Monday, October 29, 2012

Ashfaq Ahmad in Zavia Program : Shak

جوانی میں مجھے پودوں اور درختوں سے بڑا شغف تھا ۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی  آری ہوا کرتی تھی جس سے میں درختوں کی شاخیں  کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی کی مطابق تراش خراش کیا کرتا تھا ۔   اور ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ  جو پانچویں ، چھٹی میں  میں پڑہتا ہوگا ، وہ اس ولایتی آری میں بہت  دلچسپی لیتا تھا ،  ۔ ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا ، اور اسے ہاتھ سے چھو بھی چکا تھا ۔ 

ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی ، میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیا لیکن بے سود ۔  اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا  اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ میری آری اسے نے چرائی ہے  ، اس کی شکل صورت ، چلنے بات کرنے کا انداز سب بدل گیا تھا ۔ 

 اب مجھے ایسا لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا اب ویسے نہیں مسکراتا ، مجھے ایسا لگتا جیسے  مجھے وہ اپنے دانتوں کے ساتھ چڑا رہا ہو ۔ اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے اب وہ مجھے کھڑے دکھائی دیتے تھے ۔  اوراس کی آنکھوں مجھے ایک ایسی چیز دکھائی دیتی جو آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے ۔ 

لیکن مجھے اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا  ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ  میں مجھے وہ آری مل گئی ۔ 

جب مجھے وہ آری مل گئی اور مین شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجیے وہی لڑکا اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کے ساتھ  اور ویسی ہی معصومیت کے ساتھ مجھے نظر آرہا تھا ۔ میں کہاں تک آپ کو یہ باتیں بتاتا چلا جاؤں  آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں کہ شک کی کیفیت میں پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی  ۔ اس موقعے پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے 

مشام تیغ سے صحرا میں ملتا ہےسراغ اس کا 

ظن و تخمیں سے ھاتہ آتا نہین آہوئے تاتاری

 

جو لوگ شک و شبہے میں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ میری نگاہوں میں جو کلپرٹ ہے بس وہی مجرم ہے  ، غلط اور شک پر مبنی اندازوں  سے اصل بات یا آہوئے تاتاری گرفت میں نہیں آتا ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 2  شک صفحہ 110 

Ashfaq Ahmad in Zavia Program : Shak

جوانی میں مجھے پودوں اور درختوں سے بڑا شغف تھا ۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی  آری ہوا کرتی تھی جس سے میں درختوں کی شاخیں  کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی کی مطابق تراش خراش کیا کرتا تھا ۔   اور ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ  جو پانچویں ، چھٹی میں  میں پڑہتا ہوگا ، وہ اس ولایتی آری میں بہت  دلچسپی لیتا تھا ،  ۔ ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا ، اور اسے ہاتھ سے چھو بھی چکا تھا ۔ 

ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی ، میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیا لیکن بے سود ۔  اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا  اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ میری آری اسے نے چرائی ہے  ، اس کی شکل صورت ، چلنے بات کرنے کا انداز سب بدل گیا تھا ۔ 

 اب مجھے ایسا لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا اب ویسے نہیں مسکراتا ، مجھے ایسا لگتا جیسے  مجھے وہ اپنے دانتوں کے ساتھ چڑا رہا ہو ۔ اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے اب وہ مجھے کھڑے دکھائی دیتے تھے ۔  اوراس کی آنکھوں مجھے ایک ایسی چیز دکھائی دیتی جو آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے ۔ 

لیکن مجھے اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا  ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ  میں مجھے وہ آری مل گئی ۔ 

جب مجھے وہ آری مل گئی اور مین شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجیے وہی لڑکا اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کے ساتھ  اور ویسی ہی معصومیت کے ساتھ مجھے نظر آرہا تھا ۔ میں کہاں تک آپ کو یہ باتیں بتاتا چلا جاؤں  آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں کہ شک کی کیفیت میں پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی  ۔ اس موقعے پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے 

