بہت بھوک لگی ہے -- گل نوخیز اختر
----------------------------------------
ہمارے ملک میں کچھ لوگ کھانے کے لیے زندہ ہیں، کچھ مزید کھانے کے لیے۔ جہاں چار دوست مل کر بیٹھ جائیں یہی اہم مسئلہ ڈسکس ہونا شروع ہوجاتاہے کہ کھانا کہاں سے کھایا جائے؟ آپ راہ چلتے کسی بندے سے پوچھ کر دیکھئے، یا وہ کھانا کھانے جارہا ہوگا، یا کھا کر آرہا ہوگا۔ شادی بیاہوں سے لے کر مہمانوں کی خاطر تواضح تک ، کھانا سوسائٹی کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ جہاں کھانا نہیں ہوتا وہاں گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔ رشتے دار اُس وقت تک مہمان نوازی کو تسلیم ہی نہیں کرتے جب تک انہیں کھانا نہ کھلایا جائے۔ موسم خوشگوار ہو تو ہر ایک کے منہ سے یہی نکلتا ہے ''باہر چل کر کچھ کھاتے ہیں''۔ ہر گھر میں صبح و شام ایک ہی جملہ گونجتا ہے۔۔۔''آج کیا بنایا ہے؟۔۔۔آج کیا بنانا ہے؟''کسی یار دوست کی کامیابی کی خبر ملے تو منہ سے فوراً نکلتا ہے ''یار اب ٹریٹ پکی''۔ہماری اکثر ضرورتیں بھی کھانے کے متعلق ہی ہیں، دفتر میں اگر بیوی کا فون آجائے تو عموماً یہی اطلاعات سننے کو ملتی ہیں کہ انڈے ختم ہوگئے ہیں، ڈبل روٹی اوررس لیتے آنا،اچار بھی تھوڑا سا رہ گیا ہے۔۔۔!!!
بھوکا بندہ بہت خطرناک ہوتاہے ، شائد اسی لیے ہم ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا چاہتے ہیں، لیکن فرق کوئی نہیں پڑ رہا۔ کھانے کی ہر جگہ پر بے تحاشا رش منتظر ہوتاہے، چھپڑ ہوٹل سے فائیو سٹار ہوٹل تک ہر میز بُک ہوتی ہے، سڑک کنارے ریڑھی پر تکے کبابوں والوں سے لے کر باربی کیو ریسٹورنٹس تک سیخیں گوشت سے پُر ہوتی ہیں لیکن ہماری بھوک مٹنے میں ہی نہیں آتی۔ کھانا سامنے آتے ہی ہمارا سارا صبر دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے، ہمارا پیٹ بھرا بھی ہوا ہو تو ہم ایک دو لقمے چکھ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کسی کی معاشی خوشحالی کے لیے بھی''کھاتے پیتے'' کا لفظ استعمال ہوتاہے۔ ہمارے ہاں اچھا کھانا وہ نہیں ہوتا جو ہمیں اچھا لگے، بلکہ اچھے کھانے سے مراد مہنگا کھانا لیا جاتاہے۔بے شمار لوگ دال بڑے شوق سے کھاتے ہیں لیکن اُنہیں ہمیشہ یہی سننے کو ملتا ہے کہ ''کبھی اچھا کھانا بھی کھا لیا کرو''۔ آئیے دیکھتے ہیں اچھا کھانا کیا ہوتاہے، ہمارے ہاں چائنیز کھانوں کو بہت اچھاکھانا کہا جاتا ہے، لہذا اِنہی پر بات کرتے ہیں تاہم کہیں کہیں ''غیر چائنیز'' ڈش بھی ڈسکس کرجاؤں تو درگذر کیجئے گا، یاد رہے کہ اِن کھانوں کے اجزائے ترکیبی میں نے ''آپا سرداراں کا دستر خوان'' سے لیے ہیں۔
1 ۔ایگ فرائڈ رائس: ۔ ابلے ہوئے پھیکے چاولوں میں گاجر، بند گوبھی، شملہ مرچ اوردیگر لوازمات کے ساتھ تلے ہوئے انڈے شامل ہوتے ہیں، یہی چیز گھر میں بنی ہوئی ہو توبکواس کہلاتی ہے، تاہم کسی چائنیز ریسٹورنٹ میں جاکر کھائی جائے تو اچھا کھانا کہلاتی ہے۔۔۔!!!
