Tuesday, October 30, 2012

Shaikh Junaid Bagdari Aur Bahlool

ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" 
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ 
انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

Shaikh Junaid Bagdari Aur Bahlool

ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" 
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ 
انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

Shaitaan Aur Insaan Ki Jang..

بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً  یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا  ۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔  فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا ۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔

اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق افعال اور عقائد پر بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔

ایک دن  اس نے سوچا کہ وہ  ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں  پوری کرے گا۔۔۔

اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا

درخت کے قریب پہنچا تو  اسے عزازیل (ابلیس)  ایک باریش بزرگ  کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل  نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔

اس شخص نے اپنی نیت اور عزم  بیان کیا۔۔

عزازئیل بولا : تمھاری نیت بہت  اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں ۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔

وہ شخص  بولا :  بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو  کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے  خلقت گمراہی سے بچے گی ۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے  توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے

عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے  سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے  طور پر روزانہ  ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا  تو جو تم چاہو وہ کرنا ۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ  مہینے تک مجھے   کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔

اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ  بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے ۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔

وہ شخص بولا : ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر  لوگ پھر بھی  اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔

دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص  گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے  رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن ، تیسرے دن ۔۔۔۔  ہر روز  3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات  بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔

تیسویں دن  جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا ۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا ۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیئوں گا۔۔۔

اسی غصے  میں وہ چلا درخت کاٹنے ۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا کو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔

یہ آدمی چیخا : حضرت آگے سے ہٹ جائیں ۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔

عزازئیل مسکراتے ہوئے  سامنے سے ہٹ گیا۔۔

غصے سے  اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا ۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے  ٹکرائی ہو۔۔۔

عزازئیل  اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔

یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن  گیا تھا۔۔۔

آخر تھک کر یہ  بندہ  زمیں پر بیٹھ گیا ۔

  عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا : حضرت ماجرا  کیا ہے؟

عزازیل مسکراتے ہوئے بولا : اے بد بخت میں عزازیل ہوں ، تمھارے اور تمھارے ابا   آدم  علیہ سلام کا ازلی دشمن ۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا  کہ تم یقیناً  درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔  سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔ رحمدلی  کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت   کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا ۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا  تو تم  میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے ۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔

Shaitaan Aur Insaan Ki Jang..

بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً  یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا  ۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔  فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا ۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔

اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق افعال اور عقائد پر بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔

ایک دن  اس نے سوچا کہ وہ  ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں  پوری کرے گا۔۔۔

اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا

درخت کے قریب پہنچا تو  اسے عزازیل (ابلیس)  ایک باریش بزرگ  کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل  نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔

اس شخص نے اپنی نیت اور عزم  بیان کیا۔۔

عزازئیل بولا : تمھاری نیت بہت  اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں ۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔

وہ شخص  بولا :  بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو  کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے  خلقت گمراہی سے بچے گی ۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے  توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے

عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے  سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے  طور پر روزانہ  ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا  تو جو تم چاہو وہ کرنا ۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ  مہینے تک مجھے   کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔

اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ  بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے ۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔

وہ شخص بولا : ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر  لوگ پھر بھی  اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔

دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص  گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے  رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن ، تیسرے دن ۔۔۔۔  ہر روز  3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات  بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔

تیسویں دن  جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا ۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا ۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیئوں گا۔۔۔

اسی غصے  میں وہ چلا درخت کاٹنے ۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا کو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔

یہ آدمی چیخا : حضرت آگے سے ہٹ جائیں ۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔

عزازئیل مسکراتے ہوئے  سامنے سے ہٹ گیا۔۔

غصے سے  اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا ۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے  ٹکرائی ہو۔۔۔

عزازئیل  اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔

یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن  گیا تھا۔۔۔

آخر تھک کر یہ  بندہ  زمیں پر بیٹھ گیا ۔

  عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا : حضرت ماجرا  کیا ہے؟

عزازیل مسکراتے ہوئے بولا : اے بد بخت میں عزازیل ہوں ، تمھارے اور تمھارے ابا   آدم  علیہ سلام کا ازلی دشمن ۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا  کہ تم یقیناً  درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔  سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔ رحمدلی  کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت   کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا ۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا  تو تم  میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے ۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔

