لیکن جب کسی آدمی سے علم کے اظہار کو کہا جاتا ہے اور سننے والے نیم دائرے کی شکل میں اس کے سامنے بیٹھ کر علم کی بھیک مانگنے کو جھولیاں پھیلاتے ہیں ، تو پھر علم والے سے رہا نہیں جاتا ۔ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر اظہار کرتا ہے اور پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے ۔ کئی مرتبہ یوں بھی ہوا کہ سننے والے اٹھ کر چلے گئے ، اپنی بیزاری کا اظہار بھی کر گئے لیکن کہنے والا کہتا چلا گیا ۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شراب کا نشہ چھوٹ جاتا ہے ، ہیروئن کی لت ختم ہو جاتی ہے ۔ چور چوری چھوڑ دیتا ہے ۔ لیکن سنانے والا سنانے سے نہیں رک سکتا ۔
منبر پر ہو ، مشاعرے میں ہو ، اسمبلی میں گھس جائے سلامتی کونسل میں پہنچ جائے بولنے والا بولے گا اور دبا کے بولے گا ۔ اپنی دانش کا اظہار کرنے والا نہ کبھی تھکتا ہے نہ ہانپتا ہے ، نہ اس کو اونگھ آتی ہے ، نہ اس کی آواز گرتی ہے ، نہ تھکاوٹ کے آثار نظر آتے ہیں ۔ بس کہے چلا جاتا ہے ، بتائے جاتا ہے ، بولے جاتا ہے ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 20
No comments:
Post a Comment