Showing posts with label Pakistan Flag. Show all posts
Showing posts with label Pakistan Flag. Show all posts

Friday, August 14, 2015

Despite the curfew in Kashmir independence is hoisted ..

سری نگر: مقبوضہ کشمیر کے عوام اور حریت رہنماؤں کی پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کا اظہار وہاں کے عوام وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں اور پاکستان کے 69 ویں یوم آزادی کے موقع پر بھی کرفیو کے باوجود وہاں سبز ہلالی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی پولیس نے کشمیری عوام کی جانب سے پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر جشن نہ منانے کے لئے وادی میں کرفیو لگا دیا جس کے باوجود حریت رہنماؤں کی جانب سے پاکستان سے اپنی محبت کے اظہار میں جشن آزادی کے موقع پر ریلیاں سبز ہلالی پرچم لہرائے گئے۔ خاتون حریت رہنما آسیہ اندرابی نے ایک بار پھر سری نگر میں پاکستانی پرچم لہرا کر قابض بھارتی فوج کو پیغام دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں۔
واضح رہے کہ آسیہ اندرانی نے چند ماہ قبل بھی سری نگر میں اپنی رہائش گاہ پر پاکستانی پرچم لہرایا تھا جس کی پاداش میں ان کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔

Pakistan Flag ..

