بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا ۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔ فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا ۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔
اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق افعال اور عقائد پر بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔
ایک دن اس نے سوچا کہ وہ ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں پوری کرے گا۔۔۔
اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا
درخت کے قریب پہنچا تو اسے عزازیل (ابلیس) ایک باریش بزرگ کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔
اس شخص نے اپنی نیت اور عزم بیان کیا۔۔
عزازئیل بولا : تمھاری نیت بہت اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں ۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔
وہ شخص بولا : بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے خلقت گمراہی سے بچے گی ۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے
عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے طور پر روزانہ ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا تو جو تم چاہو وہ کرنا ۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ مہینے تک مجھے کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔
اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے ۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔
وہ شخص بولا : ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر لوگ پھر بھی اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔
دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن ، تیسرے دن ۔۔۔۔ ہر روز 3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔
تیسویں دن جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا ۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا ۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیئوں گا۔۔۔
اسی غصے میں وہ چلا درخت کاٹنے ۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا کو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔
یہ آدمی چیخا : حضرت آگے سے ہٹ جائیں ۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔
عزازئیل مسکراتے ہوئے سامنے سے ہٹ گیا۔۔
غصے سے اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا ۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے ٹکرائی ہو۔۔۔
عزازئیل اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔
یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن گیا تھا۔۔۔
آخر تھک کر یہ بندہ زمیں پر بیٹھ گیا ۔
عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا : حضرت ماجرا کیا ہے؟
عزازیل مسکراتے ہوئے بولا : اے بد بخت میں عزازیل ہوں ، تمھارے اور تمھارے ابا آدم علیہ سلام کا ازلی دشمن ۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا کہ تم یقیناً درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔ سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔ رحمدلی کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا ۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا تو تم میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے ۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment