Wednesday, July 11, 2012

جاوید میانداد کی آپ بیتی "Cutting Edge" سے اقتباس

عمران 25 نومبر 1952ء کو لاہور میں عمران خان نیازی کی حیثیت سے پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپر مڈل کلاس کے ماحول میں پروان چڑھے تھے۔ ان کو شروع میں ہی کرکٹ کھیلنے کا موقع مل گیا تھا۔ جب وہ خاندان کے دوسرے ارکان کے ساتھ لاہور کے زمان پارک اورپھر ایچی سن کالج میں کھیلا کرتے، جو نو آبادیاتی جڑیں رکھنے والا انگلش اسٹائل پبلک اسکول ہے۔ ہائی اسکول کے زمانے میں عمران انگلستان چلےگئے جہاں ان کی باقاعدہ کرکٹ کی بنیادیں پڑیں اور انہوں نے شروع کے سال وارسسٹرشائر کاؤنٹی کرکٹ کلب اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے لئے کھیلتے ہوئے گزارے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ایک نوجوان اپنے آپ کو دریافت کرتا ہے اور اپنی امیدوں اور تمناؤں کو اپنی بعد کی زندگی کی امنگوں کا روپ دیتا ہے۔ عمران کے یہ تصورات بھی کہ وہ خود کیا ہیں، کرکٹ اُن کے لیے کیا مقام رکھتی ہےاوران کو کہاں تک لے جاسکتی ہے؟ اسی دور میں انگلستان میں پروان چڑھے۔ عمران کیوں اتنے عمدہ کرکٹر بنے اس کا سبب بھی یہی تھا کہ ان کی پروفیشنل کرکٹ کی بنیادی تعلیم اور پھر سارا ایکسپوژر انگلستان میں ہوا۔ انہوں نے سخت محنت کی، انتہائی جانفشانی کے ساتھ۔ یہ سب کچھ شروع کرنے کی صلاحیت ان میں قدرت کی ودیعت کردہ تھی جسے انہوں نے اپنی محنت، لگن اور ذہانت سے پروان چڑھایا۔ انہوں نے کرکٹ کی درست اپروچ رکھنے کی ساری اچھی اچھی باتیں سیکھ لیں۔ کم ازکم اس زمانے میں یہ کام انگلستان میں ہی ممکن تھا۔ عمران کی سخت محنت کی یہ استعداد ان تمام نوجوانوں کے لئے جو کرکٹر بننا چاہتے ہیں ایک روشن مثال ہے۔ بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جو زندگی کی کسی بھی شعبے میں کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے کھیل کے شروع کے زمانے میں ہی عمران نے اپنی جسمانی تربیت کا ایک سخت معمول وضع کرلیا تھاجس کی وہ کھیلنے کے آخری دن تک پابندی کرتے رہے۔ مثلاً وہ پابندی سے اپنی انتہائی سخت جان جوکھوں میں ڈالنے والی ورزش کرتے اور رننگ کیا کرتے۔ پابندی سے اپنے شیڈول کے مطابق 6 سے 8 اوورز کرایا کرتے۔ وہ کسی بلے باز کو گیند بازی کرانے کے بجائے 22 گز کے فاصلے پر ایک وکٹ گاڑ کر اس کا نشانہ لےکرگیندیں پھینکا کرتے۔ اس عالم میں تقریباً روزانہ عمران مسلسل 6 سے 8 اوورز کیا کرتے۔ اس صورتحال میں صرف عمران ہوتے اور ان کی گیندبازی کا فن، جسے دیکھنے والا کوئی نہ ہوتا۔ اس زمانے میں کوچنگ کو وہ رواج نہیں تھا جو 1990ء کی دہائی میں وجود میں آیا۔ بہت کم رہنمائی ملتی اور آپ کو اپنے راستے خود بنانا پڑھتے تھے۔ خود اپنی تحاریر میں عمران نے اپنی کرکٹ تعلیم کے اس پہلوکو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی مگر اس پہلو کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہےکہ عمران زیادہ تر خود ہی خود کو سکھایا کرتے تھے۔ ان کو اپنی جسمانی صلاحیتوں اور ذہنی خوبیوں پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ جس سے ان کو بڑے فائدے حاصل ہوئے۔ اس کام کے لئے کہ آپ خود کو اتنا سکھاسکیں اور ورلڈکلاس کے کھلاڑی بن جائیں بڑے طاقتور ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران کی شخصیت کے اس پہلو کو لوگ غرور سمجھنے لگتے ہیں مگر یہ محض ان کے ذہن کی قوت کا کرشمہ ہے۔

