Wednesday, September 19, 2012

Most beautiful poetry..

آج سے 14 سو سال قبل ایک شاعر نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ہجویہ اشعار کہے تھے۔
جب وہ اشعار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاعر خاص حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: کہ حسان اٹھو منبر پر بیٹھو اور ان اشعار کا جواب دو۔
حضرت حسان بن ثابت نے ان ہجویہ اشعار کا جواب کچھ اس طرح سے دیا اردو ترجمے میں ملاحظہ فرمائیں:

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ

جہاں میں‌ ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی
نہیں رکھی ہے قدرت نےمیرے آقا کمی تجھ میں
جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ ،محمد رسول اللہ

بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے
کسی کا نام "عُزی"تھا کسی کو "لات" کہتے تھے
"ہُبل" نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں‌ پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں‌ میں گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبداللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا
عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
تو عبدالمطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے
خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
محمد سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ

فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
خدا کے حکم سے جبرئیل بھی اک فرد لشکر ہے
سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلت کُبری
ہمیں فضل خدا سے مل چکی ایماں‌ کی دولت ہے
ملی دعوت تمہیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے
سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
لیا تعمیر زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے
لڑائى اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا تر سعادت ہے
زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
لڑائی جب بھی لڑتے ہیں‌ لہو دشمن کے بہتے ہیں

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ

محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے(ان شاءاللہ)
کہاں رفعت محمد کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی
اگر گستاخ ناموس احمد کر چکے ہو تم
تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم
میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر
زبان رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
 

Most beautiful poetry..

آج سے 14 سو سال قبل ایک شاعر نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ہجویہ اشعار کہے تھے۔ 
جب وہ اشعار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاعر خاص حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: کہ حسان اٹھو منبر پر بیٹھو اور ان اشعار کا جواب دو۔
حضرت حسان بن ثابت نے ان ہجویہ اشعار کا جواب کچھ اس طرح سے دیا اردو ترجمے میں ملاحظہ فرمائیں:

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا

محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ

جہاں میں‌ ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی
نہیں رکھی ہے قدرت نےمیرے آقا کمی تجھ میں
جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ ،محمد رسول اللہ

بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے
کسی کا نام "عُزی"تھا کسی کو "لات" کہتے تھے
"ہُبل" نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں‌ پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں‌ میں گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبداللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا
عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
تو عبدالمطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے
خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
محمد سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ

فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
خدا کے حکم سے جبرئیل بھی اک فرد لشکر ہے
سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلت کُبری
ہمیں فضل خدا سے مل چکی ایماں‌ کی دولت ہے
ملی دعوت تمہیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے
سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
لیا تعمیر زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے
لڑائى اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا تر سعادت ہے
زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
لڑائی جب بھی لڑتے ہیں‌ لہو دشمن کے بہتے ہیں

میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ

محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے(ان شاءاللہ)
کہاں رفعت محمد کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی
اگر گستاخ ناموس احمد کر چکے ہو تم
تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم
میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر
زبان رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں

میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
 

Ashfaq Ahmad In Zavia Program L Safar-dar-Safar

سرتاج عاشقان حضرت اویس قرنی نے حضور کے چہرہ اقدس کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں ، اور رفیقان رسول وہیں کھڑے کھڑے شبیہ مبارک ملاحظہ فرماتے رہے -

جب آپ خاموش ہو گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہہ نے پوچھا !

سیدنا ! آپ تو حضور کی خدمت اقدس میں تشریف نہیں لا سکے ، اور آپ نے تو انھیں ایک مرتبہ بھی نہیں دیکھا ، پھر آپ کس طرح ان کے رخ مبارک کے خد و خال کی تفصیلات بیان فرما رہے ہیں -

حضرت اویس قرنی نے اپنی سفید داڑھی جبہ مبارک سے ملتے ہوئے کہا !

" آپ حضرات نے حضور کو "ہونے" کے مقام پر دیکھا ہے ، اور میں نے " نہ ہونے " کے مقام پر محبوب کی خدمت میں اپنی روح کو حاضر رکھا ہے -

آپ خوش نصیب تھے کہ نعمت ہر وقت آپ کے روبرو تھی -
ہم دور تھے اور قرب کی دید سے محروم تھے -

اور خوش نصیب اور محروم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ محروم ہر وقت نعمت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس کے لیے حریص رہتا ہے -

" نہ ہونے " کے مقام پر دیکھنے والے کی صرف آنکھیں ہی نہیں دیکھتیں اس کا سارا وجود طلب بن جاتا ہے - "

از اشفاق احمد سفر در سفر صفحہ ٢٥١

Ashfaq Ahmad In Zavia Program L Safar-dar-Safar

سرتاج عاشقان حضرت اویس قرنی نے حضور کے چہرہ اقدس کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں ، اور رفیقان رسول وہیں کھڑے کھڑے شبیہ مبارک ملاحظہ فرماتے رہے -

جب آپ خاموش ہو گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہہ نے پوچھا !

سیدنا ! آپ تو حضور کی خدمت اقدس میں تشریف نہیں لا سکے ، اور آپ نے تو انھیں ایک مرتبہ بھی نہیں دیکھا ، پھر آپ کس طرح ان کے رخ مبارک کے خد و خال کی تفصیلات بیان فرما رہے ہیں -


حضرت اویس قرنی نے اپنی سفید داڑھی جبہ مبارک سے ملتے ہوئے کہا !

" آپ حضرات نے حضور کو "ہونے" کے مقام پر دیکھا ہے ، اور میں نے " نہ ہونے " کے مقام پر محبوب کی خدمت میں اپنی روح کو حاضر رکھا ہے -

آپ خوش نصیب تھے کہ نعمت ہر وقت آپ کے روبرو تھی -
ہم دور تھے اور قرب کی دید سے محروم تھے -

اور خوش نصیب اور محروم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ محروم ہر وقت نعمت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس کے لیے حریص رہتا ہے -

" نہ ہونے " کے مقام پر دیکھنے والے کی صرف آنکھیں ہی نہیں دیکھتیں اس کا سارا وجود طلب بن جاتا ہے - "

از اشفاق احمد سفر در سفر صفحہ ٢٥١