Friday, November 16, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia 2 : Nanbai

بغداد میں ایک نانبائی تھا ،  وہ بہت اچھے نان کلچے لگاتا تھا اور دور دور سے دنیا اس کے گرم گرم نان خریدنے کے لیے آتی تھی ۔ کچھ لوگ بعض اوقات  اسے کھوٹا سکہ دے کر چلے جاتے  جیسے یہاں ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں ۔ وہ نانبائی کھوٹا سکہ لینے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد  اسے اپنے " گلے" ( پیسوں والی صندوقچی ) میں ڈال لیتا تھا ۔ کبھی واپس نہیں کرتا تھا  اور کسی کو آواز دے کر نہیں کہتا تھا کہ تم نے مجھے کھوٹا سکہ دیا ہے ۔ بے ایمان آدمی ہو  وغیرہ وغیرہ   اس بلکہ محبت سے وہ سکہ بھی رکھ لیتا تھا ۔ جب اس نانبائی  کا آخری وقت آیا تو  اس نے پکار کر اللہ سے کہا ( دیکھئیے  یہ بھی  دعا کا ایک انداز ہے )  "اے اللہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے  کہ میں تیرے بندوں سے کھوٹے سکے لے کر انہیں اعلیٰ درجے کے خوشبو دار گرم گرم صحت مند نان دیتا رہا اور وہ لے کر جاتے رہے ۔  آج میں تیرے پاس جھوٹی اور کھوٹی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وہ اس   طرح سے نہیں جیسی تو چاہتا ہے ۔ میری تجھ سے یہ درخواست ہے کہ جس طرح سے میں نے تیری مخلوق کو معاف کیا تو بھی مجھے معاف کر دے  ۔ میرے پاس اصل  عبادت نہیں ہے "۔
 بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اونچے مقام پر فائز تھا اور اللہ نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ متمنی تھا ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2  ھاٹ لائن  صفحہ 97

 

Ashfaq Ahmad In Zavia 2 : Nanbai

بغداد میں ایک نانبائی تھا ،  وہ بہت اچھے نان کلچے لگاتا تھا اور دور دور سے دنیا اس کے گرم گرم نان خریدنے کے لیے آتی تھی ۔ کچھ لوگ بعض اوقات  اسے کھوٹا سکہ دے کر چلے جاتے  جیسے یہاں ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں ۔ وہ نانبائی کھوٹا سکہ لینے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد  اسے اپنے " گلے" ( پیسوں والی صندوقچی ) میں ڈال لیتا تھا ۔ کبھی واپس نہیں کرتا تھا  اور کسی کو آواز دے کر نہیں کہتا تھا کہ تم نے مجھے کھوٹا سکہ دیا ہے ۔ بے ایمان آدمی ہو  وغیرہ وغیرہ   اس بلکہ محبت سے وہ سکہ بھی رکھ لیتا تھا ۔ جب اس نانبائی  کا آخری وقت آیا تو  اس نے پکار کر اللہ سے کہا ( دیکھئیے  یہ بھی  دعا کا ایک انداز ہے )  "اے اللہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے  کہ میں تیرے بندوں سے کھوٹے سکے لے کر انہیں اعلیٰ درجے کے خوشبو دار گرم گرم صحت مند نان دیتا رہا اور وہ لے کر جاتے رہے ۔  آج میں تیرے پاس جھوٹی اور کھوٹی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وہ اس   طرح سے نہیں جیسی تو چاہتا ہے ۔ میری تجھ سے یہ درخواست ہے کہ جس طرح سے میں نے تیری مخلوق کو معاف کیا تو بھی مجھے معاف کر دے  ۔ میرے پاس اصل  عبادت نہیں ہے "۔
 بزرگ بیان کرتے ہیں کہ کسی نے اس کو خواب میں دیکھا تو وہ اونچے مقام پر فائز تھا اور اللہ نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کا وہ متمنی تھا ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2  ھاٹ لائن  صفحہ 97

 

Ashfaq Ahmad in Zavia 2

میں ایک مرتبہ لاہور سے قصور جا رہا تھا تو  ایک پلی پر لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور اس پلی کو  ڈنڈے سے بجا رہا تھا اور آسمان کو دیکھنے میں محو تھا ۔  مجھے بحیثیت استاد کے اس پر بڑا غصہ آیا کہ دیکھو وقت ضائع کر رہا ہے اس کو تو پڑھنا چاہیے 

خیر میں وہاں سے گذر گیا ۔ تھوڑی دور آگے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ جو فائلیں اور کاغذات میرے ہمراہ ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہیں  لہٰذا مجھے لوٹ کر دفتر جانا پڑا ۔  میں واپس لوٹا  تو لڑکا پھر ڈنڈا بجا رہا تھا ۔ مجھے اس پر اور غصہ آیا ۔ 

