Monday, March 4, 2013

Some Beautiful Quotes

"I am thankful to all those who said NO to me

It's Because of them I did it myself..." 

- Einstein

"Don't be afraid to fail because only through failure do you learn to succeed."

- Unknown

"Success will never "Lower" its standard to accommodate us. We have to "Raise" Our standard to achieve it."

- Unknown

Sunday, March 3, 2013

Beshak Insaan Bara Nashukra Hay...

ایک دفعہ یہ اعلان ہو اکہ جو جو آدمی پریشان ہے وہ فلاں میدان میں آجائے ۔ جس چیز سے پریشان ہے اس کو وہا ں رکھ دے اس کا متبادل یعنی جس چیز کو اچھا سمجھتاہے وہ اٹھا لے ۔ اس اعلان کو سن کر سب خوش ہو گئے اور مقررہ دن میدان میں پہنچ گئے۔
(1) ایک آدمی شادی شدہ تھا ،بیوی سے تنگ تھا وہ بیوی کو چھوڑ آیا ۔(2) ایک کنوارہ تھا وہ بیوی کے بغیر ادھو را تھا وہ بیوی کو لے کر آگیا
(3 ) ایک آدمی کی اولاد نافرمان تھی وہ انہیں چھوڑ کرآگیا 
(4 ) دوسرے کی اولا د نہیں تھی وہ اولا د لے کر آگیا 
(5 ) ایک آدمی ٹی بی کا مریض تھا ۔ ساری را ت کھا نستا تھا وہ ٹی بی کو چھوڑ آیا اور شو گر لے آیا ۔
(6 )دوسرا جو شو گر کا مریض تھا وہ شوگر رکھ آیا اور ٹی بی لے آیا ۔ 
اسی طر ح سب خوشی خوشی واپس آگئے ۔ 
(1 ) شادی شدہ جو بیوی کو چھوڑ آیا تھا گھر آیا، را ت ہوئی نہ کوئی کھانا پکا نے والا نہ کسی نے بستر بچھا کر دیا ۔نہ کوئی چائے بنا کر دینے والا توکہنے لگا کہ چلو جیسی بھی تھی خدمت تو کرتی تھی۔
(2 ) جو غیر شادی شدہ تھا بیو ی لے آیا اس نے آتے ہی سامان کی لسٹ ہا تھ میں دے دی کہ یہ لے آ
۔ فلاں لے آسارے پیسے خرچ ہو گئے، جیب خالی ہوگئی کہنے لگا کہ میں تو بغیر شا دی کے ہی ٹھیک تھا ۔
 
(3) جو اپنی اولا د کو چھوڑ آیا تھا وہ بھی ایسے ہی پشیمان ہو اکہ جیسے بھی نا فرمان تھے کبھی کبھی حال چال ہی پوچھ لیتے تھے کبھی کوئی کام ہی کر دیتے تھے ۔ 
(4 )جو اولا د لے آیاتھا بڑا خوش تھا ۔ لڑکوں نے آتے ہی با پ کو لٹا کر مارنا شروع کر دیا اب وہ بولا کہ میں تو ایسے ہی ٹھیک تھا ۔ 
(5 )جو آدمی ٹی بی والا تھا ساری رات کھا نستا تھا وہ شوگر کی بیماری لے آیا ۔ ساری رات اٹھ اٹھ کر پیشاب کر تا تھا۔ سردی تھی ،بڑا پریشان ہوا اور کہا کہ ٹی بی ہی ٹھیک تھی چاہے ساری را ت کھا نستا تھالیکن بستر میں تو پڑا رہتا تھا ۔ یہ بار بار کا اٹھنا سر دی میں جا نا بڑا مشکل ہے ۔ 
(6) جو شو گر والا ٹی بی لے آیا تھا وہ ساری رات کھا نستا رہا صبح اٹھ کر کہنے لگا کہ وہی شو گر ٹھیک تھی چلو پیشا ب کر کے کچھ دیر سو تو جا تا تھا ۔ اس کم بخت ٹی بی نے تو مجھے ساری رات سونے بھی نہیں دیا ۔ 
واقعی اللہ پا ک کا فرمان حق اور سچ ہے ۔ " بے شک انسان نا شکر اہے 

Ashfaq Ahmad Zavia 2 : Chota Kaam

میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا ( جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں ، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے ) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے ۔  اس نے کہا سر ، مجھے  یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو ، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں  مجھے کم سے کم کرایہ کب ملا ، اور کتنا ملا ۔  میں نے کہا  کتنا ۔ کہنے لگا آٹھ آنے ۔  میں نے کہا وہ کیسے ؟  کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی  یا ہو چکی تھی ، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا ، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے ۔ تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ ایک پٹڑی سے دوسری پٹڑی  پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کی باعث جا نہیں سکتی تھی ۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی ، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئیں اور مجھے اٹھنی دے دی ۔ 

 ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں ، مسکرانا سیکھنا چاہیے اور اپنی زندگی کو اتنا "چیڑا"  (سخت)  نہ بنالیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں ۔   مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور ریلیکس رکھیں گے ۔  اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز و اقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے  ۔ آمین 

 

اشفاق احمد زاویہ 2 چھوٹا کام  صفحہ 31

 

Ashfaq Ahmad In Zavia : Chota Kaam

بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو ۔ اب یہ بڑا مشکل کام ہے ۔  میں کبھی ایک آنکھ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھ کانی کرتا ، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈلتا تھا ۔ 

خیر ! میں نےان سے کہا کہ اچھا جی دھاگہ ڈال لیا اس کا فائدہ ؟  کہنے لگے اس کا یہ فائدہ ہے کہ اب تم کسی کا پھٹا ہوا کپڑا کسی کی  پھٹی ہوئی پگڑی سی سکتے ہو ۔ جب تک تمہیں لباس سینے کا فن نہیں آئے گا تم انسانوں کو کیسے سیئو گے ۔  تم تو ایسے ہی رہو گے ، جیسے لوگ تقریریں کرتے ہیں ۔  بندہ تو بندے کے ساتھ جڑے گا ہی نہیں ۔  یہ سوئی دھاگہ کا فن آنا چاہیے ۔ ہماری مائیں ، بہنیں ، بیبیاں جو لوگوں کو جوڑے رکھتی تھیں وہ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرتیں تھیں ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2   چھوٹا کام   صفحہ 30

Dukhon Kay Album : Ashfaq Ahmad

ایک زمانے میں ، میں ایک پرچہ ، رسالہ  نکالتا تھا ۔ ماہنامہ بڑا خوبصورت رنگین  " داستان گو " اس کا نام تھا ۔ تو ہماری مالی حالت درمیانی تھی ۔  لیکن اس پرچے کو نکالنا میں اپنا فرض سمجھتا تھا ۔  کیوں کہ لوگوں کو وہ بہت پسند آگیا تھا ۔  تو اتنے پیسے نہیں تھے ۔ ایک دفعہ اس کا کاغذ خریدنے کے لیے گیا ۔ یہاں ایک گنپت روڈ ہے ، وہاں پر کاغذ کی مارکیٹ ہے ۔ وہاں کاغذ خریدنے گیا تو کاغذ کا ایک رِم خریدا تو میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ میں اس کاغذ کے رِم کو کسی تانگے میں ، کسی رکشہ میں یا کسی ریڑھی میں رکھ کے لے آتا تو میں نے کاغذ کا رِم لیا اسے دوہرا کیا اور کندھے پر رکھ لیا ۔ بائیسکل میں چلاتا تھا بڑی اچھی بائیسکل تھی میرے پاس ۔ تو میں سائیکل پر سوار ہوگیا اور جب چلا تو انار کلی میں اُس وقت بھی خاصا رش ہوا کرتا تھا ۔ تانگے آ رہے ہیں،ریڑھے آ رہے ہیں، سائیکلیں اور جو بھی اس زمانے کی ٹریفک تھی وہ چل رہی تھی ۔ تو کرنا خدا کا کیا ہوا  کہ وہ کاغذ کا جو رِم ہے ، اس کے جو بیٹن لگا ہوتا ہے اوپر کا ، مضبوط خاکی کاغذ وہ پھٹ گیا اور پھر دیکھتے دیکھتے چھر۔ر۔ر۔ر۔ر۔کر کے پانچ سو کاغذ جو تھے وہ سارے انار کلی میں پھیل گئے ، اور اُدھر سے آنے والے جو تانگے  تھے ، ان کے پہیے ظاہر ہے گیلے ہوتے ہیں ایک کاغذ لپیٹ کر چر۔ر۔ر۔ر۔اور میں دیوانوں کی طرح بھاگ بھاگ کر کہتا ذرا تانگہ روکو  ایک کاغذ وہ لے گیا ۔ ایک کاغذ وہ لے گیا ۔ تو  پھر بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ، میں نیچے بیٹھ گیا ، اور کاغذ اکٹھے کرنے لگا کہ جتنے بھی بچ جائیں اُتنے ہی غنیمت تھے ۔ آہستہ آہستہ  جتنے بھی کاغذ بچ سکے کچھ تین سو ساڑھے تین سو ۔ ان کو میں نے اکٹھا کیا  لپیٹا ۔ کسی شخص نے مجھے وہاں سوتلی کا ٹوٹا دیا وہ میں نے باندھا ، اور باندھ کے پھر اسے کاندھے پہ رکھ کے چلا ۔ تو پھر مجھے اپنی زندگی کے اوپر ، اور اس حالت کے اوپر ، اور ہتکِ عزت کے اوپر ، اور ذلت کے اوپر ، جو سب لوگ تماشا دیکھ رہے تھے ، اور میں جھک جھک کے وہاں سے کاغذ اکٹھے کر رہا تھا بڑی شرمندگی کا بھی احساس ہوا ۔ اور ندامت تو تھی ہی ، ساتھ نقصان کا بھی دکھ تھا ۔ 

