Wednesday, October 24, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program

انسان جب بھی خوش رہنے کے لیے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ امارت تو خوف ہوتا ہے اور آدمی امیر دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بننا چاہتا ہے۔ جب یہ باتیں ذہن کے پس منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔
ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہو
ۓ تھے۔ وہاں ایک شاید سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو۔ میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا۔ اس میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔ ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے۔ وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک دن دفتر نہ آیا تو میں نے ٹھیکدار سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آیا۔ میں بھی دیگر افسر لوگوں کی طرح جس طرح سے ہم گھٹیا درجے کے ہوتے ہیں میں نے اس کا پتہ کرنے کا کہا۔ وہ اچھرہ کی کچی آبادی میں رہتا تھا۔ میں اپنے سیکرٹری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اسے لینے چلا گیا۔ بڑی مشکل سے ہم اس کا گھر ڈھونڈ کر جب وہاں گۓ تو سیکرٹری نے سلطان کہہ کے آواز دی۔ اس نے کہا کہ کیا بات ہے؟
میرے سیکرٹری نے کہا کہ صاحب آ
ۓ ہیں۔ اس نے جواب دیا کیہڑا صاحب! سیکرٹری نے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب۔ وہ جب باہر آیا تو مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے انتہائی خوشی کے ساتھ اندر آنے کو کہا۔ لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں سخت ناراض ہوں اور میں تمھاری سرزنش کے لیے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ سر میں بس آج آ نہیں سکا۔ ایک مشکل ہو گئی تھی۔
میں نے کہا کونسی مشکل۔ تم ہمیں بغیر بتا
ۓ گھر بیٹھے ہوۓ ہو اور اس طرح سے میری بڑی توہین ہوئی ہے کہ تم نے اپنی مرضی سے چھٹی کر لی۔ وہ کہنے لگا کہ سر آپ براۓ مہربانی اندر تو آئیں۔ وہ مجھے زبردستی اندر لے گیا۔ اس کی بیوی چاۓ بنانے لگ گئی۔ میں نے اس سے کہا میں چاۓ نہیں پیئوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے چھٹی کیوں کی؟
وہ کہنے لگا کہ سر جب کل شام کو میں گھر آیا تو ٹین کے کنستر میں میں نے سورج مکھی کا ایک پودا لگایا ہوا تھا اور اس میں ڈوڈی کھل کے اتنا بڑا پھول بن گیا تھا کہ میں کھڑا کھڑا اسے دیکھتا رہا اور میری بیوی نے کہا کہ یہ پہلا پھول ہے جو ہمارے گھر میں کھلا ہے۔
وہ کہنے لگا کہ سر مجھے وہ پھول اتنا اچھا لگا کہ میں خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اور جب ہم کھانا کھا چکنے کے بعد سونے لگے تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ "سلطان کیا تمھیں معلوم ہے آج ہمارا کاکا چلنے لگا ہے اور اس نے آٹھ دس قدم اٹھا
ۓ ہیں۔" اس وقت کاکا سو چکا تھا لیکن جب میں صبح اٹھا تو میں نے اپنے بیٹے کو بھی جگایا اور ہم میاں بیوی دور بیٹھ گۓ۔ ایک طرف سے میری بیوی کاکے کو چھوڑ دیتی۔ اور وہ ڈگمگاتا ہوا میری طرف چلتا ہوا آتا اور جب وہ مجھ تک پہنچتا تو میں اس کی ماں کی طرف اس کا منہ کر دیتا تو وہ ڈگ مگ ڈگ مگ کرتا ماں تک پہنچتا اور ٹھاہ کر کے اس سے چمٹ جاتا۔ ہم بڑی دیر تک اپنے بیٹے کو دیکھتے رہے۔ وہ کہنے لگا "سر اتنا اچھا پھول کھلا ہو http://www.assoc-amazon.com/e/ir?t=widgetsamazon-20&l=btl&camp=213689&creative=392969&o=1&a=1155238214اور بچے نے ایسا اچھا چلنا سیکھا ہو اور ایسا خوب صورت دن ہو تو اسے چالیس روپے میں تو نہیں بیچا جا سکتا نا! سر آج کا دن میرا ہے۔ اب میں شرمندہ سا ہو کر واپس آ گیا۔
خواتین و حضرات! اگر انسان میں اتنی طاقت ہو اور وہ ایسی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر وہ خوشیوں کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کی زندگی کی خوشیاں ایسی ہوں جیسی ہماری ہیں اور جن کے ہم قریب بھی نہیں پھٹک سکتے اور ٹین کے کنستر میں لگا پھول ہمیں کبھی نظر ہی نہیں آ سکتا ہے۔ ہمیں خوشیاں بانٹنا آتا ہی نہیں۔ ہم نے یہ فن سیکھا ہی نہیں ہے۔

زاویہ دوم، باب چہارم سے اقتباس

No comments:

Post a Comment