2 ۔منچورین: ۔ بون لیس چکن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جنہیں چکن اور کیچ اپ کی گریوی کے ساتھ مکس کیاہوتاہے، اِسے عموماً ایگ فرائڈ رائس کے ساتھ کھایا جاتاہے، تاہم میرے جیسے کئی نابلد ، تلوں والے نان کے ساتھ بھی نوش فرما جاتے ہیں۔یہ بھی اچھے کھانے میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کے پیسے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
3 ۔چکن جنجر: ۔ بون لیس چکن، ادرک، پیاز ، لہسن وغیرہ وغیرہ،یاد رہے کہ اس کا نام ''جنجر'' ہے ، یعنی شروع میں ''ج'' آتا ہے''ک'' نہیں
4 : ۔چکن چاؤمین ; ۔ چائنیز گاجر، شملہ مرچ اور بند گوبھی کے تعاون سے نوڈلز شامل کی جاتی ہیں اور کچھ ایسے مصالحے شامل کیے جاتے ہیں جن کے نام چھن چھنگلو، چلوسک ملوسک ٹائپ کے ہوتے ہیں، سنا ہے اصل لفظ ''چوا۔مین'' ہے، لیکن فسادِخلق کے ڈر سے اِسے چاؤمین بولا جاتاہے۔۔۔بڑی اچھی بات ہے۔
5 : ۔ پیزا: ۔اگرچہ یہ چائنیز آئٹم نہیں لیکن اچھے کھانوں میں شمار ہوتاہے، میلے ٹھیلوں پر جو تین چار گز کا'' قتلمہ'' ملتا ہے یہ اُسی کی جدید شکل ہے، لیکن قتلمہ اچھے کھانے کی ذیل میں نہیں آتا، اچھا کھاناپیزا ہی کہلائے گا۔
6 ۔زِنگر برگر: ۔ یہ عجیب و غریب برگر ہوتاہے، سٹوڈنٹ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے اِسی کی شرط لگاتے ہیں، یہ چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی، تاہم جو برگر جتنا بڑا ہوتاہے وہ اتنا ہی اچھا کھانا شمار ہوتاہے، پہاڑی سائز کا وہ برگر جسے کھانے کے لیے دو دفعہ منہ کھولنا پڑے وہ انتہائی امیر ہونے کی نشانی کہلاتاہے۔
7 ۔پران ; ۔ یہ عجیب و غریب ڈش ہے، کئی دفعہ تو جھینگے کو تھوڑا سا ہلایا جائے تو موصوف ایک ٹانگ بھی ہلا کر جواب دے دیتے ہیں، اِسے کھاتے ہوئے دل و دماغ میں فاسد خیالات کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے، تاہم لوگوں کی اکثریت اسے شوق سے کھاتی ہے ، کئی میرے جیسے ھی ہیں جو گردن اکڑا کر ''پران'' کا آرڈر کرتے ہیں اور پھر نظر بچا کر میز کے نیچے پڑی باسکٹ میں پھینک کر ڈکار مارتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
8 ۔شاشلک;۔ بون لیس چکن، پیاز ، شملہ مرچ ، چائنیز گاجروغیرہ کو ایک سیخ میں پرو کر تھوڑا سا سیک دیا جائے تو جو چیز تیار ہوتی ہے اُسے شاشلک کہا جاتاہے۔یہ ساری چیزیں اگر ہانڈی میں پکا کر کھائی جائیں تو غریبانہ کھانا کہلاتی ہیں، تاہم سیخ میں گرم کرکے یہ شاشلک بن جاتی ہیں اور سٹیٹس سمبل میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
ان کھانوں کے علاوہ بھی ہر ریسٹورنٹ والے نے اپنے ذاتی اور ہولناک نام رکھے ہوئے ہیں ،کھانے وہی ہوتے ہیں تاہم اُن میں عجیب و غریب تجربے کرکے اُنہیں نیا نام دے دیا جاتاہے ۔لوگ چار گنا زیادہ پیسے دے کر یہ کھانا کھاتے ہیں اورخوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اچھا کھانا کھایا ہے۔ اِن کھانوں کے نام کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں۔چکن بوم بوم ، جو جو برگر، جرمن پراٹھا، افریقن دال ماش، کینیڈین چاول چھولے، اٹالین دودھ سوڈا، سائبرین گول گپے، برٹش مگرمچھ، امریکن حلوہ پوری وغیرہ وغیرہ۔۔۔!!سچی بات تو یہ ہے کہ جو مزا دیسی کھانوں میں ہے وہ کسی اور میں نہیں، یہی وجہ ہے کہ میرے جیسے بندے باہر سے یہ ''اچھاکھانا'' کھا بھی آئیں تو گھر آتے ہی سب سے پہلے ''براکھانا'' کھاتے ہیں، اُسی سے پیٹ بھرتاہے، اُسی سے بھوک مٹتی ہے۔
میرے محلے میں ایک ''انڈر کنسٹرکشن امیر'' صاحب رہتے ہیں، ہر ہفتے بیوی بچوں کے ساتھ اچھا کھانا کھانے ہوٹل جاتے ہیں، تاہم واپسی پر ہر دفعہ ان کے گھر لڑائی ہوتی ہے کہ جتنے پیسوں میں یہ کھانا کھایا ہے اتنے میں ہفتے بھر کا چکن آجانا تھا۔کھانا جسم کی اہم ضرورت ہے، لیکن جب یہ جسم کی بجائے روح کی ضرورت بن جائے تو پھر ہاتھ نہیں رُکتا، ایک سائنسی تحقیق کے مطابق جوشوہر قسم قسم کے کھانے کھاتے ہیں وہ اپنی بیویوں کے ساتھ باوفا نہیں ہوتے کیونکہ مختلف اقسام کی بوٹیاں چکھنا ان کی طبیعت کا حصہ بن جاتاہے۔بڑی عجیب و غریب Logic ہے، کئی بیویاں بھی تو نت نئے کھانے پسند کرتی ہیں۔میں شرط لگا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ تحقیق غلط ہے، چیک کرلیں، اگر میں ہار گیا تو پکا وعدہ ، ڈنر میری طرف سے ہوگا۔
No comments:
Post a Comment