دنیا بھر میں انسانوں کو لاحق ہونے والے ذہنی امراض میں ڈپریشن سب سے زیادہ عام بیماری ہے۔ ڈپریشن یعنی یاسیت اور افسردگی کا شکار بڑے ہی نہیں بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری پر طبی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بلوغت سے پہلے ڈپریشن کا ایک فی صد خدشہ پایا جاتا ہے جب کہ بلوغت کے بعد یہ بڑھ کر تین فی صد ہو جاتا ہے۔
زندگی کے ابتدائی سال میں بچے اپنے ماحول اور معاملات کو پوری طرح سمجھنے اور اپنی کیفیات یا مسائل کو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتے، لیکن کسی بھی ناخوش گوار واقعے، تلخ تجربے اور غیرمعمولی بات کا ان پر گہرا اثر ہوسکتا ہے۔ اس عمر میں بچوں کو خاص طور پر والدین کی بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بچوں میں ڈپریشن کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری پر طبی تحقیق بتاتی ہے کہ والدین ڈپریشن کا شکار ہوں تو بچوں میں بھی یہ مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ زندگی کی سختیاں اور مشکلات، منفی واقعات، کوئی بڑا جذباتی دھچکا اور صدمہ مثلاً والدین کی موت اور زندگی میں پیش آنے والا کوئی الم ناک حادثہ بھی ڈپریشن کی وجہ بن سکتا ہے۔ لڑکیوں کو خصوصاً بلوغت کے بعد یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔
گھر کا ماحول بچوں کی ذہنی حالت اور کیفیات پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ گھر میں لڑائی جھگڑے اور تلخ کلامی یا ماں باپ کا اپنے بچوں کو بات بات پر مارنا، تحقیر کرنا اور مسلسل حوصلہ شکنی بھی اس بیماری کا سبب بنتی ہے۔ Cortisol نامی ایک ہارمون میں بگاڑ کو بھی بچوں میں ڈپریشن کا سبب بتایا جاتا ہے۔ والدین کے علاوہ دوستوں اور اساتذہ کا منفی رویہ بھی کم عمری میں انسان کو افسردگی اور یاسیت کا شکار بنا سکتا ہے۔
ڈپریشن کی واضح علامتوں میں مزاج میں تبدیلی سرِفہرست ہے۔ افسردہ اور اداس نظر آنے کے ساتھ بچہ معمولی معمولی باتوں پر شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر بچے کھیل کود، ٹی وی پر من پسند پروگرامز دیکھنے یا کمپیوٹر پر گیمز کھیلنا پسند کرتے ہیں، لیکن ڈیریشن کی وجہ سے ہر کام سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔
تفریح کے علاوہ ان کی تعلیم پر بھی مزاج میں تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں۔ ایسا بچہ شدید احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔ پڑھائی میں انہماک کم ہوجاتا ہے۔ ڈپریشن کی وجہ سے خود اعتمادی جاتی رہتی ہے۔ شدید ڈپریشن کا شکار بعض بچے خود کُشی کرنے سے متعلق خیالات کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ اس پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہیے۔
ڈپریشن کا مرض جسمانی تبدیلیوں کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایسے بچے کم زوری محسوس کرتے ہیں۔ روزمرہ اور معمولی نوعیت کے کام انجام دینے کے بعد بھی تھکاوٹ کی شکایت کرتے ہیں۔ وہ روزانہ نہانے، کپڑے تبدیل کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اپنی صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتے۔ اسی طرح دوستوں اور گھر والوں سے بھی الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ ان کی نیند اور بھوک بھی متأثر ہوتی ہے۔ بعض بچے خود کو جسمانی نقصان پہنچانے لگتے ہیں۔
مثلاً مزاج کے خلاف ہونے والی کسی بات پر شدید غصّے کا اظہار کرنے کے ساتھ اپنا سَر دیوار پر مارتے ہیں۔ بلوغت کے بعد عموماً اداسی سے زیادہ مزاج میں غصہ دیکھا جاتا ہے۔ بچہ نشہ آور اشیا کا استعمال بھی شروع کرسکتا ہے۔ اس مرض کی ایک قسم Masked Depression کہلاتی ہے، جس میں بچہ اداس اور چڑچڑاہٹ کا اظہار تو نہیں کرتا، لیکن پیٹ اور سَر میں درد کی شکایت کرنے لگتا ہے۔ کھانے پینے کی طرف رغبت نہیں رہتی جب کہ سوتے ہوئے اس کا پیشاب خطا ہوجاتا ہے۔
ایک طبی جائزے کے مطابق کم عمری میں ڈپریشن علاج کروانے والوں میں سے 58 فی صد کو جوانی میں بھی یہ مرض تشخیص کیا گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علاج کروانے کے باوجود بڑے ہونے پر کوئی بھی فرد دوبارہ ڈپریشن کا شکار ہوسکتا ہے۔ڈپریشن کے علاج کے لیے طبی ماہرین بچے کے گھر کا ماحول سمجھتے ہیں اور اس کی زندگی سے متعلق ضروری معلومات حاصل کرتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے گھر کا ماحول بہتر بنانے کے لیے تجاویز دیتے ہیں اور والدین کو مسائل میں کمی لانے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کی ہمت بڑھائی جائے اور ہر معاملے میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اگر بچوں کے والدین ڈپریشن کا شکار ہیں تو ان کا علاج کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کے علاج میں ان کے اساتذہ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ بچہ اسکول میں اپنے کسی ساتھی طالبِ علم کے تنگ کرنے یا استاد کے نامناسب رویے سے بھی دبائو کا شکار ہو سکتا ہے۔
نفسیاتی الجھنیں دور کرنے کے لیے سائیکو تھراپی کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس میں ماہرِ نفسیات بچے سے گفتگو کر کے اس کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دوائوں سے بھی علاج کی ضرورت پیش آتی ہے۔ شدید نوعیت کے ڈپریشن کی صورت میں دوائوں کے ساتھ ڈاکٹر سائیکو تھراپی سے بھی مدد لیتے ہیں۔