ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ آپ فجر کی نماز کے بعد صحرا کی طرف نکل جاتے، وہاں چند ساعتیں گزارتے اور واپس مدینہ آجاتے- عمر رضی اللہ عنہ کو بڑا تعجب ہوا کہ ابوبکر صبح ہی صبح صحرا میں کیا لینے جاتے ہں- ایک دن فجر کی نماز کے بعد انہوں نے چھپ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ تعاقب کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ معمول کے مطابق مدینہ سے نکلے اور صحرا میں ایک پرانے خیقے کے اندر گئے، عمر رضی اللہ عنہ ایک چٹان کی اوٹ میں چپکے سے انہیں دیکھنے لگے۔
ابوبکر تھوڑی دیر بعد خیمے سے باہر آئے اور مدینہ روانہ ہوگئے-
عمر چٹان کی اوٹ سے نکلے اور خیمے میں داخل ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نابینا کمزور عورت اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے بیٹھے ہیں، آپ نے اس عورت سے دریافت کیا: "یہ کون ہے جو تمہارے پاس آتا ہے؟" اس نے جواب دیا: "میں اسے نہیں جانتی، کوئی مسلمان ہے، ایک عرصے سے ہر صبح ہمارے پاس آتا ہے- پوچھا: " تمہارے پاس آکر کیا کرتا ہے؟
وہ بولی: " گھر میں جھاڑو دیتا ہے، آٹا گوندھتا ہے، ہماری بکری کا دودھ دہتا ہے اور چلا جاتا ہے-"
اس کی بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے خیمے
سے باہر آگئے:
" ابوبکر! آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشکل میں ڈال دیا، آپ نے اپنے بعد کے خلفاء کو بڑی مشکل میں ڈال دیا-"
عمر رضی اللہ عنہ بھی عبادت اور اخلاص کے معاملے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پیچھے نہ رہے-
طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے انہیں رات کی تاریکی میں اپنے گھر سے نکل کر ایک گھر میں داخل ہوتے اور پھر وہاں سے نکل کر دوسرے گھر میں جاتے دیکھا- وہ حیران ہوئے کہ امیر المؤمنین ان گھروں میں کیا کرتے ہیں- صبح ہوتے ہی طلحہ اس بات کا سراغ لگانے پہلے گھر گئے، ان کی ملاقات چارپائی پر پڑی نابینا بڑھیا سے ہوئی، اس سے دریافت کیا: " یہ آدمی آپ کے پاس کیوں آتا ہے- بڑھیا بولی: " یہ آدمی ایک مدت سے میرا خیال رکھتا ہے، گھر، گھر کی صفائی کرتا ہے، تازہ پانی بھرتا ہے، میرا بول و براز صاف کرتا ہے-"
اس پر طلحہ یہ کہتے ہوئے بڑھیا کے گھر سے باہر آگئے:
" طلحہ! تمہاری ماں کی بربادی! کیا عمر کی غلطیاں تلاش کرتے ہو؟"
علی بن حسین رح رات کو روٹیوں کا بورا کمر پر لادے گھر سے نکلتے اور روٹیوں کا صدقہ کرتے، کہا کرتے:
"چھپا کر صدقہ کرنا رب کے غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے-"
انہوں نے وفات پائی تو غسل دیتے ہوئے لوگوں کو ان کی کمر پر سیاہ نشان نظر آئے- لوگوں نے کہا:
" یہ مزدور کی کمر ہے، مگر ہو نہیں جانتے کہ انہوں نے کبھی مزدوری کی ہے-"
ان کی وفات پر مدینہ کی بیواؤں، اور یتیموں کے سو گھروں میں کھانا پنچنا بند ہوگیا- علی بن حسین رح روز رات کو ان گھروں میں کھانا تقسیم کیا کرتے تھے-
گھر والے نہیں جانتے تھے کہ کھانا کون لاتا ہے، ان کی وفات پر سب کو معلو ہوا کہ وہی ان سب گھروں میں کھانا دے کر آیا کرتے تھے-
No comments:
Post a Comment