جب میں کاغذات لے کر واپس آرہا تھا تب بھی اس لڑکے کی کیفیت ویسی ہی تھی ۔  میں نے وہاں گاڑی روک دی اور کہا 

یار دیکھو تم یہاں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہو  ، تمہاری عمر کتنی ہے ۔ 

اس نے کہا تیرہ یا چودہ سال ہے ۔ میں نے کہا تمہیں پڑھنا چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ 

تب میں نے کہا تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ۔ میرے خیال میں فضول میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہو ، تمہیں شرم آنی چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں تو یہاں بیٹھا بڑا کام کر رہا ہوں  میں نے کہا آپ کیا کام کر رہے ہہیں ۔

کہنے لگا جی میں چڑی کو دیکھ رہا ہوں یہ وہی چڑی ہے  جو پچھلے سے پچھلے سال ادہر آئی تھی اور اس نے یہیں گھونسلا ڈالا تھا  تب اس کے ساتھ کوئی اور چڑا تھا اب  کی بار شاید یہ کسی اور سے شادی کر کے آئی ہے ۔ 

میں نے کہا کہ تم کیسے پہچانتے ہو کہ یہ وہی چڑیا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔  میں اس کو پہچانتا ہوں یہ مجھے پہچانتی ہے ۔ مجھے اس کی بات سن کر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ میرے ملک میں ایک اورنی تھالوجسٹ بھی ہے ۔ 

اس کا گو کوئی گائیڈ نہیں ۔ یہ کسی یونیورسٹی سے یہ مضمون نہیں پڑھا کیونکہ ہماری کسی یونیورسٹی میں یہ سبجیکٹ نہیں پڑھایا جاتا ہے ۔ 

میں چونکہ شرمندہ ہو چکا تھا اور اس سے کہ چکا تھا تم بڑا وقت ضائع کر رہے ہو  اور فضول کام میں لگے ہو اور اب میں نے اپنے مؤقف سے نہ ہٹتے ہوئے اور شرمندگی ٹالتے ہوئے کہا  کہ یار تمہیں کوئی کام کرنا چاہیے ۔ میری طرف دیکھو میں کیسی اچھی گاڑی میں ہوں  اور میں اپنی ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں ۔  لوگ مجھے اجلاسوں میں بلاتے ہیں اور میں تم سے بڑے درجے میں ہوں  اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں ۔ اور تم نے گویا تعلیم حاصل نہیں کی تم فضول لڑکے ہو ۔ وہ میری بات سن کر ہنس کر کہنے لگا  " صاحب جی بات یہ ہے کہ ہم تم دونوں ہی برابر ہیں  ۔ میں اس پلی پر بیٹھا بھاگتی ہوئی موٹریں دیکھ رہا ہوں  ۔ اور آپ موٹر میں بیٹھے پلیا کو بھاگتا دیکھ رہے ہیں ۔  آپ نے بھی کچھ زیادہ اکٹھا نہیں کیا "۔

 خواتین و حضرات !  کبھی کبھی اس لڑکے کی بات مجھے یاد آ جاتی ہے  مین نے اب حال ہی میں پچھلے سے پچھلے ہفتے یہ فیصلہ کیا کہ اتنی زیادہ خشک اور اتنی زیادہ سنجیدہ زندگی بسر کرنے کی نہ تو اجتماعی طور پر ضرورت ہے اور نہ انفرادی طور پر  ۔ بلکہ ہمیں ڈھیلے ڈھالے اور پیارے پیارے آدمی ہو کر  ریلیکس رہنے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2  زندگی سے پیار کی اجازت درکار ہے  صفحہ  176 

Ashfaq Ahmad in Zavia 2

میں ایک مرتبہ لاہور سے قصور جا رہا تھا تو  ایک پلی پر لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور اس پلی کو  ڈنڈے سے بجا رہا تھا اور آسمان کو دیکھنے میں محو تھا ۔  مجھے بحیثیت استاد کے اس پر بڑا غصہ آیا کہ دیکھو وقت ضائع کر رہا ہے اس کو تو پڑھنا چاہیے 

خیر میں وہاں سے گذر گیا ۔ تھوڑی دور آگے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ جو فائلیں اور کاغذات میرے ہمراہ ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہیں  لہٰذا مجھے لوٹ کر دفتر جانا پڑا ۔  میں واپس لوٹا  تو لڑکا پھر ڈنڈا بجا رہا تھا ۔ مجھے اس پر اور غصہ آیا ۔ 

جب میں کاغذات لے کر واپس آرہا تھا تب بھی اس لڑکے کی کیفیت ویسی ہی تھی ۔  میں نے وہاں گاڑی روک دی اور کہا 

یار دیکھو تم یہاں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہو  ، تمہاری عمر کتنی ہے ۔ 

اس نے کہا تیرہ یا چودہ سال ہے ۔ میں نے کہا تمہیں پڑھنا چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ 

