Friday, November 16, 2012

Ashfaq Ahmad in Baba Sahba

ایک روز بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں گدائی کر  کے کچھ رسد لے کر  ڈیرے پر جاؤنگا ۔ اور لنگر  میں شامل کرونگا  تا کہ پرانی رسم کا اعادہ ہو ۔ گھر کے پھاٹک سے باہر نکل کر جب میں نے ادہر ادہر دیکھا تو میرا حوصلہ نہ پڑا ۔ میں اتنا بڑا آدمی ایک معزز اور مشہور ادیب  کس طرح کسی کے گھر کی  بیل بجا کر یہ کہ سکتا ہوں کہ میں مانگنے آیا ہوں ۔ میں چپ چاپ  آ کر واپس اپنی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا ۔  لیکن  چونکہ یہ خیال میرے ذہن میں جا گزیں ہو چکا تھا اس لیے میں پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا " مجھے اللہ کے نام پر کچھ خیرات دو گی " ۔ وہ میری بات نہ سمجھی اور حیرانی سے میرا چہرہ تکنے لگی ۔ میں نے کہا مجھے اللہ کے نام پر کچھ آٹا خیرات دو ۔ اس نے تعجب سے پوچھا تو میں نے کہا کہ بابا جی کے لنگر میں ڈالنا ہے ۔ کہنے لگی ٹھرئیےمیں کوئی مضبوط سا شاپر تلاش کرتی ہوں ۔ میں نے کہا شاپر نہیں میری جھولی میں ڈال دو ۔ کیونکہ ایسے ہی مانگا جاتا ہے ۔  وہ پھر نہیں سمجھی ۔ جب میں نے ضد کی تو وہ آٹے کا بڑا " پیالہ " بھر لائی ۔ میں نے اپنے کرتے کی جھولی اس کے آگے کر دی ۔اس نے آٹا میری جھولی میں ڈالتے ہوئے سر جھکا لیا اور آبدیدہ ہو گئی ۔ پھر وہ مجھ سے نظریں ملائے بغیر باورچی خانے چلی گئی ۔ وہاں سے دو بڑے بینگن اور ایک چھوٹا سا کدو لے آئی اور اسے آٹے پر رکھ دیا ۔  ہم دونوں کے شرمندہ شرمندہ اور غمناک چہروں کو ہمارا چھوٹا بیٹا دیکھ رہا تھا  اس کے ہاتھوں میں اس کا محبوب لیمن ڈراپ تھا اور وہ اس سے چپٹا ہوا کاغذ اتار رہا تھا  جب اس نے باپ کو جھولی پھیلائے دیکھا تو اس نے اپنا لیمن ڈراپ میری جھولی میں ڈال دیا۔ ہم دونوں میاں بیوی کی ایک ساتھ چیخ نکل گئی ۔ جب کوئی گدائی کرتا ہے تو بھکاری اور داتا کے درمیان ایک نہ سنائی دینے والی چیخ ضرور ابھرتی ہے  ۔  میں نے اپنی بیوی سے کہا موٹر کا دروازہ کھول  کر مجھے اس میں بٹھا دو ۔ میں کھلی جھولی میں آٹا ڈالے آہستہ آہستہ کار چلاتا ڈیرے پر پہنچ گیا ۔ بابا جی کھڑے تھے ، مجھے دیکھ کر زور کا نعرہ لگایا ۔ رحمتاں برکتاں والے آگئے ۔ نور والے آگئے ۔  منگتے آگئے ۔ منگتے آ گئے ۔ 

 

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 340

Ashfaq Ahmad in Baba Sahba

ایک روز بیٹھے بیٹھے میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں گدائی کر  کے کچھ رسد لے کر  ڈیرے پر جاؤنگا ۔ اور لنگر  میں شامل کرونگا  تا کہ پرانی رسم کا اعادہ ہو ۔ گھر کے پھاٹک سے باہر نکل کر جب میں نے ادہر ادہر دیکھا تو میرا حوصلہ نہ پڑا ۔ میں اتنا بڑا آدمی ایک معزز اور مشہور ادیب  کس طرح کسی کے گھر کی  بیل بجا کر یہ کہ سکتا ہوں کہ میں مانگنے آیا ہوں ۔ میں چپ چاپ  آ کر واپس اپنی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا ۔  لیکن  چونکہ یہ خیال میرے ذہن میں جا گزیں ہو چکا تھا اس لیے میں پھر اپنی جگہ سے اٹھا اور اپنی بیوی کے پاس جا کر کہا " مجھے اللہ کے نام پر کچھ خیرات دو گی " ۔ وہ میری بات نہ سمجھی اور حیرانی سے میرا چہرہ تکنے لگی ۔ میں نے کہا مجھے اللہ کے نام پر کچھ آٹا خیرات دو ۔ اس نے تعجب سے پوچھا تو میں نے کہا کہ بابا جی کے لنگر میں ڈالنا ہے ۔ کہنے لگی ٹھرئیےمیں کوئی مضبوط سا شاپر تلاش کرتی ہوں ۔ میں نے کہا شاپر نہیں میری جھولی میں ڈال دو ۔ کیونکہ ایسے ہی مانگا جاتا ہے ۔  وہ پھر نہیں سمجھی ۔ جب میں نے ضد کی تو وہ آٹے کا بڑا " پیالہ " بھر لائی ۔ میں نے اپنے کرتے کی جھولی اس کے آگے کر دی ۔اس نے آٹا میری جھولی میں ڈالتے ہوئے سر جھکا لیا اور آبدیدہ ہو گئی ۔ پھر وہ مجھ سے نظریں ملائے بغیر باورچی خانے چلی گئی ۔ وہاں سے دو بڑے بینگن اور ایک چھوٹا سا کدو لے آئی اور اسے آٹے پر رکھ دیا ۔  ہم دونوں کے شرمندہ شرمندہ اور غمناک چہروں کو ہمارا چھوٹا بیٹا دیکھ رہا تھا  اس کے ہاتھوں میں اس کا محبوب لیمن ڈراپ تھا اور وہ اس سے چپٹا ہوا کاغذ اتار رہا تھا  جب اس نے باپ کو جھولی پھیلائے دیکھا تو اس نے اپنا لیمن ڈراپ میری جھولی میں ڈال دیا۔ ہم دونوں میاں بیوی کی ایک ساتھ چیخ نکل گئی ۔ جب کوئی گدائی کرتا ہے تو بھکاری اور داتا کے درمیان ایک نہ سنائی دینے والی چیخ ضرور ابھرتی ہے  ۔  میں نے اپنی بیوی سے کہا موٹر کا دروازہ کھول  کر مجھے اس میں بٹھا دو ۔ میں کھلی جھولی میں آٹا ڈالے آہستہ آہستہ کار چلاتا ڈیرے پر پہنچ گیا ۔ بابا جی کھڑے تھے ، مجھے دیکھ کر زور کا نعرہ لگایا ۔ رحمتاں برکتاں والے آگئے ۔ نور والے آگئے ۔  منگتے آگئے ۔ منگتے آ گئے ۔ 

