اصول پر ضرور عمل پیرا ہونا پڑیگا ، کہ آپ کے ارد گرد روشنی ہے - روشنی کا بہت بڑا تنبو ہے اور آپ اس کے نیچے بیٹھے ہیں - روشنی کی ایک آبشار ہے - نیا گرا فال ہے اور آپ اس کے امڈتے ہوئےجھلار میں نہا رہے ہیں - 
روشنی کیوں ؟ میں نے پوچھا " خوشبو کیوں نہیں ، رنگ کیوں نہیں ، نظارہ کیوں نہیں ؟ " 
پروفیسر نے کہا " اگر میں عربی میں کہونگا تو تمھاری سمجھ میں نہیں آئے گا بہتر یہی ہے کہ میں اطالوی میں سمجھاؤں - آسان اور سادہ اطالوی میں اور تمھارے قریب ہو کر بتاؤں کہ الله روشنی دینے والا ہے - آسمانوں کواور زمین کو - مثال اس روشنی کی یہ ہے کہ جیسے ایک طاق ہو اور اس کے اندر ایک چراغ ........... اور وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشے میں ، ایک قندیل میں اور وہ قندیل ہے جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ ، تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت والے درخت کا جو زیتون کا ہے اور جو نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف ! 
لگتا ہے کہ اس کا تیل روشنی ہے اگرچے اس میں آگ نہ لگی ہو ............. روشن پر روشن ، نور پر نور .............. الله جس کو چاہے اپنی روشنی کی آگ دکھا دیتا ہے ، اور بیان کرتا ہے - الله کی مثالیں لوگوں کے واسطے ہیں اور الله سب چیز جانتا ہے - " 
میں نے کہا " یہ تو کسی مذھبی کتاب کا بیان معلوم ہوتا ہے ، کسی پرانے صحیفے کا - " 
انھوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے کہا " خداوند زمین و آسمان کی رونق اور بستی ہے اور کائنات کی ساری مخلوقات کو اسی سے نور وجود ملتا ہے - چاند ، سورج ، ستارے ، سیارے ، معلوم اور لا معلوم ، حاضر اور غائب ، انبیاء ، اولیاء ، فرشتے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے - اور ان میں جو واضح اور پوشیدہ روشنی ہے - وہ اسی خزانہ نور کی بدولت ہے - یہی وجہ ہے کہ استاد ، گرو ، پیر مرشد ، شیخ اور ہادی ، باطن کے مسافر کا پہلا قدم اندھیرے سے نکال کر نور کی شاہراہ پر رکھتے ہیں اور پھر اس کی انگلی پکڑ کر قدم قدم چلاتے ہیں - " 
" لیکن اس میں طاق کا کیا مطلب ہے ؟ " میں نے پوچھا " جس میں روشنی کی قندیل رکھی ہے ؟" 
کہنے لگے یوں تو خدا کے نور سے کل کائنات کے موجودات روشن ہیں لیکن گیان ذات کے متلاشی کا جسم ایک طاق کی مانند ہوجاتا ہے - ایک دراز قد محرابی طاق کی طرح ، اور اس کے اندر ستارہ کی طرح کا چمکدار شیشہ قندیل رکھ دیا جاتا ہے - یہ شیشہ اصل میں اس کا قلب ہوتا ہے - جو ایک اینٹینا کی طرح عالم بالا سے متعلق ہوتا ہے اور اپنے سارے سگنل وہیں سے وصول کرتا ہے - 

از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ١٥١

A Great Scholar: Hazrat Abu Huraira (Radi Allah Anhu)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة




Dua


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة


Significance of Giving Charity (Sadqa)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة



Hadees Pak


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة




Abi tak....


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ایک سینئر راہب اور ایک جونئیر راہب ایک ساتھ سفر کررہے تھے - راستے میں ایک دریا آ گیا جسے عبور کرنا تھا - حالیہ بارش کی وجہ سے وہ علاقے جہاں سے بارش کا پانی بھ کر دریا کی طرف آتا ہے اب بھی زیرآب تھے - اور دریا میں پانی کا بہاؤ خاصہ تیز تھا - 
جب وہ دونوں راہب دریا عبور کرنے جا رہے تھے تو انھیں ایک خاصی حسین و جمیل عورت دکھائی دی ، جو خود بھی دریا پار کرنا چاہ رہی تھی - لیکن دریا کی روانی دیکھ کر اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ، وہ بھی اسی کنارے پر تھی ، جہاں دونوں راہب کھڑے تھے - 
عورت نے قریب آ کر سینئیر راہب سے کہا ، کہ کیا وہ اسے دریا پار کرانے میں مدد کر سکتا ہے - 
سینئر راہب نے حامی بھر لی اور اس حسین و جمیل عورت کو اپنے کاندھے پہ بٹھا کر دریا پار کرنے لگا - جونئیر راہب بھی ان کے پیچھے پیچھے دریا میں اتر گیا - 
سینئر راہب نے دریا پار کرنے کے بعد اس عورت کو دوسرے کنارے پر اتار دیا - 
جونئیر راہب بے حد مایوس تھا ، کیونکہ راہب پن کا تقاضا تھا کہ وہ کسی عورت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے ، لیکن راہب پن کا ایک تقاضا اور بھی ہوتا ہے کہ اپنے سے بڑوں کا ادب اور لحاظ کریں گے ، اس لئے جونئیر راہب کی سینئر راہب سے اس کے اس عمل کی وضاحت طلب کرنے کی جرأت نہیں ہوئی - 
ان دونوں نے اپنا سفر جاری رکھا ، کافی دور جانے کے بعد سینئر راہب نے محسوس کیا اس کا جونئیر اچانک خاموش ہو گیا ہے اور بڑی دیر سے اس نے کوئی بات نہیں کی - تب اس نے پوچھا ، " کوئی بات ہو گئی ہے ؟ تم خاصے افسردہ دکھائی دے رہے ہو ! " 
تب جونئیر راہب بولا ، " بطور راہب ہمیں کسی عورت کو چھونے کی ممانعت ہے ، تو پھر آپ اس عورت کواپنے کاندھے پر اٹھا کر کیوں لے آئے تھے ؟ " 
سینئر راہب نے جواب دیا ، " بہت دیر ہوئی ، میں اس عورت کو دریا پار کرانے کے بعد کنارے پر چھوڑ آیا تھا - البتہ لگتا ہے تم ابھی تک اسے اپنے کاندھوں پر اٹھائے ھوئے ہو ! "