تب میں نے کہا تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ۔ میرے خیال میں فضول میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہو ، تمہیں شرم آنی چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں تو یہاں بیٹھا بڑا کام کر رہا ہوں  میں نے کہا آپ کیا کام کر رہے ہہیں ۔

کہنے لگا جی میں چڑی کو دیکھ رہا ہوں یہ وہی چڑی ہے  جو پچھلے سے پچھلے سال ادہر آئی تھی اور اس نے یہیں گھونسلا ڈالا تھا  تب اس کے ساتھ کوئی اور چڑا تھا اب  کی بار شاید یہ کسی اور سے شادی کر کے آئی ہے ۔ 

میں نے کہا کہ تم کیسے پہچانتے ہو کہ یہ وہی چڑیا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔  میں اس کو پہچانتا ہوں یہ مجھے پہچانتی ہے ۔ مجھے اس کی بات سن کر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ میرے ملک میں ایک اورنی تھالوجسٹ بھی ہے ۔ 

اس کا گو کوئی گائیڈ نہیں ۔ یہ کسی یونیورسٹی سے یہ مضمون نہیں پڑھا کیونکہ ہماری کسی یونیورسٹی میں یہ سبجیکٹ نہیں پڑھایا جاتا ہے ۔ 

میں چونکہ شرمندہ ہو چکا تھا اور اس سے کہ چکا تھا تم بڑا وقت ضائع کر رہے ہو  اور فضول کام میں لگے ہو اور اب میں نے اپنے مؤقف سے نہ ہٹتے ہوئے اور شرمندگی ٹالتے ہوئے کہا  کہ یار تمہیں کوئی کام کرنا چاہیے ۔ میری طرف دیکھو میں کیسی اچھی گاڑی میں ہوں  اور میں اپنی ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں ۔  لوگ مجھے اجلاسوں میں بلاتے ہیں اور میں تم سے بڑے درجے میں ہوں  اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں ۔ اور تم نے گویا تعلیم حاصل نہیں کی تم فضول لڑکے ہو ۔ وہ میری بات سن کر ہنس کر کہنے لگا  " صاحب جی بات یہ ہے کہ ہم تم دونوں ہی برابر ہیں  ۔ میں اس پلی پر بیٹھا بھاگتی ہوئی موٹریں دیکھ رہا ہوں  ۔ اور آپ موٹر میں بیٹھے پلیا کو بھاگتا دیکھ رہے ہیں ۔  آپ نے بھی کچھ زیادہ اکٹھا نہیں کیا "۔

 خواتین و حضرات !  کبھی کبھی اس لڑکے کی بات مجھے یاد آ جاتی ہے  مین نے اب حال ہی میں پچھلے سے پچھلے ہفتے یہ فیصلہ کیا کہ اتنی زیادہ خشک اور اتنی زیادہ سنجیدہ زندگی بسر کرنے کی نہ تو اجتماعی طور پر ضرورت ہے اور نہ انفرادی طور پر  ۔ بلکہ ہمیں ڈھیلے ڈھالے اور پیارے پیارے آدمی ہو کر  ریلیکس رہنے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2  زندگی سے پیار کی اجازت درکار ہے  صفحہ  176 

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

عام انسانی زندگی کافی بے مقصد ہوتی ہے ۔  ہر کسی کو تو کوئی لگن ، یا کوئی دھن ، یا کسی قسم کا جنون  یا کوئی ایسا شوق نہیں ہوتا  جس کے لیے  وہ اپنی ساری زندگی وقف کر دے ۔  وہ لوگ تو خال خال ہی ہوتے ہیں ۔  لیکن باقی کے لوگ صرف روٹی کپڑا اور مکان  آسائش اور خوش وقتی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔  ان کے بھانویں کوئی مرے کوئی جیے ان کا پیالہ پر رہنا چاہیے ۔  ان کا وقت اچھا گزرنا چاہیے ۔  اور ان کی آسائشوں میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے 


اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 198

Ashfaq Ahmad in Baba Sahba

عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ انسان خدا کے تصور کو شعوری طور پرٹھیک طرح سے سمجھ لے ایسا نہ ہوا تو  کوئی اور شے خدا بن کر اپنی پوجا کروانے لگے گی ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 543

 

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

عام انسانی زندگی کافی بے مقصد ہوتی ہے ۔  ہر کسی کو تو کوئی لگن ، یا کوئی دھن ، یا کسی قسم کا جنون  یا کوئی ایسا شوق نہیں ہوتا  جس کے لیے  وہ اپنی ساری زندگی وقف کر دے ۔  وہ لوگ تو خال خال ہی ہوتے ہیں ۔  لیکن باقی کے لوگ صرف روٹی کپڑا اور مکان  آسائش اور خوش وقتی کے طلبگار ہوتے ہیں ۔  ان کے بھانویں کوئی مرے کوئی جیے ان کا پیالہ پر رہنا چاہیے ۔  ان کا وقت اچھا گزرنا چاہیے ۔  اور ان کی آسائشوں میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے 


اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 198