میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا ( جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں ، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے ) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے ۔ اس نے کہا سر ، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو ، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں مجھے کم سے کم کرایہ کب ملا ، اور کتنا ملا ۔ میں نے کہا کتنا ۔ کہنے لگا آٹھ آنے ۔ میں نے کہا وہ کیسے ؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی ، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا ، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے ۔ تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ ایک پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کی باعث جا نہیں سکتی تھی ۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی ، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئیں اور مجھے اٹھنی دے دی ۔
ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں ، مسکرانا سیکھنا چاہیے اور اپنی زندگی کو اتنا "چیڑا" (سخت) نہ بنالیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گے اور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور ریلیکس رکھیں گے ۔ اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز و اقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے ۔ آمین
اشفاق احمد زاویہ 2 چھوٹا کام صفحہ 31
No comments:
Post a Comment