Daily Quran and Hadith


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة








Allah per Aitmad aur Yakeen


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ایک مرتبہ کہیں دو میاں بیوی رہتے تھے صدق و محبت اور دوستی کے رشتوں میں جڑے ہوئے۔ ایک دوسرے کے قرب کے بغیر تو چین بھی نہ پاتے تھے مگر طبیعتوں کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قطعی مختلف، خاوند نہایت پُرسکون اور کسی بھی حالت میں غصہ نہ کھانے والا تو بیوی نہایت ہی تیز و طرار اور معمولی سے معمولی بات پر غصے سے بھڑک اُٹھنے والی۔ .
ایک بار دونوں میاں بیوی ایک بحری سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ جہاز کئی دن تک تو سمندر میں پُر سکون طریقے سے چلتا رہا مگر ایک دن اُسے طوفانوں نے آ گھیرا۔ ہوائیں مخالف ہو گئیں اور موجوں کے طلاطم نے سب کچھ اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ طوفان سے سمندری پانی جہاز کے اندر تک بھر گیا۔ جہاز پر موجود مسافروں کے چہروں پر تو پریشانی تھی ہی، جہاز کا ناخدا کپتان بھی اپنی پریشانی نہ چُھپا سکا۔ اُس نے مسافروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ موجودہ حالات میں تو اللہ کی طرف سے کوئی معجزہ ہی جہاز کو اِس طوفان سے بچا سکتا ہے۔
.
کپتان کے اِس بیان سے مسافروں کے دِلوں میں بچنے کی رہتی سہتی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ موت کو قریب پا کر مسافروں نے خوف سے چیخنا اور چلانا شروع کر دیا۔ اُس آدمی کی بیوی پر تو جنونی کیفیت طاری ہو گئی۔ اُسے تو کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا کہ کیا کرے۔ بھاگتے ہوئے اپنے خاوند کے پاس پہنچی کہ شاید مصیبت کی اِس گھڑی میں فرار و نجات کیلئے وہ کوئی بہتر حل جانتا ہو ، یہ دیکھ کر تو اُسے اور بھی طیش آ گیا کہ گرد و نواح میں مسافروں کے آہ و پُکار سے مچی قیامت سے بے تعلق اُسکا خاوند حسبِ سابق پُر سکون طریقے سے بیٹھا ہوا ہے۔ بیوی نے جِھلا کر خاوند کے گریبان میں ہاتھ ڈالا اور اُسے جھنجھوڑ ڈالا اور چیختے ہوئے بولی کہ تُم کیسے بے حِس انسان ہو۔ اچانک خاوند کی آنکھوں میں سُکون کی جگہ غصے کے آثار دِکھائی دیئے اور اُس نے اپنی جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے سینے پر ٹِکا دیا، سپاٹ چہرے اور خشک لہجے میں اُس سے پوچھا: اب بتا، اِس خنجر سے ڈر لگ رہا ہے کیا؟
بیوی نے خاوند کے چہرے پر آئی ہوئی خونخواری کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا: نہیں۔
خاوند نے پوچھا: کیوں؟
بیوی نے جواب دیا: کیونکہ یہ خنجر ایسے ہاتھوں میں ہے جو اُس سے پیار کرتا ہے اور اُسے اِن ہاتھوں پر مکمل بھروسہ بھی ہے۔خاوند نے مُسکراتے ہوئے کہا: بالکل اِسی طرح ہی تو میری مثال ہے۔
یہ خونخوار اور پُر ہیبت موجیں اُس ہستی کے ہاتھوں میں ہیں جو مجھ سے پیار کرتا ہے اور مُجھے اُن ہاتھوں پر پورا بھروسہ بھی ہے۔
پِھر ڈرنا کِس بات کا، اَگر وہ ذات پاک اِن سب موجوں اور طوفانی ہواؤں پر مکمل تسلط اور قابو رکھنے والی ہے

Daily Quran Urdu Translation


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة




Sunday, February 26, 2012

Daily Quran And Hadith


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة







Ashfaq Ahmad (Ahtram-e-Admiat)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

