Tuesday, March 26, 2013

Allah Kay Ilm Ka Andaza : By Ashfaq Ahmad

اشفاق احمد سے انٹرویو کے دوران پوچھا گیا ایک سوال :

"سر آپ کے الله میاں کے علم کا اندازہ کرنا کب تک ہو جائے گا؟"

اس سوال کے جواب میں اشفاق احمد مسکراتے ہوئے گویا ہوئے- " ایک بار میں اور بانو قدسیہ کلفٹن کے ساحل پر سیر کرنے گئے- بانو جب بیٹھنے کیلئے چادر بچھانے لگی تو ایک چیونٹی کو دیکھا، وہ وہاں پریشان پریشان سی ادھر ادھر پھر رہی تھی-

پوچھنے پر کہ وہ یہاں کیا لینے آئی ہے ؟ چیونٹی نے کہا کہ میں لالو کھیت سے 12 دن کا سفر کر کے بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں- میں نے لوگوں سے سمندر کی گہرائی اور گیرائی کا بہت سنا تھا- سوچا کیوں نہ خود مشاہدہ کر کے آؤں- اسی لئے اب پاؤں پاؤں اٹھا کر اس کی وسعت کو دیکھنے اور اندازہ لگانے میں مصروف ہوں-

اصل میں ہم بھی اس چیونٹی کی طرح الله کے علم اور اس کی ذات کی گہرائی اور گیرائی کا مشاہدہ کرنے کا سوچ کر نکلتے ہیں اور پنجے اٹھا اٹھا کر جہاں تک دیکھ سکتے ہیں، اس کو دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ وہاں تک اس کی ذات ہو سکتی ہے-

قریب جا کر اول تو الله تعالیٰ کو کسی نے آج تک کسی نے جانا نہیں اور جس کسی نے پہچانا ہے، لوجیکلی جانا ہے-

الله اصل میں ماننے کی چیز ہے- محبت سے کھانے کی چیز ہے-

جیسے بڑے کہتے ہیں کہ مرشد اور مرید کے رشتے کی قربت ایسی محبت پیدا کرتی ہے کہ مرید اپنے گرو کو لقمہ لقمہ کر کے کھا جاتا ہے- دھیرے دھیرے، برقی برقی، اب کوئی برقی کو تین دن تک منہ میں لئے گھماتا رہے اور پیٹ میں نہ اتارے تو اس کا جسم کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے-

ہمارے پاس موجود الله کے بارے میں محدود انفارمیشن کی ٹرانسفارمیشن ایسا لقمہ ہوتی ہے جو منہ میں ہی رہتا ہے، پیٹ میں اترتا ہی نہیں-

محبت اور یقین کی دولت بڑھتی نہیں،اس کی بڑھوتری رکی رہتی ہے، ایسے جیسے ہمارے مولویوں نے مذہب کی برقی منہ میں رکھی ہے،اسے نگلا نہیں ہے-

آخر کو الله کی ذات اتنی بڑی ہے اور اتنا چھوٹا سا انسانی پیٹ، بھلا اسے سارا کیسے نگلا جا سکتا ہے؟؟"

" سچی کہانیاں ڈائجسٹ" فروری 2012 کے مضمون " روحانی مسیحا" سے اقتباس، صفحہ 33

 

No comments:

Post a Comment