مشام تیغ سے صحرا میں ملتا ہےسراغ اس کا 

ظن و تخمیں سے ھاتہ آتا نہین آہوئے تاتاری

 

جو لوگ شک و شبہے میں یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ میری نگاہوں میں جو کلپرٹ ہے بس وہی مجرم ہے  ، غلط اور شک پر مبنی اندازوں  سے اصل بات یا آہوئے تاتاری گرفت میں نہیں آتا ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 2  شک صفحہ 110 

Kabhi Na Bhoolnay Wali Kamyabi Aur Waaday Ki Pasdari...

رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے نے ہر طرف اپنے سائے پھیلائے ہوئے تھے۔ ایسے میں ایک شخص قلعے کی دیوار سے رسا لٹکائے نیچے اتر رہا تھا۔ وہ جس قدر اپنی منزل کے قریب آرہا تھا، اسی قدر طرح طرح کے اندیشے اس کے دل کی دھڑکنوں کو تیز کر رہے تھے۔

"کہیں ایسا نہ ہو کہ قلعے والے مجھے دیکھ لیں اور تیر مار کر راستے ہی میں میرا قصہ تمام کر دیں۔۔۔۔ کہیں نیچے اترتے ہی مسلمانوں کی تلواریں میرے خون سے رنگین نہ ہو جائیں۔"

یہ تھے وہ خدشات جو اس کے دل و دماغ میں شدت سے گونج رہے تھے۔ پھرجوں ہی اس نے زمین پر قدم رکھا مجاہدین نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کایہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ مسلمان مجاہد رات کے اندھیرے میں قلعے سے بے خبر ہوں گے۔
اترنے والے نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ اسے لشکر کے سپہ سالار کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ وہ سپہ سالار کون تھے؟ وہ اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مجاہدین کی مٹھی بھر فوج کے ساتھ ملک شام کے دارالسلطنت دمشق کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ دن پر دن گزرتے جا رہے تھے مگر قلعہ تھا کہ کسی طور فتح ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ مجاہدین کو ایک دو دن کے آرام کا وقفہ دے کر وہ یا تو قلعے کے دروازے توڑنے کی کوشش کریں گے یا اس کی مضبوط دیواروں میں سرنگ لگانے کی ترکیب آزمائیں گے۔ انھیں یہ بھی یقین تھا کہ اللہ کی غیبی مدد ضرور آئے گی۔
اب یہ غیبی مدد آ پہنچی تھی!

دمشق کے قلعے سے نیچے اترنے والے نوجوان نے مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کی یہ خواہش فوراً پوری کر دی گئی۔ اس نے دعوی کیا کہ وہ مجاہدین کو قلعے کے اندر پہنچا سکتا ہے۔ اس کے مطابق کل رات رومیوں پر حملے کا بہترین موقع ہے۔ ان کے مذہبی رہنما "بطریق" کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اور پورا دمشق جشن منا رہا ہے۔ اس جشن میں فوج سمیت سب شراب پئیں گے اور یہی ان پر فیصلہ کن وار کرنے کا موقع ہوگا۔

اگلی رات خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ انھوں نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور دوسرے ماتحت سالاروں کو اپنے اس منصوبے سے آگاہ کیا تھااور نہ ہی وہ کوئی زیادہ فوج اپنے ہمراہ لے جا رہے تھے۔ وہ یہ کام انتہائی رازداری سے کرنا چاہتے تھے۔ صرف ایک سو مجاہد جنگجوؤں کو قلعے پر شب خون مارنے کے لیے منتخب کیا گیا۔

سب سے پہلے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ، پھرمسلمان ہونے والا عیسائی نوجوان یونس بن مرقس، پھر قعقاع اور آخر میں سو مجاہد کمندوں کے ذریعے سے مشرقی دروازے کی طرف سے قلعے کے اندر داخل ہوگئے۔ انتہائی خطرے کا مرحلہ قریب آ چکا تھا۔

