Monday, July 9, 2012

عالمی کپ 1992ء کا سیمی فائنل، عالمی منظرنامے پر انضمام کی آم

عالمی کپ 1992ء میں پاکستان کی مہم کا آغاز بھیانک انداز میں ہوا۔ پے در پے ابتدائی شکستوں کے بعد وہ انگلستان کے خلاف اہم مقابلے میں 72 رنز پر ڈھیر ہو گیا، اُس میچ میں پاکستان کی خوش قسمتی اپنے عروج پر تھی کیونکہ انگلش بیٹنگ کے دوران بارش نے نہ صرف پاکستان کو ایک یقینی شکست سے بچا لیا بلکہ ایک قیمتی پوائنٹ سے بھی نواز دیا۔ یہاں سے عمران خان کے دیوار سے لگے شیروں نے جوابی حملے کا آغاز کیا، جس کی بدولت پاکستان نے پہلی بار عالمی اعزاز اپنے نام کیا۔

خوش قسمتی کے ساتھ ساتھ یہ پاکستان کے سینئر اور نو آموز دونوں کھلاڑیوں کی سخت محنت بھی تھی جس کی بدولت پاکستان ٹورنامنٹ سے باہر ہوتے ہوتے بچا۔ ناک آؤٹ مرحلے سے قبل آخری مقابلے کے روز پاکستان کو نیوزی لینڈ کو لازماً شکست دینا تھی اور پھر انتظار کرنا تھا کہ ویسٹ انڈیز آسٹریلیا کے ہاتھوں سے شکست دوچار ہو تاکہ اُس کی سیمی فائنل تک رسائی ممکن ہو اور قسمت کا ساتھ دیکھیے کہ نتائج بالکل وہی نکلے جو پاکستان چاہتا تھا۔ ایک جانب اُس نے ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہنے والے نیوزی لینڈ کو زیر کیا اور اُدھر ویسٹ انڈیز بھی میزبان آسٹریلیا سے شکست کھا کر پاکستان کی راہ ہموار کر گیا۔ پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہی تھا جس نے آکلینڈ میں اپنے ہوم گراؤنڈ پر کھیلنا تھا۔ میدان تماشائیوں سے کھچاکھچ بھرا تھا جن کا جوش و خروش نیوزی لینڈ کی عمدہ کارکردگی کے باعث عروج پر تھا۔

عمران خان، وسیم اکرم، عاقب جاوید اور مشتاق احمد پر مشتمل پاکستان کے مضبوط باؤلنگ اٹیک کے سامنے نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 262 رنز کا مجموعہ اکٹھا کیا جو اس زمانے میں ایک مشکل ہدف سمجھا جاتا تھا۔ اس میں سب سے اہم حصہ کپتان مارٹن کرو نے ڈالا جنہوں نے 91 رنز بنائے اور چوتھی وکٹ پر کین ردرفورڈ کے ساتھ مل کر 107 رنز جوڑے۔ مارٹن کرو کی اننگز ایک شاہکار تھی، محض 83 گیندوں پر 3 چھکوں اور 7 چوکوں سے مزین اس اننگز میں کرو نے اپنی اہلیت کو ثابت کر دکھایا اور نیوزی لینڈ کو اس مقام پر لا کھڑا کر دیا جہاں سے اس کے فائنل میں پہنچنے کے امکانات پاکستان سے کہیں زیادہ تھے یہاں تک کہ انضمام الحق نے آ کر ان کے تمام منصوبوں کو چوپٹ کر دیا۔

بہرحال، 263 رنز کے مشکل ہدف کے تعاقب میں پاکستان کو ابتداء ہی میں عامر سہیل کی وکٹ گنوانے کے بعد یکے بعد دیگرے عمران خان اور سلیم ملک کی وکٹوں سے بھی ہاتھو دھونا پڑے اور یوں وہ 140 رنز پر اپنے ابتدائی چار بلے باز کھو بیٹھا۔ صورتحال اس حد تک خراب ہو گئی کہ آخری 15 اوورز میں 123 رنز کا مشکل ہدف درکار تھا اور کریز پر بلے بازوں کی آخری مستند جوڑی جاوید میانداد اور انضمام الحق کی صورت میں موجود تھی۔ کپتان عمران خان کے آؤٹ ہوجانے کے بعد میدان میں اترنے والے نوجوان انضمام الحق اس وقت تک بڑی حد تک ایک گمنام کھلاڑی تھے جن کے کیریئر پر محض چند ایک روزہ مقابلے تھے۔ درحقیقت اُس وقت تمام تر ذمہ داری جاوید میانداد پر تھی کہ وہ نہ صرف خود اننگز کو آگے بڑھائیں بلکہ آنے والے آخری بلے باز انضمام الحق کی بھی رہنمائی کريں۔