میرے پیارے ملک میں جو مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے ، لوگ ایک دوسرے کا احترام نہیں کر رہے ، اور ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہو رہا کہ دوسرے لوگ جو ہیں ان کے اندر بھی جذبات ہیں ، وہ بھی کچھ ہیں - کامپٹیشن میں اور مسابقت ، اور مقابلے سے آپ کو روکا گیا ہے اور تقویٰ ، نیکی اچھائی کے لئے آپ کو ابھارا گیا ہے کہ ہاں یہاں جتنا ایک دوسرے کا مقابلہ کر سکتے ہو کرو - راز اس میں یہ ہے کہ تقویٰ میں ، اچھائی میں ، نیکی میں جب آپ اپنے مد مخالف سے مقابلہ کریں گے تو ہمیں نیچے ہو کر دیکھنا پڑیگا ، جوں جوں آپ نیچے ہونگے ، جتنی آپ عاجزی کریں گے ، جتنا آپ جھکیں گے ، اتنے آپ تقویٰ میں اونچے ہونگے - جتنا تکبر کریں گے ، جتنا اونچائی میں جائیں گے ، جتنا آپ شیخی بگھارین گے ، جتنا آپ اپنے آپ کو انا عطا کریں گے ، اتنا ہی آپ کا مسئلہ جو ہے وہ ایک مختلف ردھم اختیار کرتا چلا جائے گا - ہاں آپ ضرور کامپٹیشن کریں - میں کامپیٹشن سے منع نہیں کرتا میرا دین کامپٹیشن سے منع نہیں کرتا ، لیکن صرف تقویٰ کی حد تک لازم ہے ، اخلاقی زندگی بسر کرنے کی نیکی اختیار کریں - 
تقویٰ جس میں وہ کامپیٹشن ہو جس سے دوسرے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو وہ آپ کا طرہ امتیاز نہیں ہونا چاہئے کسی بھی صورت میں کسی بھی حال میں 
ہم سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ کہ ہم سوچے سمجھے بغیر پہلے تو کچھ بات منہ سے نکال دیتے ہیں ، اور پھر اپنے تکبر میں اضافے کے لئے اس چیز کو طرہ امتیاز بنا لیتے ہیں جو آپ کے کمال کی وجہ سے نہیں ہوتا - بچوں کے نمبر آجانا ، آپ کا خوش شکل ہونا ، آپ کا چہرہ اچھا ہونا ، آپ کی رنگت گوری ہونا ، یہ محض عطا خداوندی ہے - اس کو تم اپنی تلوار بنا کر گردنیں نہ اتارتے رہو خدا نخواستہ اگر ایسا وقت آگیا کہ صرف آپ ہی کی ذات اس کرہ عرض پہ رہنے لگی تو آپ یا آپ کے بچے کو زندگی گزارنی بڑی مشکل ہو جائے گی 

از اشفاق احمد زاویہ ١ احترام آدمیت صفحہ ٢٣٠ ، ٢٣١

گدھا اِبنِ گدھا (Gadha-Ibne-Gadha)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