اٹھارہ سال کی عمر میں 1971ء میں پاکستان ٹیم کے ساتھ انگلستان دورے کے لئے منتخب کیا گیا ،جہاں وہ وارسسٹرشائر گرامراسکول میں پڑھنے کے لئے رک گئے۔ یہ انگلستان میں ان کی کرکٹ تعلیم کی ابتداءتھی۔ اگر وہ 1971ء کے دورۂ انگلستان کے بعد پاکستان واپس آگئے ہوتے تو شاید اس پائے کے کرکٹر نہیں بنتے جیسے کہ وہ بالآخربنے۔ پھرہائی اسکول سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ آکسفرڈ یونیورسٹی چلے گئے۔ عمران کی کرکٹ کو آگے بڑھانے میں آکسفرڈ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں بڑا پرسکون ماحول تھاجوکسی بھی ذہین کرکٹر کی خداداد صلاحیتوں کو نکھارنے میں بےحد مددگارثابت ہوتا ہے۔ آکسفرڈ میں عمران نے ہم عصروں سے اپنا قد آگے نکالا اور سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ انہوں نے موقع سے پوراپورا فائدہ اٹھایا اور سخت محنت کی۔

آکسفرڈ کےبعد عمران نے وارسسٹرشائر کاؤنٹی سے کھیلنا شروع کردیا اور اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی بدولت خود کو نئے ماحول سے اچھی طرح ہم آہنگ کرلیا۔ انگلش کاؤنٹی کرکٹ میں گیندبازی کے قوانین ایسے ہوتے ہیں جن کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہر گیندباز کولازمی طورپر ایک گھنٹے میں بیس اوورز کرانے پڑتے ہیں اس کا مطلب ہے دو تین منٹ میں ایک اوورکا ریٹ برقرار رکھنا ہوتا ہے جبکہ ایک حقیقی تیزگیندباز کو ایک اوور میں چار سے پانچ منٹ لگتے ہیں۔ عمران ورسٹرشائر سے سسیکس چلے گئے جہاں میں اور وہ دو سیزن ایک ساتھ کھیلے۔ اگر چہ ہم ہوو میں الگ الگ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے لیکن ہم نے خاصاوقت ساتھ گزارا اور اکثر شام کو ایک دوسرے سے ملا کرتے تھے۔ ہم ساتھ ساتھ سفر کرتے اور کبھی موقع ملتا تو ساتھ رہا کرتے۔ اس وقت تک ہم دونوں پاکستان کے لئے بھی کھیلنے لگے تھے لیکن ہماری دوستی کی ابتداء1977ء میں سسیکس میں ہی ہوئی تھی۔ سسیکس میں ہی میں نے عمران کو انگلستان کے اپنے زمانے کے مشہور تیزگیندباز جان سنو کی نگرانی میں پروان چڑھتے دیکھا۔ انہوں نے خوفناک رفتار حاصل کرلی تھی اور کاؤنٹی کرکٹ میں بھی اُن کی اچھی خاصی ساکھ بن گئی تھی۔

اب عمران خاصے چالاک گیندباز بن چکے تھے، انہوں نے اپنی گیندبازی میں ایسی حرکتیں کرنا سیکھ لی تھیں جن کی بلے باز بہت کم توقع کیا کرتے تھے۔ مثلاً وہ کریز کی چوڑائی کا فائدہ لےکر اس کے باہر کی طرف سے گیندپھینکتے جو اندر کی طرف آتے ہوئے پرے چلی جاتی۔ اسی زمانے میں انہوں نے ریورس سوئنگ کا نادر فن سیکھا۔ عمران کبھی اپنی کامیابیوں اور کارناموں پر تکیہ کرکے نہیں بیٹھ جاتے بالکہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں رہتے اسی لئے انہوں نے کبھی کرکٹر کی حیثیت سے اپنا آگے بڑھنے کا سفر تھمنے نہیں دیا۔ جب وہ اپنی گیندبازی میں مہارت پیدا کرچکے تھے تو وہ اپنی بلے بازی کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بلے بازی کی طرف بھی ایک حقیقی باقاعدہ بلے باز کی حیثیت سے گئے اور خود میں بلا کا اعتماد، طریقہ اور تکنیک پیدا کی۔ یہاں بھی کاؤنٹی کرکٹ نے اُن کی بڑی مدد کی۔ انہوں نے سسیکس کے لئے مڈل آرڈر بلے باز کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور ایک ذمہ دار روایتی بلے باز بن گئے۔ عمران بلاشک و شبہ اپنے زمانے کے بہترین آل راؤنڈر تھے اور یہ کوئی کم اہم بات نہیں کہ جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ہم عصروں میں کپیل دیو، رچرڈ ہیڈلی، این بوتھم جیسی مایہ ناز شخصیتیں شامل تھیں، عمران ان سب میں بہترین بلے باز تھے اور گیند بازکے طور پر بھی وہ کسی سے کم نہیں تھے اس کے ساتھ وہ ایک کامیاب کپتان بھی تھے۔ انگلش میڈیا نے این بوتھم کو آل راؤنڈرز کا حرف آخر قراردیا مگر میرے مطابق وہ غلطی پر تھے۔ سلپ کیچنگ میں معمولی غلطیوں سے ہٹ کر ہر لحاظ سے عمران خان بوتھم سے بہترتھے۔