A Beautiful and True Story

کوفہ میں ایک نوجوان رہتا تھا تو انتہائی عبادت گزار تھا اور ہمہ وقت جامع مسجد میں پڑا رہتا تھا ۔ ساتھ ہی وہ نہایت ہی دراز قامت ، خوبصورت اور خوب سیرت بھی تھا ۔ ایک حسینہ عورت نے اسے دیکھا تو پہلی ہی نظر میں وہ فریفتہ ہو گئی ۔
ایک مدت تک عشق کی چنگاری اس کے دل میں سلگتی رہی لیکن اسے اپنی محبت کے اظہار کا موقع نہ ملا ۔ ایک روز وہ نوجوان مسجد جا رہا تھا وہ عورت آئی اور اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ، اور کہنے لگی نوجوان ! پہلے میری بات سن لو اس کے بعد جو دل میں آئے وہ کرو ۔ لیکن نوجوان نے کوئی جواب نہ دیا اور چلتا رہا یہاں تک کہ مسجد میں پنہچ گیا ۔ واپسی میں وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی جب وہ نوجوان قریب پنہچا تو اس نے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ نوجوان نے کہا کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھے تمہارے ساتھ کھڑا ہوا دیکھ کر تہمت لگائے اس لئے میرا راستہ نہ روکو اور مجھے جانے دو ۔ اس عورت نے کہا خدا کی قسم میں یہاں اس لئے نہیں کھڑی ہوئی کہ مجھے تمہاری حثییت کا علم نہیں ہے ، یا میں یہ نہیں جانتی کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، خدا نہ کرے لوگوں کو میرے متعلق بد گمان ہونے کا موقع ملے لیکن مجھے اس معاملے میں بزات خود تم سے ملاقات پر اس امر نے اکسایا ہے کہ لوگ تھوڑی سی بات کو زیادہ کر لیتے ہیں اور تم جیسے عبادت گزار لوگ آئینے کی طرح ہیں کہ معمولی سا غبار بھی اس کی صفائی کو متاثر کر دیتا ہے ، میں تو سو بات کی ایک بات یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرا دل و جان تمام اعضاء تم پر فدا ہیں ، اور 
ہجر میری موت ہے اور زندگی میری وصال 
اب بتاؤ تم کو ان دونوں میں کیا منظور ہے
اور اللہ ہی ہے جو میرے اور تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ فرمائے ۔ وہ نوجوان اس عورت کی یہ تقریر سن کر خاموشی کے ساتھ کوئی جواب دئیے بغیر اپنے گھر چلا گیا ۔ گھر پنہچ کر نماز پڑھنی چاہی لیکن نماز میں دل نہیں لگا اور سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں ۔ مجبورا قلم کاغذ سنمبھالا اور اس عورت کے نام ایک خط لکھا ۔ خط لکھ کر باہر آیا ، دیکھا کہ وہ عورت اسی طرح راہ میں کھڑی ہوئی ہے ، اس نے خط اس کی طرف پھینک دیا اور خود تیزی سے گھر میں داخل ہو گیا ۔
خط کا مضمون
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اے عورت ! تجھے یہ بات جان لینی چاہیے کہ جب بندہ اپنے خدا کی نا فرمانی کرتا ہے تو وہ در گزر سے کام لیتا ہے جب وہ دوبارہ اسی معصییت کا ارتکاب کرتا ہے تب بھی وہ پردہ پوشی فرما دیتا ہے ، لیکن جب وہ اس معصییت کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے تو پھر ایسا غضب نازل فرماتا ہے کہ زمین و آسمان شجر و حجر کانپ اٹھتے ہیں ، کون ہے وہ جو اس کی سزا کو برداشت کر سکے ، کون ہے جو اس کی ناراضگی کا تحمل کر سکے ، بس اس کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کر جو تمام جہانوں کا رب ہے ، اس جبار عظیم کے آگے سربسجود ہو جا اس سے محبت کر کیونکہ وہ شروع سے ہے اور آخر تک تیرے ساتھ رہے گا ۔ فقط طالب دعا ۔۔۔
اس خط کے کافی دنوں کے بعد وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی ، انہوں نے اسے دیکھ لیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن اس عورت نے کہا ، کیوں واپس جاتے ہو ؟ یہ آخری ملاقات ہے 
آج کے بعد پھر خدا ہی کے یہاں ملاقات ہو گی ۔ یہ کہہ کر خوب روئی اور کہنے لگی کہ میں خدا سے جس کے ہاتھ میں تمہارا دل ہے یہ دعا کرتی ہوں کہ وہ تمہارے سلسلے میں درپیش میری مشکل آسان فرمائیں ۔ اب تم صرف مجے ایک نصیحت کرو ۔ نوجوان نے کہا ! میں صرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خود کو اپنے نفس سے محفوظ رکھنا اور اس آیت کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ۔
ھوالذی یتوفٰکم باالیل و یعلم ما جرحتم بالنھار
ترجمعہ : اور وہ ذات تو ایسی ہے کہ رات میں تمہاری روح کو قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو اچھی طرح جانتا ہے ۔
اور یہاں تک کہ : یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور : وہ تمہاری آنکھوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں ۔
یہ نصیحت سن کر وہ عورت بہت روئی اور دیر تک روتی رہی ۔ اور جب افاقہ ہوا تو اپنے گھر پنہچی اور کچھ عرصہ عبادت میں مشغول رہ کر ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی 