گدھا اِبنِ گدھا
ايک دفع كا ذكر ہے كہ عربوں كے ايک اصطبل ميں بہت سے گدھے رہتے تھے ، اچانک كيا ہوا كہ ايک نوجوان گدھے نے كھانا پينا چھوڑ ديا، بھوک اور فاقوں سے اسكا جسم لاغر و كمزور ہوتا گيا، كمزوری سے تو بيچارے كے كان بھی لٹک كر رہ گئے۔ گدھے كا باپ اپنے گدھے بيٹے كی روز بروز گرتی ہوئی صحت كو ديكھ رہا تھا۔
ايک دن اس سے رہا نہ گيا اس نے اپنے گدھے بيٹے سے اسكی گرتی صحت اور ذہنی و نفسياتی پريشانيوں كا سبب جاننے كيلئے تنہائی ميں بلا كر پوچھا، بيٹے كيا بات ہے، ہمارے اصطبل ميں تو اعلٰی قسم كی جو كھانے كيلئے دستياب ہيں، مگر تم ہو كہ فاقوں پر ہی آمادہ ہو، تمہيں ايسا كونسا روگ لگ گيا ہے، آخر مجھے بھی تو كچھ تو بتاؤ، کسی نے تيرا دل دكھایا ہے يا كوئی تكليف پونہچائی ہے؟
گدھے بيٹے نے اپنا سر اُٹھایا اور ڈبڈباتی آنكھوں سے اپنے گدھے باپ كو ديكھتے ہوئے كہا ، ہاں اے والدِ محترم، ان انسانوں نے تو ميرا دل ہی توڑ كر ركھ ديا ہے۔
كيوں! ايسا كيا كيا ہے ان انسانوں نے تيرے ساتھ؟
"يہ انسان ہم گدھوں كا تمسخر اڑاتے ہيں".
"وہ كيسے؟" باپ نے حيرت سے پوچھا۔
بيٹے نے جواب ديا: كيا آپ نہيں ديكھتے كسطرح بلا سبب ہم پر ڈنڈے برساتے ہيں، اور جب خود انہی ميں سے كوئی شرمناک حركت كرے تو اسے گدھا كہہ كر مخاطب كرتے ہيں. كيا ہم ايسے ہيں؟
اور جب ان انسانوں كی اولاد ميں سے كوئی گٹھيا حركت كرے تو اسے گدھے سے تشبيہ ديتے ہيں۔
اپنے انسانوں ميں سے جاہل ترين لوگوں كو گدھا شمار كرتے ہيں، اے والد محترم كيا ہم ايسے ہيں؟
ہم ہيں كہ بغير سستی اور كاہلی كے ان كيلئے كام كرتے ہيں، ہم ان سب باتوں كو خوب سمجھتے اور جانتے ہيں، ہمارے بھی كچھ احساسات ہيں آخر!
گدھا باپ خاموشی سے اپنے گدھے بيٹے كی ان جذباتی اور حقائق پر مبنی باتوں كو سنتا رہا، اس سے كوئی جواب نہيں بن پا رہا تھا، وہ جانتا تھا كہ اسكا بيٹا اس كم عمری ميں كيسی اذيت ناک سوچوں سے گزر رہا ہے، اسے يہ بھی علم تھا كہ صرف كھڑے كھڑے كانوں كو دائيں بائيں ہلاتے رہنے سے بات نہيں بنے گی، بيٹے كو اس ذہنی دباؤ اور پريشانی سے نكالنے كيلئے كچھ نہ كچھ جواب تو دينا ہی پڑے گا.
لمبی سی ايک سانس چھوڑتے ہوئے اس نے كہنا شروع كيا كہ اے ميرے بيٹے سن: يہ وہ انسان ہيں جنكو اللہ تعالٰی نے پيدا فرما كر ساری مخلوقات پر فوقيت دی ى، ليكن انہوں نے ناشكری كی، انہوں نے اپنے بنی نوع انسانوں پر جو ظلم و ستم ڈھائے ہيں وہ ہم گدھوں پر ڈھائے جانے والےظلم و ستم سے ہزار ہا گنا زياده ہيں. مثال كے طور پر يہ ديكھو:
كبھی تو نے ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی كا مال و متاب چُراتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كسی گدھے نے اپنے ہمسائے گدھے پر شبخون مارا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے ہم جنس گدھے كی پيٹھ پيچھے غيبت يا برائياں كرتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنے گدھے بھائی يا اُسكے كسی بچے سے گالم گلوچ كر رہا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھا اپنی بيوی اور بچوں كی مار كٹائی كرتا ہو؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كی بيوياں يا بيٹے اور بيٹياں سڑكوں پر يا كيفے وغيره پر فضول وقت گزاری كرتے ہوں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ كوئی گدھی يا گدھا كسی اجنبی گدھے كو دھوکہ دينے يا لوٹنے كی كوشش كر رہے ہوں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ امريكی گدھے عرب گدھوں كو قتل كرنے كی منصوبہ بندی كر رہے ہوں اور وہ بھی صرف اسلئے كہ ان كے جو حاصل كر سكيں؟
يا تو نے كبھی ايسا ديكھا يا سنا ہے كہ گدھوں كا كوئی گروہ آپس ميں محض جو كے چند دانوں كيلئے باہم دست و گريبان ہو جس طرح يہ انسان آٹا اور چينی كی لائنوں ميں باہم دست و گريبان نظر آتے ہيں۔
يقيناً تو نے يہ انسانی جرائم ہم گدھوں ميں كبھی نہ ديكھے اور نہ سنے ہونگے، جبكہ انسانی جرائم كی فہرست تو اتنی طويل ہے كہ بتاتے ہوئے بھی كليجہ منہ كو آتا ہے۔
يقين كرو يہ انسان جو كچھ مار پيٹ اور پر تشدد برتاؤ ہمارے ساتھ روا ركھتے ہيں وہ محض ہمارے ساتھ حسد اور جلن كی وجہ سے ہے كيونكہ يہ جانتے ہيں كہ ہم گدھے ان سے كہيں بہتر ہيں، اور اسی لئے تو يہ ايک دوسرے كو ہمارا نام پكار كر گالياں ديتے ہيں. جبكہ حقيقت يہ ہے كہ ہم ميں سے كمترين گدھا بھی ايسے كسی فعل ميں ملوث نہيں پايا گيا جس ميں يہ حضرت انسان مبتلا ہيں.
بيٹے يہ ميرى ی تجھ سے التجا ہے كہ اپنے دل و دماغ كو قابو ميں ركھ، اپنے سر كو فخر سے اُٹھا كر چل، اس عہد كے ساتھ كہ تو ايک گدھا اور ابن گدھا ہے اور ہميشہ گدھا ہی رہے گا۔
ان انسانوں كی كسی بات پر دھیان نہ دے، يہ جو كہتے ہيں كہا كريں، ہمارے لئے تو اتنا فخر ہی كافی ہے كہ ہم گدھے ہو كر بھی نہ كبھی قتل و غارت كرتے ہيں اور نہ ہی كوئی چورى چكاری، غيبت، گالم گلوچ، خيانت، دھشت گردى يا آبروريزی۔
گدھے بيٹے كو يہ باتيں اثر كر گئيں، اس نے اُٹھ كر جو كے برتن ميں منہ مارتے ہوئے كہا كہ اے والد، ميں تيرے ساتھ اِس بات كا عہد كرتا ہوں كہ ميں ہميشہ گدھا اِبنِ گدھا رہنے ميں ہی فخر اور اپنی عزت جانوں گا۔

