Sunday, November 11, 2012

Talib-e-Khuda By Ashfaq Ahmad In Baba Sahiba

حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے جناب باری میں عرض کیا کہ تیری بارگاہ میں میرا کونسا فعل پسندیدہ ہے تا کہ اسے میں  زیادہ کروں اور بار بار کروں ۔  حکم ہوا کہ یہ فعل ہمیں پسند آیا ہے کہ  زمانہ طفلی میں جب تمہاری ماں تم کو مارا کرتی تھی تو تم مار کھا کر بھی اسی کی طرف دوڑتے تھے اور اسی کی جھولی میں گھستے تھے ۔ پس طالبِ خدا کو بھی یہی لازم ہے کہ گو کیسی بھی سختی ہو ، کیسی بھی ذلت و خواری پیش آئے ، ہر حال میں خدا کی طرف متوجہ رہے اور اس کے فضل کا طلبگار رہے ۔ 

نہ کوئی ساجد نہ مسجود ، نہ عابد نہ معبود ۔  نہ آدم نہ ابلیس۔  صرف ایک ذات قدیم  ، صفات رنگا رنگ میں جلوہ گر ہے ۔ 

نہ اس کی ابتدا نہ انتہا ، نہ اس کو کسی نے دیکھا نہ سمجھا ۔ نہ فہم و  قیاس میں آئے ، نہ وہم و گمان میں سمائے ۔ جیسا تھا ویسا ہی ہے ۔ اور جیسا ہے ویسا ہی رہیگا ۔ نہ گھٹے نہ بڑہے نہ اترے نہ چڑہے ۔ وہ ایک ہے ۔  لیکن ایک بھی نہیں ، کیونکہ اس کو موجودات سے الگ سمجھنا نادانی اور حد رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگ اشعال موجود ہیں ۔ ایسے ہی خدا جوئی اور خدا شناسی بھی ایک دھندہ ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 522

 

Talib-e-Khuda By Ashfaq Ahmad In Baba Sahiba

حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے جناب باری میں عرض کیا کہ تیری بارگاہ میں میرا کونسا فعل پسندیدہ ہے تا کہ اسے میں  زیادہ کروں اور بار بار کروں ۔  حکم ہوا کہ یہ فعل ہمیں پسند آیا ہے کہ  زمانہ طفلی میں جب تمہاری ماں تم کو مارا کرتی تھی تو تم مار کھا کر بھی اسی کی طرف دوڑتے تھے اور اسی کی جھولی میں گھستے تھے ۔ پس طالبِ خدا کو بھی یہی لازم ہے کہ گو کیسی بھی سختی ہو ، کیسی بھی ذلت و خواری پیش آئے ، ہر حال میں خدا کی طرف متوجہ رہے اور اس کے فضل کا طلبگار رہے ۔ 

نہ کوئی ساجد نہ مسجود ، نہ عابد نہ معبود ۔  نہ آدم نہ ابلیس۔  صرف ایک ذات قدیم  ، صفات رنگا رنگ میں جلوہ گر ہے ۔ 

نہ اس کی ابتدا نہ انتہا ، نہ اس کو کسی نے دیکھا نہ سمجھا ۔ نہ فہم و  قیاس میں آئے ، نہ وہم و گمان میں سمائے ۔ جیسا تھا ویسا ہی ہے ۔ اور جیسا ہے ویسا ہی رہیگا ۔ نہ گھٹے نہ بڑہے نہ اترے نہ چڑہے ۔ وہ ایک ہے ۔  لیکن ایک بھی نہیں ، کیونکہ اس کو موجودات سے الگ سمجھنا نادانی اور حد رکھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا میں طرح طرح کے کاروبار اور رنگا رنگ اشعال موجود ہیں ۔ ایسے ہی خدا جوئی اور خدا شناسی بھی ایک دھندہ ہے جس کا کوئی سر پیر نہیں ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 522

 

Ashfaq Ahmad Baba Sahiba

لیکن جب کسی آدمی سے علم کے اظہار کو کہا جاتا ہے اور سننے والے نیم دائرے کی شکل میں اس کے سامنے بیٹھ کر علم کی بھیک  مانگنے کو جھولیاں پھیلاتے ہیں ،  تو پھر علم والے سے رہا نہیں جاتا ۔ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر اظہار کرتا ہے اور پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے ۔  کئی مرتبہ یوں بھی ہوا کہ سننے والے اٹھ کر چلے گئے ،   اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر گئے لیکن کہنے والا کہتا چلا گیا ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ  شراب کا نشہ چھوٹ جاتا ہے ، ہیروئن کی لت ختم ہو جاتی ہے ۔  چور چوری چھوڑ دیتا ہے ۔ لیکن سنانے والا سنانے سے نہیں رک سکتا ۔ 

منبر پر ہو ، مشاعرے میں ہو ، اسمبلی میں گھس جائے سلامتی کونسل میں پہنچ جائے  بولنے والا بولے گا اور دبا کے بولے گا ۔  اپنی دانش کا اظہار کرنے والا نہ کبھی تھکتا ہے نہ ہانپتا ہے ، نہ اس کو اونگھ آتی ہے  ، نہ اس کی آواز گرتی ہے  ، نہ تھکاوٹ کے آثار نظر آتے ہیں ۔  بس کہے چلا جاتا ہے ، بتائے جاتا ہے ، بولے جاتا ہے ۔ 

 

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 20

Ashfaq Ahmad Baba Sahiba

لیکن جب کسی آدمی سے علم کے اظہار کو کہا جاتا ہے اور سننے والے نیم دائرے کی شکل میں اس کے سامنے بیٹھ کر علم کی بھیک  مانگنے کو جھولیاں پھیلاتے ہیں ،  تو پھر علم والے سے رہا نہیں جاتا ۔ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر اظہار کرتا ہے اور پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے ۔  کئی مرتبہ یوں بھی ہوا کہ سننے والے اٹھ کر چلے گئے ،   اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر گئے لیکن کہنے والا کہتا چلا گیا ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ  شراب کا نشہ چھوٹ جاتا ہے ، ہیروئن کی لت ختم ہو جاتی ہے ۔  چور چوری چھوڑ دیتا ہے ۔ لیکن سنانے والا سنانے سے نہیں رک سکتا ۔ 

منبر پر ہو ، مشاعرے میں ہو ، اسمبلی میں گھس جائے سلامتی کونسل میں پہنچ جائے  بولنے والا بولے گا اور دبا کے بولے گا ۔  اپنی دانش کا اظہار کرنے والا نہ کبھی تھکتا ہے نہ ہانپتا ہے ، نہ اس کو اونگھ آتی ہے  ، نہ اس کی آواز گرتی ہے  ، نہ تھکاوٹ کے آثار نظر آتے ہیں ۔  بس کہے چلا جاتا ہے ، بتائے جاتا ہے ، بولے جاتا ہے ۔ 

 

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 20