 

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 340

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

انجمن اسلامیہ کا سالانہ  جلسہ جامع مسجد میں ہوتا تھا اس کے لیے دور دراز سے اعلیٰ درجے کے مولوی بلائے جاتے تھے میرے ابا جی اور چاچا ولی محمد اس انجمن کے کرتا دھرتا تھے ۔ وہ ہمارے قصبے کے لوگوں کی فرمائش پر ایسے مولوی  بلانے پر مجبور تھے  جو گلے کے سریلے ، کھانے کے چسکورے ،  بات کے ہٹیلے اور دلیل کے کٹیلے ہوں ۔ دوسرے مسلک کے چھکے چھڑادیں  اور اپنے عقیدے پر آنچ نہ آنے دیں ۔  منظوم لطیفے اور ظریفانہ کہانیاں آسانی سے سنا سکیں ۔ 

روتوں کو ہنسادیں اور ہنستوں کو رلا دیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی ہاؤ ہو سے جلسے مین مجلس کا سا رنگ پیدا کر دیں ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ  164

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

انجمن اسلامیہ کا سالانہ  جلسہ جامع مسجد میں ہوتا تھا اس کے لیے دور دراز سے اعلیٰ درجے کے مولوی بلائے جاتے تھے میرے ابا جی اور چاچا ولی محمد اس انجمن کے کرتا دھرتا تھے ۔ وہ ہمارے قصبے کے لوگوں کی فرمائش پر ایسے مولوی  بلانے پر مجبور تھے  جو گلے کے سریلے ، کھانے کے چسکورے ،  بات کے ہٹیلے اور دلیل کے کٹیلے ہوں ۔ دوسرے مسلک کے چھکے چھڑادیں  اور اپنے عقیدے پر آنچ نہ آنے دیں ۔  منظوم لطیفے اور ظریفانہ کہانیاں آسانی سے سنا سکیں ۔ 

روتوں کو ہنسادیں اور ہنستوں کو رلا دیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنی ہاؤ ہو سے جلسے مین مجلس کا سا رنگ پیدا کر دیں ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ  164

Ashfaq Ahmad in Baba Sahiba : Talib-e-Khuda

انسان کو جس چیز میں کمال  ہوتا ہے  اس پر مرتا ہے ۔  چنانچہ دھنتر دید کو سانپ پکڑنے میں کمال  تھا  ، اس کو سانپ نے کاٹا اور مر گیا ۔  ارسطو سل کی بیماری میں مرا ۔ افلاطون فالج میں ۔ لقمان سرسام میں اور جالینوس دستوں کے مرض  میں حالانکہ  انہیں بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے ۔  اس طرح جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اسی کی خیال میں جان دیتا ہے ۔ قارون مال کی محبت میں مرا ، مجنوں لیلیٰ کی محبت میں ۔  اسی طرح طالبِ خدا کو خدا کی طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے ۔

 

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 409 

Ashfaq Ahmad in Baba Sahiba : Talib-e-Khuda

انسان کو جس چیز میں کمال  ہوتا ہے  اس پر مرتا ہے ۔  چنانچہ دھنتر دید کو سانپ پکڑنے میں کمال  تھا  ، اس کو سانپ نے کاٹا اور مر گیا ۔  ارسطو سل کی بیماری میں مرا ۔ افلاطون فالج میں ۔ لقمان سرسام میں اور جالینوس دستوں کے مرض  میں حالانکہ  انہیں بیماریوں کے علاج میں کمال رکھتے تھے ۔  اس طرح جس کو جس سے محبت ہوتی ہے اسی کی خیال میں جان دیتا ہے ۔ قارون مال کی محبت میں مرا ، مجنوں لیلیٰ کی محبت میں ۔  اسی طرح طالبِ خدا کو خدا کی طلبی کی بیماری ہے وہ اسی میں فنا ہو جاتا ہے ۔

 

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 409 

Bhatka Hua Rahi Part-2 by Tariq Ismail Sagar


Bhatka Hua Rahi
Bhatka Hua Rahi








Book Name

Bhatka Hua Rahi Part-2
Size : 5.68 MB