A Beautiful and True Story

کوفہ میں ایک نوجوان رہتا تھا تو انتہائی عبادت گزار تھا اور ہمہ وقت جامع مسجد میں پڑا رہتا تھا ۔ ساتھ ہی وہ نہایت ہی دراز قامت ، خوبصورت اور خوب سیرت بھی تھا ۔ ایک حسینہ عورت نے اسے دیکھا تو پہلی ہی نظر میں وہ فریفتہ ہو گئی ۔
ایک مدت تک عشق کی چنگاری اس کے دل میں سلگتی رہی لیکن اسے اپنی محبت کے اظہار کا موقع نہ ملا ۔ ایک روز وہ نوجوان مسجد جا رہا تھا وہ عورت آئی اور اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ، اور کہنے لگی نوجوان ! پہلے میری بات سن لو اس کے بعد جو دل میں آئے وہ کرو ۔ لیکن نوجوان نے کوئی جواب نہ دیا اور چلتا رہا یہاں تک کہ مسجد میں پنہچ گیا ۔ واپسی میں وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی جب وہ نوجوان قریب پنہچا تو اس نے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ نوجوان نے کہا کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھے تمہارے ساتھ کھڑا ہوا دیکھ کر تہمت لگائے اس لئے میرا راستہ نہ روکو اور مجھے جانے دو ۔ اس عورت نے کہا خدا کی قسم میں یہاں اس لئے نہیں کھڑی ہوئی کہ مجھے تمہاری حثییت کا علم نہیں ہے ، یا میں یہ نہیں جانتی کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، خدا نہ کرے لوگوں کو میرے متعلق بد گمان ہونے کا موقع ملے لیکن مجھے اس معاملے میں بزات خود تم سے ملاقات پر اس امر نے اکسایا ہے کہ لوگ تھوڑی سی بات کو زیادہ کر لیتے ہیں اور تم جیسے عبادت گزار لوگ آئینے کی طرح ہیں کہ معمولی سا غبار بھی اس کی صفائی کو متاثر کر دیتا ہے ، میں تو سو بات کی ایک بات یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرا دل و جان تمام اعضاء تم پر فدا ہیں ، اور 
ہجر میری موت ہے اور زندگی میری وصال 
اب بتاؤ تم کو ان دونوں میں کیا منظور ہے
اور اللہ ہی ہے جو میرے اور تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ فرمائے ۔ وہ نوجوان اس عورت کی یہ تقریر سن کر خاموشی کے ساتھ کوئی جواب دئیے بغیر اپنے گھر چلا گیا ۔ گھر پنہچ کر نماز پڑھنی چاہی لیکن نماز میں دل نہیں لگا اور سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں ۔ مجبورا قلم کاغذ سنمبھالا اور اس عورت کے نام ایک خط لکھا ۔ خط لکھ کر باہر آیا ، دیکھا کہ وہ عورت اسی طرح راہ میں کھڑی ہوئی ہے ، اس نے خط اس کی طرف پھینک دیا اور خود تیزی سے گھر میں داخل ہو گیا ۔
خط کا مضمون
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اے عورت ! تجھے یہ بات جان لینی چاہیے کہ جب بندہ اپنے خدا کی نا فرمانی کرتا ہے تو وہ در گزر سے کام لیتا ہے جب وہ دوبارہ اسی معصییت کا ارتکاب کرتا ہے تب بھی وہ پردہ پوشی فرما دیتا ہے ، لیکن جب وہ اس معصییت کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے تو پھر ایسا غضب نازل فرماتا ہے کہ زمین و آسمان شجر و حجر کانپ اٹھتے ہیں ، کون ہے وہ جو اس کی سزا کو برداشت کر سکے ، کون ہے جو اس کی ناراضگی کا تحمل کر سکے ، بس اس کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کر جو تمام جہانوں کا رب ہے ، اس جبار عظیم کے آگے سربسجود ہو جا اس سے محبت کر کیونکہ وہ شروع سے ہے اور آخر تک تیرے ساتھ رہے گا ۔ فقط طالب دعا ۔۔۔
اس خط کے کافی دنوں کے بعد وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی ، انہوں نے اسے دیکھ لیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن اس عورت نے کہا ، کیوں واپس جاتے ہو ؟ یہ آخری ملاقات ہے 
آج کے بعد پھر خدا ہی کے یہاں ملاقات ہو گی ۔ یہ کہہ کر خوب روئی اور کہنے لگی کہ میں خدا سے جس کے ہاتھ میں تمہارا دل ہے یہ دعا کرتی ہوں کہ وہ تمہارے سلسلے میں درپیش میری مشکل آسان فرمائیں ۔ اب تم صرف مجے ایک نصیحت کرو ۔ نوجوان نے کہا ! میں صرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خود کو اپنے نفس سے محفوظ رکھنا اور اس آیت کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ۔
ھوالذی یتوفٰکم باالیل و یعلم ما جرحتم بالنھار
ترجمعہ : اور وہ ذات تو ایسی ہے کہ رات میں تمہاری روح کو قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو اچھی طرح جانتا ہے ۔
اور یہاں تک کہ : یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور : وہ تمہاری آنکھوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں ۔
یہ نصیحت سن کر وہ عورت بہت روئی اور دیر تک روتی رہی ۔ اور جب افاقہ ہوا تو اپنے گھر پنہچی اور کچھ عرصہ عبادت میں مشغول رہ کر ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی 