پینگوئن (Penguin)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة


انٹارکٹک قطبی علاقہ جہاں پینگوئن رہتا ہے، وہاں بعض اوقات درجہ حرارت منفی چالیس ڈگری ہوتا ہے۔ اس جانور کے جسم پر چربی کی موٹی تہ ہوتی ہے تا کہ یہ یخ بستہ کر دینے والے ماحول میں زندہ رہ سکے۔ اس کے علاوہ اس کا نظامِ ہضم بھی بے حد تیز ہوتا ہے تا کہ خوراک کو تیزی سے ہضم کر سکے۔ ان دو خصوصیات کی موجودگی میں پینگوئن کے جسم کا درجہ حرارت مثبت چالیس ڈگری ہوتا ہے اور اسی لئے وہ سردی کی پرواہ نہیں کرتے۔
پینگوئن قطبی موسم سرما میں انڈے سیتا ہے۔ مزید یہ کہ انڈے سینے کا کام مادہ پینگوئن نہیں بلکہ نر پینگوئن کرتا ہے۔ یخ بستہ کر دینے والی سردی کے علاوہ جس میں درجہ حرارت منفی چالیس تک گر جاتا ہے، پینگوئن جوڑے کو سال کے اس حصے میں گلیشیروں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پورے موسمِ سرما میں گلیشیر بتدریج بڑھتے جاتے ہیں جس سے انڈے سینے کے مقام اور ساحل کے درمیاں فاصلہ بڑھ جاتا ہے یہی وہ قریب ترین علاقہ ہوتا ہے جہاں پینگوئن کے لئے خوراک دستیاب ہوتی ہے یہ فاصلہ بعض اوقات 100 کلومیٹر تک ہو جاتا ہے۔
مادہ پینگوئن صرف ایک انڈہ دیتی ہے پھر انڈے سینے کا کام اپنے نر ساتھی پر چھوڑ دیتی ہے اور سمندر کی طرف واپس لوٹ جاتی ہے۔ انڈے سینے کے چار مہینوں کے دوران نر پینگوئن کو شدید قطبی طوفانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی بعض اوقات رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے چونکہ اس نے انڈے کی حفاظت کرنی ہوتی ہے اس لئے اس کے پاس شکار کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔ ہر صورت میں قریب ترین خوراک کی جگہ دو روز کے سفر کے فاصلے پر ہوتی ہے۔ نر پینگوئن کو چار مہینوں تک بغیر کچھ کھائے رہنا پڑتا ہے جس سے اس کا آدھا وزن کم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ انڈے کو چھوڑ کر نہیں جاتا۔ اسے شکار کے بغیر کئی مہینے گزارنے پڑتے ہیں مگر یہ شکار کے لئے پھر بھی نہیں جاتا اور بھوک کا مقابلہ کرتا ہے۔
چار ماہ گزر جانے کے بعد جب انڈے ٹوٹ کر بچے نکلنے کا وقت آ جاتا ہے تو مادہ پینگوئن اچانک نمودار ہو جاتی ہے۔ اس سارے عرصے میں اس نے وقت ضائع نہیں کیا ہوتا بلکہ اپنے بچے کے لئے کام کرتی رہی ہے اور اس کے لئے اس نے خوراک زخیرہ کر لی ہوتی ہے۔ سینکڑوں پینگوئن ہوں تب بھی ان کے درمیان ماں اپنے نر ساتھی اور بچے کو تلاش کر لیتی ہے۔ ماں طونکہ اس عرصے میں مسلسل شکار کرتی رہی تھی اس لئے اس کا معدہ بھرا ہوتا ہے یہ اپنا معدہ خالی کر دیتی ہے اور اپنے بچے کی نگہداشت کا کام خود سنبھال لیتی ہے۔
موسمِ بہار میں گلیشیر پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں، برف میں دراڑیں اور سوراخ پڑ جاتے ہیں جن کے نیچے سے سمندر نظر آنے لگتا ہے۔ پینگوئن والدین جلد ہی ان سوراخوں میں مچھلی کا شکار کرنے لگتے ہیں تا کہ اپنے بچے کو خوراک مہیا کر سکیں۔
بچے کو خوراک مہیا کرنا ایک مشکل کام ہے، بعض اوقات والدین خود کافی عرصے تک کچھ نہیں کھاتے تا کہ اپنے بچے کو خوراک مہیا کر سکیں۔ جب ہر شے برف سے ڈھک گئی ہو اس وقت گھونسلا بنانے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔ اپنے بچے کو سردی سے بچانے کے لئے والدین کے پاس ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے کہ وہ بچے کو اپنے پاؤں کے اوپر رکھ کر اپنے پیٹ سے گرمی پہنچائیں۔

خدائے بزرگ و برتر اپنی مخلوق کی ہر ایک ضرورت کو جانتا ہے اور وہی وسیلہ پیدا کرنے والا ہے۔

اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتؤں کو جھٹلاؤ گے (القرآن)

Friday, February 24, 2012

Funny Creativity


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


iPhone Funny Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Funny iPhone Messaging


