اس کائنات میں دل بہت ہی خطرناک چیز ہے ۔ خطرناک اس لیے کہ یہ اکیلا رہتا ہے ، اکیلے سوچتا ہے اور اکیلے ہی عمل کرتا ہے اور اکلاپے میں بڑا خوف ، بڑا وہم ، مسلسل ڈر ہوتا ہے ۔
دماغ ہمیشہ عقلمندی کی اور حفاظت کی باتیں سوچتا ہے ۔ اپنے آپ کو بچانے کی اور محفوظ رہنے کی ترکیبیں وضع کرتا ہے۔ دماغ گروہ میں چلتا ہے اور اور اپنے ارد گرد آدمیوں کا ہجوم رکھتا ہے ۔ اسی جلوس سے اس کو تقویت ملتی ہے ، سہارا ملتا ہے ۔
سیاسی لیڈر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر کے رکھتا ہے ۔ لیکن فقیر ہمیشہ اکیلا رہتا ہے دل کی فیصلوں کے مطابق خوفناک مقاموں میں ۔
دل اور دماغ دونوں ہی سوچنے والے اعضاء ہیں ۔ دونوں ہی پروگرام وضع کرتے ہیں ۔ دماغ جب بھی سوچتا ہے اپنی لیڈری اپنی نمود اپنی برتری کے بارے میں سوچتا ہے ۔ اپنی ذات کو مرکز بنا کر سوچتا ہے ۔
دل جب بھی سوچتا ہے محبوب کا گھر دکھاتا ہے ، دل سے سوچنے والا ماریا تھریسا ہوتا ہے یا منشی ہسپتال کا خالق یا ایدھی َ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو کوئی دل کی طرف مائل ہوا وہ گرا ، گرفتار ہوا ، پکڑا گیا ۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں فلاں ، فلاں کی محبت میں گرفتار ہوگیا ۔
گروہ کے لوگوں کو خوشی ہوتی ہے کہ وہ عمل میں ہیں حرکت میں ہیں لیکن ہجوم کہیں جا نہیں رہا ہوتا ، کسی طرف بڑہتا نہیں ۔ اس کی کوئی سمت نہیں ہوتی ۔ یہ پابہ زنجیر ہاتھی کی طرح ایک ہی جگہ پر جھومتا رہتا ہے ۔ اور گروہ میں شامل لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ وہ حرکت کر رہے ہیں ۔
دماغ ہمیشہ اور اور اور کا طلبگار ہوتا ہے ۔ ھل من مزید پکارتا رہتا ہے ۔ یہ اس حقیقت کو بلکل نہیں جانتا کہ تمہارے پاس پہلے سے کیا ہے اور تمہارے قبضے میں کیا کچھ ہے ۔ یہ تو بس اور اور مزید مزید کا شکار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تم چاہے فقیر ہو یہ اور مانگے گا ، شہنشاہ ہو یہ اور مانگے گا ۔ دماغ سے سوچنے والا ہمیشہ غریب رہتا ہے کیونکہ وہ اور کا طلبگار ہوتا ہے۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 564
No comments:
Post a Comment