پاکستانی پرچم


پرچم قوم کی عزت اور جاہ و جلال کا نشان ہوتا ہے پاکستانی پرچم کا خاکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر امیرالدین قدوائی نے ڈیزائن کیا تھا، پاکستانی پرچم کی ساخت اور رنگوں کی مناسبت یوں ہے کہ پرچم کا بڑا سبز حصہ مسلم تشخص کو اجاگر کرتا ہے اور چھوٹا سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی ظاہر کرتا ہے ہلال ترقی کی علامت ہے جبکہ ستارہ روشنی اور علم کا نشان ہے، پہلے قومی پرچم ساز کی تلاش کے لیے مرحوم حکیم محمد سعید اور معروف شاعر جمیل الدین عالی اور دیگر اکابرین نے بھی اخبارات میں کالموں، مراسلات اور بیانات کے ذریعے کھوج لگانے کی اپیل کی تھی اور ان کی کوششوں سے دو نام سامنے آئے کہ جون1947ء کو پاکستان کا پہلا پرچم تیار کرنے والے دو بھائی ٹیلر ماسٹر افضال حسین اور ان کے چھوٹے بھائی ماسٹر الطاف حسین تھے۔جمیل الدین عالی نے 2004ء میں ’’پاکستانی پرچم ساز کون ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز قرار دیا لیکن انھوں نے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے کے خط کا بھی ذکر کیا کہ بقول ظہور الحسن ان کے والد ماسٹر الطاف حسین نے پہلا قومی پرچم تیار کیا ہے عالی جی نے اس خط کا اپنے اگلے کالم میں تذکرہ کرتے ہوئے صحافیوں سے اس معاملے کی تحقیق کرکے کھوج لگانے کی بھی اپیل کی تھی، 8 مئی 1979ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کراچی کے دورے پر آئے تو ان سے ماسٹر افضال حسین نے ملاقات کی۔صدر مملکت نے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) اور مراعات دینے کا اعلان کیا اور انھیں 5 ہزار روپے نقد بطور انعام دیے اس سلسلے میں افضال حسین کا انٹرویو پہلی بار 19 اگست 1979ء کو مقامی اخبار میں شائع ہوا اس وقت ان کے چھوٹے بھائی الطاف حسین انتقال کرچکے تھے۔ماسٹر افضال حسین کے انٹرویو کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ’’میں نے جلدی سے پیمائش اور رنگوں کے تناسب سے کپڑے کی تراش خراش کرکے الطاف حسین کو دیا جسے انھوں نے سی دیا‘‘، یکم دسمبر1979ء کے روزنامہ جسارت میں مرحوم ماسٹر الطاف حسین کی بیوہ شکیلہ بیگم کی جانب سے بیان شایع ہوا کہ ’’پاکستان کا پہلا پرچم میرے مرحوم شوہر نے تیار کیا تھا‘‘ شکیلہ بیگم نے بعد ازاں صدر مملکت اور ارباب اختیار کو خطوط کے ذریعے آگاہ کیا، سرکاری سطح پر تحقیقات ہوئی کئی محکموں کے افسران اور پاک فوج کے افسر انکوائری کے لیے ان کے گھر آئے اور دستاویزات اور لائف میگزین میں چھپنے والی ماسٹر الطاف حسین کی تصویر دیکھی، جس پر ماسٹر افضال حسین کو صدارتی تمغہ دینے کی کارروائی سرخ فیتے کی نذر ہوگئی۔بعدازاں ماسٹر افضال حسین نے مقامی اخبار کو 19 دسمبر 1979ء کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ قومی پرچم سینے کی خدمت پر میرے لیے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سرخ فیتے کا شکار ہوگیا ہے انھوں نے اس وقت صدر پاکستان اور حکومتی اکابرین کو تفصیلات پر مبنی خط بھی روانہ کیا، اسی سلسلے میں 8 اگست 1981 کو ان کا بیان مقامی اخبار میں شائع ہوا کہ میں پیرانہ سالی اور ناسازی طبع کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہوں اور 3 سال گزرجانے کے باوجود حکومت نے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی مجھے عطا نہیں کیا۔پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کے حوالے سے ماسٹر افضال حسین کی صاحبزادی قمر سلطانہ کے مطالبے کی خبر مقامی روزنامے میں 2 فروری 2000ء کو شایع ہوئی جس میں قمر سلطانہ نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے ماسٹر افضال حسین کو بعداز مرگ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کا نام نصابی کتب میں بطور پہلے قومی پرچم ساز کے شامل کرنے کا مطالبہ کیا، چند روز قبل 9 اگست کو قمر سلطانہ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے ہونے کے دعویدار ظہور الحسن نامی شخص کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظہور الحسن کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے چچا الطاف حسین کی کوئی اولاد نہیں تھی تو ظہور الحسن کس قسم کے دعوے کررہے ہیں ان کا یہ بیان مختلف اخبارات میں شایع ہوا ہے۔انھوں نے ارباب اختیار سے ظہور الحسن اور ان کے خونی رشتے داروں کے ڈی این اے کا مطالبہ کیا تاکہ سچ سامنے آسکے اور وہ آئندہ ایسے دعوے نہ کرسکے، ماسٹر الطاف حسین مرحوم کے بیٹے ظہور الحسن کے مطابق والد محترم نے پہلا قومی پرچم تحریک آزادی میں1947ء کے دوران دہلی گیٹ انڈیا میں تیار کیا والد نے ہجرت کے بعد حیدرآباد میں سکونت اختیار کی ان کی زندگی میں کسی نے پہلا پرچم ساز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔امریکی جریدے لائف میگزین کے 18 اگست 1947ء کے شمارے میں شایع ہونے والی تصویر اس بات کا ثبوت ہے اس حوالے سے تایا ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کے بعض اخبارات نے مضامین شایع کیے ہیں، اس حوالے سے تحریک نظریہ پاکستان کے صدر بیرسٹر ثمین خان نے 30 اکتوبر 2008ء کو پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ پاکستان کا پہلا قومی پرچم ماسٹر الطاف حسین نے تیار کیا تھا، ثمین خان کے مطابق میری موجودگی میں لائف میگزین کی فوٹو گرافر مارگریٹ نے دہلی انڈیا میں سیر کے دوران ماسٹر الطاف حسین کی دکان پر پرچم سیتے ہوئے تصویر اتاری اور یہی تصویر لائف میگزین میں شائع ہوئی۔معروف شاعر محسن بھوپالی نے بھی مقامی اخبار کو 20 اکتوبر 2004ء میں مراسلہ بھیجا جس میں انھوں نے واضح کیا کہ 1958ء تا 1968ء تک ان کی حیدرآباد کے علاقے ہیر آباد میں رہائش رہی ماسٹر الطاف حسین کی درزی کی دکان (ٹیلر شاپ) پر صاحب علم شخصیات سے ملاقات رہتی تھی، ماسٹر الطاف حسین پاکستانی پرچم کی تیاری کا ذکر جذباتی انداز میں کرتے اور ساتھ ہی پرچم کی تیاری پر مبنی امریکی میگزین لائف میں چھپنے والی اپنی تصویر دکھاتے تھے،پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کا معاملہ ہنوز التوا کا شکار ہے اور حکومتی سطح پر اب تک پاکستان کے پہلے قومی پرچم ساز کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