جوں ہی وہ دیوار سے اترے انھیں رومی فوجیوں کی باتیں سنائی دیں۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے کہنے پر یونس بن مرقس نے رومی زبان میں بارعب لہجے کے ساتھ ان رومی فوجیوں کو کہا:

"آگے چلو!" رومی پہرے دار سمجھے کہ یہ حکم ان کے کسی افسر نے دیا ہے۔ وہ دروازے پر اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر آگے بڑھتے گئے۔

اتنے میں مجاہد تیار ہو چکے تھے۔ انھوں نے پہرے داروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور آناً فاناً ان کا قصہ تمام کر دیا۔ راہ میں آنے والے ہر رومی پہرے دار سے یہی سلوک کیا گیا اور آخر کار بہت سی زنجیروں اور بھاری بھرکم تالوں سے بند دروازہ کھول دیا گیا۔

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا اپنا دستہ اس کے لیے پہلے سے تیار کھڑا تھا۔ وہ قلعے میں داخل ہوگیا اور رومی فوج کے دستوں کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بہادری کے بے مثال جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ رومی دستے بھی اسلامی سپاہیوں کے آگے ڈٹ گئے مگر خالد رضی اللہ عنہ کا دستہ ان پر آہستہ آہستہ غالب آتا جا رہا تھا۔ غروب آفتاب تک مسلمان اس جنگ کو تقریباً جیت چکے تھے۔ مسلمان سپاہی اب آگے بڑھے تو حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ اب ان کے سامنے کوئی رومی سپاہی نہیں آ رہا تھا۔ انھوں نے اسے دشمن کی چال سمجھا اور پھونک پھونک کر قدم بڑھانے لگے۔ جب وہ مرکزی گرجے کے پاس پہنچے تو وہاں سے اس کہانی کے ایک نئے موڑ کا آغاز ہوا۔

خالد رضی اللہ عنہ اپنے دستے کے ساتھ گرجے کی طرف آ نکلے تو سامنے ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت پر امن انداز میں سامنے سے آرہے تھے۔ ان سب کی تلواریں نیام میں تھیں اور رومی سپہ سالار "توما" اور اس کے خاص آدمی ان کے ساتھ تھے۔

"اے پروردگار! یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟" خالد رضی اللہ عنہ کے خیالات اس وقت یقینا" یہی ہوں گے۔ دونوں نامور سپہ سالار خاصی دیر تک ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھتے رہے۔ آخر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے سکوت توڑا اور بولے:
"ابوسلیمان! (خالد رضی اللہ عنہ کی کنیت) کیا تم اللہ کا شکر ادا نہیں کرو گے کہ اس کی ذات نے یہ شہر ہمیں بغیر لڑے عنایت کر دیا ہے؟"

خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: "کس صلح کی بات کرتے ہیں، ابو عبیدہ؟ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں نے لڑ کر یہ شہر حاصل کیا ہے۔ اللہ کی قسم! میں خود شہر میں داخل ہوا ہوں۔ میں نے تلوار چلائی ہے اور میرے ساتھیوں پر تلوار چلی ہے، وہ شہید ہوئے ہیں۔ میں رومیوں کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ خیر و عافیت سے شہر سے چلے جائیں۔ ان کا خزانہ اور مال ہمارا مال غنیمت ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ صلح کس نے اور کیوں کی ہے؟"

ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: "ابو سلیمان! میں اور میرے دستے پرامن طریقے سے قلعے میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر آپ میرے فیصلے کو رد کرنا چاہیں تو کر دیں لیکن میں دشمن سے معافی کا وعدہ کر چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا تو رومی کہیں گے کہ مسلمان اپنے وعدوں کی پاس داری نہیں کرتے۔ اس کی زد اسلام ہی پر پڑے گی۔"

خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ننگی تلوار سے ابھی بھی خون ٹپک رہا تھا۔ ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال تھا۔ ان میں کئی زخمی بھی تھے۔ انھوں نے پورا دن لڑ کر فتح حاصل کی تھی۔ مگر یہ صلح کیوں اور کیسے؟ اس بات کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔
پھر خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی ساری سازش سمجھ گئے۔ وہ یہ کہ خالد رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر رومیوں کو بر وقت ہوگئی اور وہ یہ جان گئے کہ ان کی مدہوش اور شراب کے نشے میں دھت فوج مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ اسی لیے انھوں نے فوراً لشکر کے دوسرے سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ چونکہ خالد رضی اللہ عنہ کے شب خون سے ناواقف تھے اور قلعے کے طویل محاصرے سے پریشان بھی تھے، اس لیے انھوں نے صلح کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور رومیوں کو امان دے دی۔
یہ احساس ہوتے ہی چند مجاہد توما اور اس کے ساتھیو ں کو قتل کرنے کے لیے لپکے۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوتے، ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ لپک کر ان کے بیچ میں آ گئے اور فرمایا:

"خبردار! میں ان کی جان بخشی کا عہد کر چکا ہوں۔"

خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے جاں باز ساتھی غصے سے بپھر رہے تھے۔ وہ کسی طور رومیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے اس قلعے کو نہایت خطرناک مراحل سے گزر کر حاصل کیا تھا۔ اب وہ اپنی کامیابی کو یوں سازش کی نظر ہوتا دیکھ کر صبر نہیں کر پا رہے تھے۔

اب ایک طرف عہد کی پاس داری کا معاملہ تھا اور دوسری طرف مجاہدوں کی قربانیاں! ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اگرچہ لشکر کے سالار اعلی نہیں تھے، ان کے عہد کی پابندی خالد رضی اللہ عنہ کے لیے ضروری نہیں تھی مگر وہ مسلمان تو تھے اور وہ بھی نہایت ممتاز!

آخر جوش ہارگیا، غصے کو ناکامی ہوئی، عہد کی پاس داری ہوئی اور شیطان کو شکست!
خالد رضی اللہ عنہ نے بطور سالار اعلی تاریخی فیصلہ کیا۔۔۔۔ یہ فیصلہ تھا عہد کی پاس داری کا! وہ نہیں چاہتے تھے کہ اسلامی تاریخ پر عہد شکنی کا داغ لگے۔
پھر جب رومی اپنا مال و دولت، اپنی جانیں، سب کچھ بچا کے لے جا رہے تھے، تو خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی دل پر پتھر رکھ کر انھیں جاتا دیکھ رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہی رومی اسی اسلحے اور اسی مال کے ساتھ کسی دوسری جگہ ان کے ساتھ جنگ لڑیں گے۔ لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انھوں نے اسلام کے سچے اور با اصول مجاہدین ہونے کا ان مٹ ثبوت دے دیاہے، عہد کی پاس داری کی اسلامی روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اور یہ ان کی نہایت عظیم کامیابی تھی۔۔۔۔ کبھی نہ بھولنے والی کامیابی-----

40,000 Ashaar Waali naat...

عربی کے ایک شاعر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں ایک نعت لکھی، اس نعت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چالیس ہزار اشعار ہیں، اور دنیا میں اور کوئی ایسی ہستی نہیں جس کی شان میں چالیس ہزار اشعار کہے گئے ہوں 
اس نعت کا آخری شعر اتنا زبردست ہے کہ وہ چالیس بزار اشعار پر بھاری ہے ، اور اس شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان میں تاب نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال و محاسن کا احاطہ کر سکے 
اردو کے شاعر حفیظ تائب نے اس شعر کا ترجمہ کچھ یوں کیا ہے 

تھکی ہے فکر رسا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے 

قلب ہے آبلہ پا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے 
تمام عمر لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدح باقی ہے 
ورق تمام ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے

40,000 Ashaar Waali naat...

