Sunday, December 9, 2012

Tareekh Fatoohat Ginti Hay...

تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ ، آ ہنی زنجیروں اور بیڑویوں میں جکڑا ، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھا نا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا۔: '' جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اُسے کھاؤ!''۔
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا

'' میں سونا کیسے کھاؤں؟ '' ہلاکو نے فوراً کہا '' پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟'' ۔ وہ مسلمان جسے اُسکا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کیلئے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ''تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے ؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟''۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔ '' اللہ کی یہی مرضی تھی ''۔
ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: '' پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے ، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی۔''۔
پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا '' آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی۔''۔
دنیا اکٹھی کرنے کو ۔ مال و متاع جمع کرنے کو کامیابی سمجھنے والوں سن لو 
اگر پر شکوہ محلات، عالی شان باغات ، زرق برق لباس ، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھر ی تجوریاں ، خوش ذائقہ کھانوں کے اَنبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔
تاریخ تو فتوحات گنتی ہے ۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے نہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ہوتا۔ اندازہ کرو جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے، تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لیکر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا۔ جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے۔ تب یہاں تان سین جیسے گویے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرنگالیوں کے بحری بیڑے بر صغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور چنگ و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کو ئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑئے ہیں یا نہیں ؟ درباروں میں خوشامدیوں ، مراثیوں ، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں ؟ یا د رکھیے! تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عُذر قبو ل نہیں کرتی۔
افسوس صد افسوس! مسلمانوں نے جہاد کو غیر ضرروری سمجھ کر چھوڑ دیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضرروی کام میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ یہ بسنت ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول، نیو ائرنائٹ اور دیوالی جیسے تہواروں پر پانی کیطرح پیسہ بہانے کو نہیں، بلکہ فتوحات کو گنتی ہے۔

No comments:

Post a Comment