زبیدہ خاتون ایک نیک ملکہ تھیں۔ انھوں نے "نہر زبیدہ" بنوا کر مخلوقِ خدا کو خوب فائدہ پہنچایا۔ اپنی وفات کے بعد وہ کسی کو خواب میں نظر آئی۔ اس نے پوچھا کہ زبیدہ خاتون! آپ کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا؟۔ زبیدہ خاتون نے جواب دیا کہ اللہ رب العزت نے بخشش فرما دی۔ خواب دیکھنے والے نے کہا کہ آپ نے نہر زبیدہ بنوا کر مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا، آپ کی بخشش تو ہونی ہی تھی۔ زبیدہ خاتون نے کہا: نہیں نہیں!۔ جب نہ
رِ زبیدہ والا عمل پیش ہوا تو پروردگارِ عالم نے فرمایا کہ کام تو تم نے خزانے کے پیسوں سے کروایا، اگر خزانہ نہ ہوتا تو نہر بھی نہ بنتی۔ مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے میرے لئے کیا عمل کیا؟!!۔
زبیدہ نے کہا، میں تو گھبرا گئی اب کیا بنے گا! مگر اللہ رب العزت نے مجھ پر مہربانی فرمائی۔ مجھے کہا گیا کہ تمھارا ایک عمل ہمیں پسند آگیا۔ ایک مرتبہ تم بھوک کی حالت میں دسترخوان پر بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں کہ اتنے میں اللہ اکبر کے الفاظ سے اذان کی آواز سنائی دی۔ تمھارے ہاتھ میں لقمہ تھا اور سر سے دوپٹہ سرکا ہوا تھا۔ تم نے لقمے کو واپس رکھا، پہلے دوپٹے کو ٹھیک کیا، پھر لقمہ کھایا، ۔ تم نے لقمہ کھانے میں تاخیر میرے نام کے ادب کی وجہ سے کی، چلو ہم نے تمھاری مغفرت فرمادی۔
مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان جب اذان کی آواز سنے تو ادب کی وجہ سے خاموش ہوجائے، اذان کا جواب دے، اور آخر میں مسنون دعا پڑھے۔ میرا تجربہ ہے کہ اذان کے ادب کی وجہ سے اسے موت کے وقت کلمہ پڑھنے کی توفیق نصیب ہوگی (ان شاء الله) ۔
No comments:
Post a Comment