عربی کے ایک شاعر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں ایک نعت لکھی، اس نعت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چالیس ہزار اشعار ہیں، اور دنیا میں اور کوئی ایسی ہستی نہیں جس کی شان میں چالیس ہزار اشعار کہے گئے ہوں 
اس نعت کا آخری شعر اتنا زبردست ہے کہ وہ چالیس بزار اشعار پر بھاری ہے ، اور اس شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان میں تاب نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال و محاسن کا احاطہ کر سکے 
اردو کے شاعر حفیظ تائب نے اس شعر کا ترجمہ کچھ یوں کیا ہے 

تھکی ہے فکر رسا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے 

قلب ہے آبلہ پا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے 
تمام عمر لکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدح باقی ہے 
ورق تمام ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدح باقی ہے

Haq Allah Lyrics

Haq Allah Lyrics

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah
Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah
Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah
Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah…

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Aye Mujahid e Nabi naat gungunaye jaa
Naghma e Muhammadi tu jhoom kar sunaye jaa
Do jahan pay chaye jaa zarb e Haq lagaye jaa.

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Parcham e Nabi utha lay Khuda ka aasra
Dars e Murshidi hay yeh Haq pay zindagi luta
Haq pay jaan lutaye ja zarb e Haq lagaye jaa

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Baat kar tu baad main pehlay tu salaam kar
Joo terey buzurg hain un ka ihtaram ker
Unn say faiz paye jaa zarab-e-Haq lagaye jaa

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Shukar kar Khuda ka tu tujh ko yeh watan mila
Pak sarzameen mili aur yeh chaman mila
Sar ko tu jhukaye ja zarab-e-Haq lagaye ja

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Jhoot bolna nahin tum kabhi zabaan say
Lanat e Khuda hai yeh daikh lo Quran say
Sach kay geet gaye ja zarb-e-Haq lagaye ja

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Apnay murshidi ka dil iss tarah say shaad kar
Joo sabaq milay tujhay tu dil laga kay yaad kar
Unn say faiz paye jaa zarab-e-Haq lagaye jaa

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Aaye jo Ramadan rozoon ka Ihtamam kar
Khaa tu Rab ki naimtain zikr uss ka aam kar
Zikr tu sunaye ja zarb-e-Haq lagaye jaa

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Aarzo ki hai dua aour rahay sukhi sada
Meharban Aaqa hoon aur karam karay Khuda
Madani rang mein rangata ja zarab-e-Haq lagaye jaa

Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah, Haq Allah

Lyrics and Video Information

Naat Khawan: Farhan Ali Qadri
Album: Noor Wala Aaya Hai
Album Subtitle: Marhaba Ya Mustafa
Naat: Haq Allah
Audio: Heera Stereo

Syed Nay Karbala Main Waday Nibha Diye Hain Lyrics

Syed Nay Karbala Main Waday Nibha Diye Hain Lyrics

Syed Ne Karbala Mein Waadhe Nibha Diye Hai,
Deen E Muhammadiee Ke Gulshan Kilya Diye Hai.

Bole Hussain Maula, Teri Raza Ki Khaatir,
Ikh Ikh Kar Ke Maine Heereh Luta Diye Hai.

Deen-E-Nabi Pe Waari, Akbar Ne Bhi Jawaani,
Abbas Ne Bhi Apne Bazoo Kata Diye.

Zainab Ke Baag Mein Bhi Do Pool Teh Mehkhateh,
Zainab Ne Wo Bhi Donoh Raah-E-Khuda Diye Hai.

Zahra Ke Naaz Paaleh, Jooloh Pe Soneh Wale,
Karbala Ki Haak Mein Wo Heereh Luta Gaye Hai.


Bakhshish Hai Unki Laazim, Syed Ke Gham Mein Hafiz,
Do Chaar Ansoo Roh Kar Jisne Baha Diye Hai.

Syed Ne Karbala Mein Waadhe Nibha Diye Hai,
Deen-E-Muhammadi Ke Gulshan Kilya Diye Hai.

Naat Information
Type: Manqabat
Na'at Reciter: Abdul Rauf Rufi