Ashfaq Ahmad (Hamara Aitmad)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ہمارا سب سے بڑا اندیشہ ہمارا مستقبل یا فیوچر ہے کہ کل کیا ہوگا - آبادی بڑھ جانے کا اندیشہ ، پانی کی کمی کا اندیشہ - اور یہ اندیشہ کہ ہم یہ جو آج مزے کر رہے ہیں اور اعلیٰ درجے کا انگور کھا رہے ہیں ، جاپانی پھل اڑا رہے ہیں ، معلوم نہیں کل میسر ہوگا کہ نہیں - ہم اسی خوف کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں - اس خوف کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے اندر اعتماد کی فضا پیدا کریں ، جب تک خوف کے اندر رہتے ہوئے اور غم میں مبتلا ہو کر آپ کے دل کے گھونسلے میں یقین کا انڈا پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک آپ چل نہیں سکیں گے - 
اس یقین کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے - اگر آپ یہ یقین دل میں بٹھا لیں کہ ہاں ہم ہیں ، ہمارا خدا ہے ، اور اس کے وعدے سچے ہیں - پھر بات بنے گی - 
آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا نجانے اکیسویں صدی میں کیا ہوگا ؟ بجائے اس کے کہ ہم خوشی منائیں اور خوشی خوشی نئی صدی میں داخل ہوں ، ہم اندیشوں میں مبتلا ہو کر بس تھر تھر کانپے جا رہے ہیں - 
بچو ! جو صاحب اعتماد ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اکیسویں بائیسویں صدی جو صدی بھی آئے میں ہوں ، یہ میرا راستہ ہے ، یہ میرے چلنے کی استطاعت ہے - سارے کام بہتر ہونگے - کیوں نہیں ہونگے - 

از اشفاق احمد زاویہ ٣ شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ ١٩٥

Daily Hadees


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة



25 Baray Masail Ka Hal...


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة




Mushtaq Yousfi (Charag Talay say Iqtibas)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

سن عیسوی سے کہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کو یاد رکھنا ہے جن کے بعد میں قبل مسیح آتا ہے - 
اس لئے کہ یہاں مؤرخین گردش ایام کے پیچھے کی طرف دوڑاتے ہیں - ان کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ذہنی " شیس آسن " کرنا پڑتا ہے - جو اتنا ہی دشوار ہے جتنا الٹے پہاڑے سنانا ، اس کو طالب علموں کی خوش قسمت کہیے کہ تاریخ قبل میلاد مسیح نسبتن مختصر اور ادھوری ہے - 
اگرچہ مؤرخین کوشاں ہیں کہ جدید تحقیق سے بے زبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیں -
بھولے بھالے بچوں کو جب بتایا جاتا ہے کہ روم کی داغ بیل ٧٥٣ قبل مسیح میں پڑی تو وہ ننھے منے ہاتھ اٹھا کر سوال کرتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو کیسے پتا چل گیا کہ حضرت عیسا علیہ سلام کے پیدا ہونے میں ٧٥٣ سال باقی ہیں ؟ 
ان کو سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ٧٥٣ ق - م کو ساتویں صدی شمار کریں یا آٹھویں ؟ 
عقل مند استاد ان جاہلانہ سوالات کا جواب اموماً خاموشی سے دیتے ہیں ، آگے چل کر جب یہی بچے پڑھتے ہیں کہ سکندر ٣٥٠ ق- م میں پیدا ہوا اور ٣٢٣ ق - م میں فوت ہوا ، تو وہ اسے کتابت کی غلطی سمجھتے ہوئے استاد سے پوچھتے ہیں کہ یہ بادشاہ پیدا ہونے سے پہلے کس طرح مرا ؟ 
استاد جواب دیتا ہے کہ پیارے بچو ! اگلے وقتوں میں ظالم بادشاہ اسی طرح مرا کرتے تھے - 

از مشتاق یوسفی چراغ تلے سے اقتباس

Thursday, February 23, 2012

Darood Shareef


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة



Ashfaq Ahmad


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ہمارا سب سے بڑا اندیشہ ہمارا مستقبل یا فیوچر ہے کہ کل کیا ہوگا - آبادی بڑھ جانے کا اندیشہ ، پانی کی کمی کا اندیشہ - اور یہ اندیشہ کہ ہم یہ جو آج مزے کر رہے ہیں اور اعلیٰ درجے کا انگور کھا رہے ہیں ، جاپانی پھل اڑا رہے ہیں ، معلوم نہیں کل میسر ہوگا کہ نہیں - ہم اسی خوف کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں - اس خوف کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے اندر اعتماد کی فضا پیدا کریں ، جب تک خوف کے اندر رہتے ہوئے اور غم میں مبتلا ہو کر آپ کے دل کے گھونسلے میں یقین کا انڈا پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک آپ چل نہیں سکیں گے - 
اس یقین کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے - اگر آپ یہ یقین دل میں بٹھا لیں کہ ہاں ہم ہیں ، ہمارا خدا ہے ، اور اس کے وعدے سچے ہیں - پھر بات بنے گی - 
آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا نجانے اکیسویں صدی میں کیا ہوگا ؟ بجائے اس کے کہ ہم خوشی منائیں اور خوشی خوشی نئی صدی میں داخل ہوں ، ہم اندیشوں میں مبتلا ہو کر بس تھر تھر کانپے جا رہے ہیں - 
بچو ! جو صاحب اعتماد ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اکیسویں بائیسویں صدی جو صدی بھی آئے میں ہوں ، یہ میرا راستہ ہے ، یہ میرے چلنے کی استطاعت ہے - سارے کام بہتر ہونگے - کیوں نہیں ہونگے - 

از اشفاق احمد زاویہ ٣ شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ ١٩٥

جمعہ کے دن کی اہمیت (Jumay Kay Din Ki Ahmiat)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة







Juma Mubarak.


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة


Mot, Qabar, Waqt aur Aakhrat...


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة




Jumay kay din ki fazeelat...