جب یہ اکٹھے کر کے میں گھر آیا رونی صورت بنا کے تو یہ سارا واقعہ میں نے اپنی بیوی سے بیان کیا ۔ اس نے بھی مجھے تسلی دی ، لیکن وہ بھی میرے ساتھ اس غم میں شریک ہو گئی ۔ یہ واقعہ گذر گیا ۔ کئی سال بیت گئے ، تو میں نے بھی اپنا ایک البم تیار کر لیا ۔ دکھوں کے البم ساروں کے پاس ہوتے ہیں ۔ تو میں بھی اس البم  میں یہ واقعہ جو چھوٹا سا تھا اور اگرچہ اتنا اہم نہیں رہا تھا  کہ شامل کیا جاتا ۔ تو میرے بچے اسے پڑھنے لگے ۔ جب میرا پہلا بیٹا آٹھویں نویں میں پہنچا  تو میں نے اس سے کہا ، تمہیں پتہ نہیں ہم نے کس مشکل سے وقت گذارا ہے ۔ میں نے اور تمہاری ماں نے کتنی محنت کی ہے ، اور کن دکھوں سے ، اور کن مشکل راہوں سے گذرے ہیں ۔ 

ایک دفعہ میں اپنا کاغذ خریدنے گیا اور میں اسے انار کلی میں کندھے پہ رکھ کے ۔ اور میرا بیٹا حیرانی سے دیکھ رہا ہے کہ بیچارہ ابو کندھے پہ رکھ کے یوں بائیسکل چلاتا ہوا گذرا ، اور میں نے سارا واقعہ سنا دیا ۔ اس کے دل پر بڑا عجیب سا اثر ظاہر ہے ہوا ہوگا ، تکلیف وغیرہ ۔ لیکن میں اس کی نظروں میں ایک ہیرو بن گیا ۔ اور میں خود بھی اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا گیا کہ دیکھو کن مشکلات اور  حالات اور کیسے تکلیف دہ اوقات سے گذرا ہوں ۔ پھر میرا دوسرا بچہ ، اس کو بھی میں نے یہ بات سنانی شروع کی ، اور جہاں جہاں میں بیٹھتا تھا اپنا یہ البم کھول کے اس میں یہ رنگین تصویر نکال کے ، سب کو پوری تفصیل کے ساتھ سناتا تھا ۔ اس طرح بہت سارے سال گذر گئے ۔ تو ایک دن میری بیوی نے مجھ سے کہا ( ظاہر ہے وہ بھی بابا جی کے اثر میں آ گئی تھی) یہ نہایت گھٹیا بات ہے جو آپ کرتے ہیں ۔ اور جس کے ساتھ میں بھی شامل ہوں کیا ہوا اگر ایک چھوٹا سا ذرا تکلیف دہ وقت آیا اور تم نے اس کو اتنا پھیلا کر کے  پینوراما اسکرین کے اوپرسنانا شروع کر دیا ۔ تو میں نے کہا تو پھر میرے پاس یہ جو البم ہے ، جس دکھ کی کیفیات میں نے بیان کی ہیں ، یہ تو چلنی چاہییں ، کیوں کہ ہر شریف آدمی کے پاس اپنی البم ہوتی ہے۔ اور وہ دکھ جو انہوں نے فوٹو کھینچے ہوتے ہیں اسکرین پر ، وہ کبھی بھی ان کو نہیں چھوڑنا چاہتا ، چاہے کتنے اوپر درجے پر پہنچ جائے ۔ تو میری بیوی نے کہا ، نہیں آپ اپنی البم دیکھیں ۔ میں نے اس میں تبدیلی کر دی ہے ، ان تصویروں کو میں نے کارٹون میں بدل دیا ہے ، ایک ہنسی کی چیز بنا دی ہے ۔ کہ زندگی میں ایک ایسا واقعہ بھی آیا ، اور یوں گذر گیا ۔ تو یہ ہنسنے والی بات ہے  نہ کہ اتنا دردناک رونے والی ۔ خوامخواہ آپ توجہ وصول کرتے ہیں، یہ صحت مند ذہن کی نشانی نہیں ہے ، تو پھر مجھے خیال آیا کہ بات تو ان کی ٹھیک ہے ۔
اب ہم اس کو ایک کاٹون کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ اور میرے بچے، اور پوتے تالیاں بجاتے ہیں کہ دادا کے ساتھ یہ ہوا ہوگا ، کیسے کاغذ کے پیچھے بھاگے تھے ۔ میں نے کہا ، میں ایسے ڈھک ڈھک کرتا ہوا بھاگا تھا ، تو وہ خوش ہوتے ہیں ۔

اشفاق احمد  زاویہ  سنیپ شاٹ  صفحہ  242،43