پھر انضمام نے اپنے بلے کا جادو دکھایا۔ درحقیقت وہ ایک زخمی شیر کی طرح میزبان گیند بازوں پر جھپٹے تھے۔ اگلے اور پچھلے قدموں پر ڈرائیوز، پل شاٹس اور طاقتور سویپس نے کیوی گیند بازوں کی ایک نہ چلنے دی۔ کرس ہیرس کو لانگ آف پر لگایا گیا خوبصورت چھکا آج بھی کئی شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں تازہ ہوگا، جو ہوا میں طویل عرصہ قیام کے بعد فیلڈر کے اوپر سے ہوتا ہوا تماشائیوں میں جا گرا تھا۔ اس یادگار اننگز کو پاکستان کی تاریخ کے بہترین بلے باز جاوید میانداد کی رہنمائی حاصل تھی جو ہر شاٹ کے بعد انضمام الحق کی حوصلہ افزائی کرتے۔ دوسری جانب عالم یہ تھا کہ جیسے جیسے انضمام الحق کے بلے سے شاٹس اگلتے رہے، مقامی تماشائیوں کی آوازیں مدھم پڑتی گئیں اور ساتھ ساتھ نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کی ہمت جواب دیتی گئی۔ مارٹن کرو، جوطبیعت کی ناسازی کے باعث باہر فیلڈ سے باہر چلا گئے تھے اور باؤنڈری لائن کے پاس حسرت و یاس کی تصویر بنے مقابلے کو دیکھ رہے تھے۔ انضمام الحق اور جاوید میانداد نے محض 10 اوورز میں 87 قیمتی رنز کا اضافہ کر کے پاکستان کو بالادست پوزیشن پر پہنچایا۔ انضمام الحق کا حصہ محض 37 گیندوں پر 63 رنز کا تھا اور ان کی اس کمال اننگز نے نہ صرف پاکستان کی فتح کی راہ ہموار کی بلکہ انضمام کو ایک عالمگیر شہرت سے نوازا اور ان کا پورا کیریئر اسی اننگز کی بنیاد پر کھڑا ہوا۔

انضمام الحق کی تراشی ہوئی خوبصورت اننگز سے ہٹ کر دیکھا جائے تو پاکستان کی فتح میں مرکزی کردار جاوید میانداد کا تھا جنہوں نے ناقابل شکست 57 رنز بنائے اور دماغ کو ہمہ وقت حاضر رکھ کر اپنے کیریئر کی یادگار ترین اننگز کھیلی۔ انضمام الحق کے آؤٹ، جی ہاں رن آؤٹ :) ، ہونے کے بعد وسیم اکرم میدان میں اترے اور محض 9 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے لیکن معین خان نے میدان میں آتے ہی ایک بلند و بالا چھکا اور دو خوبصورت چوکوں کے ذریعے 11 گیندوں پر 20 رنز بنا کر بازی پلٹ دی اور پاکستان 49 ویں اوور کی آخری گیند پر تاریخی مقابلہ جیت گیا۔

دوسری جانب پاکستان کے ہاتھوں مسلسل دو شکستیں کھا کر نیوزی لینڈ کے عالمی کپ میں خوابناک سفر کا اختتام ہوا، آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کے ساتھ۔ کیونکہ اس عالمی کپ میں جتنی شاندار کارکردگی نیوزی لینڈ نے دکھائی تھی اتنی کسی ٹیم نے نہیں پیش کی تھی۔ 1992ء کا عالمی کپ راؤنڈ رابن طرز پر کھیلا گیا تھا یعنی تمام ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف ایک میچ کھیلیں گی، اور نیوزی لینڈ نے سوائے پاکستان کے خلاف کسی ٹیم کے خلاف کوئی میچ نہیں ہارا بلکہ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، انگلستان، بھارت اور ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط ٹیموں کو بھی شکست دی لیکن پہلے راؤنڈ کے آخری مقابلے اور پھر سیمی فائنل میں پاکستان کے ہاتھوں پے در پے شکستوں نے ان کے خواب چکناچور کر دیے۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان تاریخ میں پہلی بار عالمی کپ کے فائنل میں پہنچا اور وہاں بھی ایسی ہی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے بالآخر عالمی چیمپئن بن گیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان کبھی عالمی کپ میں سیمی فائنل سے آگے نہیں جا پایا تھا، سب سے افسوس ناک لمحہ وہ تھا جب پاکستان 1987ء کے عالمی کپ میں اپنے ہی میدان پر آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا۔ اس المناک شکست کے زخم پاکستان کے کئی کھلاڑیوں خصوصاً عمران خان، جاوید میانداد، وسیم اکرم اور سلیم ملک کے دلوں میں تازہ ہوں گے اور انہوں نے 1992ء میں ان زخموں کو بھرنے کے لیے جان توڑ کوششیں کیں جو بالآخر رنگ لائیں اور سیمی فائنل میں سخت ترین معرکہ آرائی کے بعد ایک یادگار فتح پاکستان کو ملی۔

بلاشبہ پاک-نیوزی لینڈ سیمی فائنل عالمی کپ کی تاریخ کے بہترین مقابلوں میں ایک قرار دیا جا سکتا ہے جس میں دونوں جانب سے زبردست معرکہ آرائی دیکھنے کو ملی اور سب سے اہم بات یہ کہ اسی مقابلے سے دنیائے کرکٹ کو ایک عظیم بلے باز سے نوازا یعنی انضمام الحق جس نے آنے والے کئی سالوں تک دنیا کے کئی گیند بازوں پر اپنی دہشت قائم کی اور کئی بین الاقوامی و قومی ریکارڈز اپنے نام کیے۔

 


 

No comments:

Post a Comment