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

اے ایمان والو!جب جمعہ کے دن اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔"
"دوڑ پڑو" سے مراد یہ ہے کہ نماز کا ارادہ اور اسکا اہتمام کرو۔ اس سے مراد یہ نہں ہے کہ زورلگاکر دوڑو، جبکہ نماز کے لےو بھی تزے چلنا ممنوع ہے۔
حسن بصری ؒنے فرمایا:"اللہ کی قسم! "دوڑ پڑو" سے مراد قدموں کی دوڑ نہںا ہے، بلکہ نمازکے لے سکون واطمنادن، خالص نتی اور خشوع وخضوع کے ساتھ جانا مرادہے۔" (تفسرت ابن کثرک: ۴ ۵۸۳،۶۸۳)
علامہ ابن القمن ؒ نے فرمایا: "جمعہ کا دن عبادت کا دن ہے، دنوںمیں اسکی اہمتف ایسے ہی ہے جسے اورمہنو ں مںن رمضان کی،اور اس دن دعاکی قبولتا کی ایک گھڑی ایسی ہی ہے جساککہ ماہ رمضان مںت شب قدر۔" (زاد المعاد: ۱۸۹۳)

Behlol aur Haroon Rasheed (Aakhrat ka safar)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

بہلول مجذوب ہارون الرشید کے زمانے میں ایک مجذوب صفت بزرگ تھے۔ ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی جذب کے عالم میں وہ پتے کی باتیں بھی کہہ جایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے پاس پہنچے ۔ ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکردی۔ مزاحا کہا کہ بہلول یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں۔ جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا۔ بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی۔ اور واپس چلے آئے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے۔ عرصہ کے بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ اطبا نے جواب دیا ۔ بہلول مجذوب عیادت کے لئے پہنچے اورسلام کے بعد پوچھا۔ امیر المومنین کیا حال ہے؟ امیر المومنین نے کہا حال پوچھتے ہو بہلول؟ بڑا لمبا سفر درپیش ہے ۔ کہاں کا سفر؟ جواب دیا۔ آخرت کا۔ بہلول نے سادگی سے پوچھا۔ واپسی کب ہوگی؟ جواب دیا بہلول! تم بھی عجیب آدمی ہو۔ بھلا آخرت کے سفر سے بھی کوئی واپس ہوا ہے۔ بہلول نے تعجب سے کہا۔ اچھا آپ واپس نہیںآئیں گے۔ تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کئے اورساتھ ساتھ کون جائے گا؟ جواب دیا۔ آخرت کے سفر میںکوئی ساتھ نہیں جایا کرتا۔ خالی ہاتھ جارہا ہوں۔ بہلول مجذوب بولا۔ اچھا اتنا لمبا سفر کوئی معین ومددگار نہیں پھر تو لیجئے ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا۔ یہ امانت واپس ہے۔ مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا۔ آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے۔ تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں۔ حفاظتی دستے آگے چلتے تھے۔ حشم وخدم کے ساتھ لشکر ہمرکاب ہوتے تھے۔ اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے۔ آپ نے تیاری نہیں کی۔ ہارون الرشید نے یہ سنا تو روپڑے اور کہا۔ بہلول ہم تجھے دیوانہ سمجھا کرتے تھے۔ مگرآج پتہ چلا کہ تمہارے جیسا کوئی فرزانہ نہیں۔

Mohammed Sami Hatrick BPL 2012

junaid Khan Last Over.Pakistan Vs England Winning Moments Of 1st T20

NEW FUNNY Pothwari drama 201I MAASI BIYAH KARASI

Darood Shareef


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

▬▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬
إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬▬▬۞▬

Wednesday, February 22, 2012

Kalma ki fazeelat


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة


Ashfaq Ahmad


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

جو بندہ کسی بہانے یا چالاکی سے ایک الله کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے ، میں عبادات کی یہاں بات نہیں کر رہا ہوں - میں کوئی زیادہ ماتھا رگڑنے کی بات نہیں کر رہا ہوں - میں صرف یہ بات کر رہا ہوں کسی دن کسی وجہ سے ، کبھی سیر کو نکلے ہوئے ، کسی کوئل کو بولتے ہوئےسنتے ہوئے اگر آپ الله سے وابستہ ہو جائیں چاہے کچھ ساعتوں کے لئے ، تو آپ کے اندر اس قدر طاقت آ جائے گی کہ وہ آپ کے کئی سو سال نکال سکتی ہے - 
لیکن ہم اپنی سوچ کے مطابق اور نبیوں کے حکم کے خلاف عبادت سے وابستہ ہو جاتے ہیں ، الله سے وابستہ نہیں ہوتے - 