عمران خان نے 362 ٹیسٹ وکٹوں کے ساتھ اپنا کیریئر ختم کیامگر وہ 400 کلب کے اعزازی رکن قراردیئے جاسکتے ہیں۔ پنڈلی کی ہڈی میں اسٹریس فریکچر کی وجہ سے اپنی گیند بازی کے عروج کے سالوں میں وہ چندسال باؤلنگ نہیں کراسکے۔ اگر وہ زخمی نہ ہوئے ہوتے تو یقیناً اس سے کہیں زیادہ وکٹیں لے لیتے۔ عمران خان اس قسم کے آدمی ہیں جو کبھی بھی ہار نہیں مانتے۔ جب ہم 1992ء کا ورلڈ کپ کھیلنے آسٹریلیا گئے تو ان کا کاندھا زخمی ہوگیامگر انہوں نے ہار نہیں مانی اور تہیہ کیا کہ اگر وہ گیندبازی کے ذریعے کارکردگی نہیں دکھا سکتے تو ایک بلے باز کی حیثیت سے مقابلہ کریں گے اور نمایاں کارکردگی دکھائیں گے۔ اگر وہ فائنل میں میرے ساتھ دوسرے اینڈ پر بلے بازی نہیں کررہے ہوتے تو ہم شاید ہی جیت پاتے۔ عمران پاکستان کے لئے جہاں ایک انتہائی کامیاب کپتان تھے وہاں وہ ایک خوش نصیب کپتان بھی تھے۔ وہ اکثر خطروں سے کھیلتے ہوئے بلے بازی کرتے اور سرخروہوجاتے۔ کم ازکم میرا تجربہ یہی کہتا ہے وہ ایک سننے والے کپتان بھی تھے۔ میدان میں ہمیشہ ہم دونوں صلاح مشورہ کرتے رہتے اور وہ ہمیشہ میری تجویزوں کو اہمیت دیتے تھے۔

سچی بات ہے وہ سخت تقاضا کرنے والے کپتان بھی تھے۔ ان کو مجھ سمیت ہرایک سے بڑی بڑی توقعات رہتی تھیں اور اگر آپ ان کی توقع پر پورے نہیں اترتے تو وہ صاف صاف سنا دینے، ڈرتے نہیں تھے۔ ایک زبردست کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کے لئے ان کا پسندیدہ لفظ ٹائیگر ہوتا تھا۔ اس خطاب کی اپنی ایک ''رنگین امیج'' تھی جو ہر ایک متاثر کرتی اور اچھی کارکردگی کی ترغیب دیا کرتی کیونکہ ہر ایک عمران کی نظر میں شیر بننا چاہتاتھا۔ وہ کھلے لفظوں میں مگر بڑے حساب کتاب سے تنقید کرتے ۔ وہ کھلاڑیوں کو جس طرح سخت سست کہتے اس میں ایسی کوئی خاص بات ہوتی کہ کوئی بھی ان کی بات کا برا نہیں مانتا بلکہ اُن کی تنقید کو مثبت انداز سے لیتااور اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش کیا کرتا۔ یہ صلاحیت کسی بھی کپتان کے لئے انتہائی موثر تحفہ ہوسکتی ہے۔ میں مجموعی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ عمران کسی بھی کھلاڑی کی خوبیوں کو صحیح صحیح ناپنے والے غضب کے جج تھے۔ کبھی کبھار وہ کسی کھلاڑی میں کوئی خاص بات دیکھ لیتے تو اس کھلاڑی کا ساتھ دیتے اور اسے آگے لانے میں مدد دیتے۔ خواہ وہ کھلاڑی خراب ہی کیوں نہ کھیل رہا ہوتا اس کے لئے ایک مشہور معاملہ منصور اختر کا ہے۔ جن کو عمران ان کی پے در پے ناکامیوں کے باوجود ٹیم میں شامل کرتے رہے۔ دوسری طرف یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ عمران منصور اختر کا ساتھ دینے میں نامناسب حد تک آگے چلے گئے تھے اور اس سے ان کی شخصیت کا ''ضدی'' پہلوجھلکنے لگا تھا۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میرے خیال میں عمران کی یہ حکمت عملی صحیح تھی کیونکہ منصور اخترصحیح تکنیک رکھنے والے ایک اچھے کھلاڑی تھے۔ اور کرکٹ کی سمجھ تقاضا کرتی تھی کہ ان کی پشت پناہی کی جائے۔ یہ ان کی بدنصیبی تھی کہ وہ کلک نہیں کرسکے لیکن منصور اختر میں یقیناً پاکستان کا بہترین کھلاڑی بننے کے پورے پورے اجزائے ترکیبی موجود تھے۔


 

No comments:

Post a Comment