ذہن خود غرض ہے تاریخ بتاتی ہے ہمیں
ذہن کو دل کا طرف دار نہ سمجھا جائے
عشق میں خون کے آنسو ہی سند رکھتے ہیں
آبلہ پائی کو معیار نہ سمجھا جائے
وہ جو دو چار بدلتے ہیں مقدر سب کا
ایسے دو چار کو دو چار نہ سمجھا جائے
شیخ تنقید کیا کرتا ہے مہ خانوں پر
شیخ کو صاحب کردار نہ سمجھا جائے
آزمائش سے گزرتی ہے محبت پہلے
ایسے اقرار کو اقرار نہ سمجھا جائے
اہل خانہ کے بھی تم غور سے چہرے دیکھو
صرف دشمن پس دیوار نہ سمجھا جائے
کیسا جملہ کہا فرہاد نے تیشہ رکھ کر
عشق دشوار ہے دشوار نہ سمجھا جائے
No comments:
Post a Comment