از اشفاق احمد زاویہ ٣ ویلیوز اینڈ سینسرشپ صفحہ ١٥٦

از ماہر القادری صفحہ ۶۵


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

اتنے گناہ آلودہ ماحول ، بری سوسائٹی اور مذموم گردوپیش میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی کا آغاز ہوا، قدم قدم پر فتنوں کا ہجوم اور برائیوں کا جمگٹھا تھا، نفس کی رغبت ، الجھاؤ اور میلان کے لۓ ہر قسم کی سہولتیں موجود تھیں ، میخانے بھی تھے اور شاہد ان سیمیں بدن کے خلوت کدے بھی، قمارخانوں کی بھی کثرت تھی اور نغمہ و رقص کی بھی بہتات ! وہاں فحش کاری کے اڈے بھی تھے اور بد اخلاقی کے مرکز بھی ، جس طرف جائیے برائیوں کے پھندے لگے تھے اور بد چلنی کے دام بچھے تھے، چھوٹے بڑے ،مرد عورتیں سب کا ایک ہی رنگ تھا-
اس سراپا معصیت ماحول میں عبد اللہ کے در یتیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انتہائی تقوی، طہارت، پاکیزگی اور خوش اخلاقی کے ساتھ دور جوانی اور عہد شباب گزارا ، وہ ان قاتلوں ، سفاکوں اور لٹیروں میں تنہا صلح و سلامتی کا پیامبر ،چوروں، رہزنوں ، پیماں شکنوں اور جھوٹوں میں اکیلا صادق الوعد اور دیانتدار ، جواریوں، شرابیوں، زانیوں اور بد کاروں میں تنہا متقی ، پرہیزگار اور نیک کردار تھا ، زیادہ سے زیادہ نیکی کا تصور جو انسان کر سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی زیادہ نیک اور صالح فطرت تھے- انسانیت کی بلندی کا آخری مقام جو ذہن میں آ سکتا ہے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اس سے بھی بہت بلند تھی-
از ماہر القادری صفحہ ۶۵

Daily Quran and Hadees.


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة






Daily Quran and Hadees..


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة







درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

انسانوں کی اکثریت ہر چیز کو عقل کے پیمانے سے ناپنا چاہتی ہے اورواقعہ بھی یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انسانوں کو عقل کی نعمت سے سرفراز فرما کر تمام مخلوقات میں اس کو وہ مرتبہ عطا کیا کہ ہر اگلے دن ترقی کی حیرت انگیز منزلیں طے کرتا جارہا ہے، لیکن وہ عقل جو عام انسانوں کو عطا ہوئی ہے ، اس کا دائرہ محدود ہے اورخالق کائنات اور نظام کائنات لا محدود۔
لہٰذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ محدود لا محدود کو اپنے دائرہ عمل میں لے لے، اس لیے جو ذات لا محدود ہے اس کے ادراک وعرفان کے لیے علوم انبیا کی ضرورت ہے، جس کو الله تعالیٰ نے وحی والہام کے ذریعہ ان کو عطا کیا ہے کہ وہ ماورائے عقل وگمان باتوں کی تعلیم سے، قافلہ انسانی کو اس رخ پر لے چلیں، جس پر چل کر وہ عقل کی خام خیالی سے اپنے کو بچاسکتا ہے ، علوم انبیا کی مثال اور عام عقل انسانی کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک شخص سونا تولنے کی ترازو سے یہ امید لگائے کہ اس سے پہاڑ تول سکتا ہے۔


Tuesday, February 21, 2012

Shehar-e-Dil kay darwazay By Shazia Ch....


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

محبتوں کو مشروط ہرگز نہیں ہونا چاہیےکہ شرائط، عہدنامے، دھمکیاں، ڈراوے اور چیلنج جزبوں کی لطافت، گہرائی اور معنویت کو مجروح کر ڈالتے ہیں۔ ان میں کھردراپن اور ڈراریں پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر اعتماد کی جگہ خوف بسیرا کرنے لگتا یے۔ خوشی کی جگہ واہمے من آنگن میں لہرانے لگتے ہیں۔ طمانیت کی چھاؤں کے بجائے بےسکونی کی دھوپ رقص کرنے لگتی یے۔ اعتبار ٹوٹ جاتا یے اور دھڑکے جی کا جنجال بنتے چلے جاتے ہیں۔
محبت کو آز......اد ہونا چاہیے۔ ہر شرط سے، ہر خدشے کی زنجیر سے۔

جتنی محبت زیادہ ہوتی یے اتنا ہی مبحت کرنے والے شخص کا ظرف اور دل کشادہ ہوتا یے۔ وہ معاف کرنے اور معافی طلب کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ جھوٹی انا کے خول میں لپٹ کر دوسری جانب سے "پہل" کا انتطار نہیں کرتا۔ اس کے بجائے خود صلح اور امن کا ہاتھ بڑھاتا یے۔
البتہ محبتوں کو محدود کرنے والا شخص ڈراوے، دھمکی اور حاکمیت پسندی سے کام لیتا یے۔ چھوٹا ظرف، چھوٹا دل، اور چھوٹی محبت۔
وہ جزباتی بلیک میلنگ اور بے حسی دکھا کر مقابل کو اپنے دام میں کسنے کی سعی کرتا یے۔

( شازیہ چوہدری کے ناول "شہر دل کے دروازے" سے)

Zaat ka Husn By Khaleel Jibran


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ذات کا حسن 

ہم اپنی ذات کے بارے میں اچھی گفتگو سننا پسند کرتے ہیں جو دراصل ہماری خامیوں کو چھپا رہی ہوتی ہیں۔
اگر ہم اپنی ذات کو پہچان لیں تو کائنات کے آدھے بھید پا لیں۔
ذات کا حُسن اور اسرار فطرت کا عکس ہے۔
ذات کا شعور نہ رکھنے والا حقیر اور کم مایہ شخص ھے۔
اگر تم کسی کی ذات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہو تو اپنی ذات کو سامنے رکھو تاکہ تم سے بد کلامی نہ ہو۔

خلیل جبران