Monday, October 29, 2012

Ashfaq Ahmad in Zavia Program : Shak

جوانی میں مجھے پودوں اور درختوں سے بڑا شغف تھا ۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی  آری ہوا کرتی تھی جس سے میں درختوں کی شاخیں  کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی کی مطابق تراش خراش کیا کرتا تھا ۔   اور ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ  جو پانچویں ، چھٹی میں  میں پڑہتا ہوگا ، وہ اس ولایتی آری میں بہت  دلچسپی لیتا تھا ،  ۔ ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا ، اور اسے ہاتھ سے چھو بھی چکا تھا ۔ 

ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی ، میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیا لیکن بے سود ۔  اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا  اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ میری آری اسے نے چرائی ہے  ، اس کی شکل صورت ، چلنے بات کرنے کا انداز سب بدل گیا تھا ۔ 

 اب مجھے ایسا لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا اب ویسے نہیں مسکراتا ، مجھے ایسا لگتا جیسے  مجھے وہ اپنے دانتوں کے ساتھ چڑا رہا ہو ۔ اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے اب وہ مجھے کھڑے دکھائی دیتے تھے ۔  اوراس کی آنکھوں مجھے ایک ایسی چیز دکھائی دیتی جو آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے ۔ 

لیکن مجھے اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا  ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ  میں مجھے وہ آری مل گئی ۔ 

جب مجھے وہ آری مل گئی اور مین شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجیے وہی لڑکا اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کے ساتھ  اور ویسی ہی معصومیت کے ساتھ مجھے نظر آرہا تھا ۔ میں کہاں تک آپ کو یہ باتیں بتاتا چلا جاؤں  آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں کہ شک کی کیفیت میں پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی  ۔ اس موقعے پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے 

مشام تیغ سے صحرا میں ملتا ہےسراغ اس کا 

ظن و تخمیں سے ھاتہ آتا نہین آہوئے تاتاری

 

جو لوگ شک و شبہے میں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ میری نگاہوں میں جو کلپرٹ ہے بس وہی مجرم ہے  ، غلط اور شک پر مبنی اندازوں  سے اصل بات یا آہوئے تاتاری گرفت میں نہیں آتا ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 2  شک صفحہ 110