"صبح بخیر۔۔!! آپ آج صبح کلیسا کی زیارت کے لیے آنے والے پہلے سیاح ہیں۔"اس نے ٹوپی اتار کر بغل میں داب لی اور مسکرا کر کہا۔
"صبح بخیر ۔"میں نے ٹکٹ کا بقیہ حصہ نہایت احترام کے ساتھ اپنی جیب میں محفوظ کرتے ہوئے جواب دیا۔"میں آج صبح مسجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کی زیارت کے لیے آنے والا پہلا سیاح ہوں۔"
محافظ کے چہرے سے مسکراہٹ فوری طور پر غائب ہو گئی۔ اس نے مزید گفتگو کی بجائےاپنی ٹوپی پھر سر پر جما کر اسے غصے سے تھپکااور لکڑی کی دیوار میں نصب ایک چھوٹے سے پھاٹک کی چٹخنی کھول کر مجھے اندر جانے
کا اشارہ کیا ۔ میں نے جو نہی تاریکی کے اس مستطیل ٹکڑے کے اندر قدم رکھا ۔۔۔۔میرے پیچھے پھاٹک بند ہو گیا۔۔۔۔کھٹاک ۔۔!کھٹاک۔۔۔!چٹخنی چڑھانے کی آواز وسیع خلائو ں میں گونج گئی۔۔۔باہر کی دنیا سے میرا رابطہ کٹ چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں خشک اندھیروں کی بے کراں خلائوں میں تنہا کھڑا تھا۔۔۔میں تنہا اور دور افتادہ مگر کھچائو سے آذاد اور پر سکون ۔۔۔پھر گھپ اندھیرا تاریکی میں بدلنے لگا ۔۔ میرے گرد آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی نامعلوم شبیہیں تھیں۔۔۔بے جہت ہیولے گردش میں تھے ۔۔تاریکی سے نیم تاریکی تک کے سفر میں مدتیں بیت گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خلائو ں میں اب غیر واضح نقوش بکھرنے لگے۔پھر بکھرتے، تیرتے نقوش یکجا ہو کر ساکت ہوگئے۔ ایک سنسان اور گھنا جنگل ۔ ۔۔۔میں آنکھیں جھپکے بغیر اپنے دونوں ہاتھ فقیروں کی طرح سامنے پھیلائے آگے بڑھا ۔۔سہارے کی متلاشی انگلیاں کسی سرد مرمریں شے سے چھو گئیں۔۔میں نے ہاتھ سے اُسے ٹٹولا ۔۔شفاف سطح پر انگلیاں پھسلیں اور پھر چند ابھرے ہوئے الفاظ پر اٹک گئیں۔۔میں نے ابھری ہوئی عبارت پر آہستہ آہستہ اپنے پپوٹے دبائے۔۔۔آنکھوں سے محروم ایک شخص کی طرح جو خطِ بریل کو اپنی انگلیوں کے لمس سے پڑھنے کی پہلی کوشش میں مصروف ہو۔۔پپوٹوں کی ٹٹولتی آنکھوں نے خبر کی ۔۔۔۔۔پہلے "لا"ہے۔۔اس کے بعد "الہ" آتا ہےاور ۔۔۔۔اور پھر تن مادر سے کٹنے کے بعد میرے کانوں میں اُترنے والی پہلی آواز گونجی لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ۔۔۔۔۔۔۔اندھیرے چھٹنے لگے۔۔۔۔۔میرے گرد کا خلا بنفشی، ارغوانی سنگِ مر مر کے نازک ستونوں کے ایک جنگل میں بدلنے لگا۔۔۔شام کے صحرائوں اک ہجوم نخیل۔۔۔۔مجھے یوں محسوس ہوا جیسے نیم تاریکی میں ہزاروں بنفشی، ارغوانی، سیاہ اور زرد کنول ایک غیر فانی شب کے خنک سکوت میں مرجھا رہے ہوں، ماند پڑتے جا رہے ہوں مگر ان کا رنگ پھیکا پڑنے کی بجائے مزید شوخ ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔کنول کے اس کملاتے ہوئے جنگل میں حسن بیمار کی سی دلکشی تھی۔۔۔جیسے پوری مسجد ایک خاموش اور ٹھنڈی آگ میں جل رہی ہے ۔۔۔سب کچھ ختم ہو چکا ہے ، مر چکا ہے ،سرد ہو چکا ہے مگر جل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں حدت ہے حسنِ رفتہ کی۔۔۔۔ستونوں کے اوپر کسی گھنے برگد کی طرح سرخ اور سفید دوہری محرابیں نیم دائروں کی صورت میں تاحدِ نظر پھیلتی جا رہی تھیں۔۔۔
مسجدِ قرطبہ کو اپنی مر مریں ہتھیلیوں پر سہارا دینے والے اجسام خصوصی طور پر اس عمارت کے لیے نہیں تراشے گئے تھے بلکہ مسجد کا نقشہ ان قدیم ستونوں کی ساخت اور بلندی کو مدِ نظر رکھ کے بنایا گیا تھا۔۔انہیں تخلیق کرنے والے فنکاروں کے وہم و گماں میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے تراشیدہ شاہکار صدیوں تک افریقہ کے رومی معبدوں اور کارتھیج ایسے شہروں میں دفن رہیں گے اور پھر امیر عبدالرحمن کے حکم پر انہیں کھود کر قرطبہ لے جایا جائے گا۔۔۔۔۔جہاں ان کے کندھوں پر کسی معبد یا قصرِ شاہی کی بجائے ایک ایسی عمارت کی محرابیں اُٹھیں گی جسے دنیا کی سب سے بڑی مسقْف مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ ۔۔"۔اندلس میں اجنبی" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment