ایسا نہیں تھا کہ انسان دلدل میں گرا چلا جا رہا تھا ۔ دکھ ہی دکھ تھے، تکلیفیں ہی تکلیفیں تھیں۔ پر ہاں ایک بات ضرور تھی اور ہے کہ انسان کو دکھ کی اصلیت سمجھنے کے لیے اس سے مکمل طور پہ گزرنا پڑتا ہے ۔ اس کے دل میں ضرب لگتی ہے پھر ہی اسے پتا چلتا ہے کہ دل میں درد کیسے محسوس کیا جاتا ہے۔ اور پھر ایک بات یہ بھی تھی کہ انسان ایسا ناشکرا ہے کہ اسے جو چیز زیادہ ملتی ہے اس کی قدر بھول جاتا ہے ۔بنی اسرائیل پہ جنت سے کھانا اترنے لگا، کچھ دیر ہوئی کہ کہنے لگے : "اے موسی! اللہ سے کہو کہ ہمیں زمین کا اناج چاہیے ۔" کہاں جنت اور کہاں زمین؟ انسان نے جنت کو زمین پہ ٹھکرایا تھا ۔ یہی اس کی خصلت ہے۔ اسے اللہ تعالی ہر لمحے ہر وقت نعمتوں کے جھولے میں رکھتے ہیں ۔ پھر اسے قدر نہیں رہتی ۔ سانس کیوں آ رہا ہے ؟ بھئ سب کو ہی سانس آتا ہے مجھے بھی آتا ہے ۔ ہاتھ، پیر کیوں ہیں؟ سب کے ہیں ۔ اور اگر بالفرض اسے اس چیز سے ڈرایا جائے کہ اگر یہ نہ ہوتا تمہارے پاس تو؟ تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ ڈر نہیں پاتا ۔ اسے اس تجربے سے گزرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر اللہ تعالی چھین لیں، اسے سانس کی تکلیف میں مبتلا کر دیں۔ تاکہ وہ جان سکے کہ اس وقت اسے کون سی نعمت تھی جس کی قدر بھول گئ تھی ۔ پر اللہ تعالی ایسا نہیں کرتے ۔ وہ اس ناشکرے انسان کو معمولی دکھ تو دے دیتے ہیں جو کبھی اس کے اپنے اعمال کی بدولت اس پہ مسلط ہوتا ہے اور کبھی اللہ کی جانب سے آزمائش بن کر ۔۔۔
اللہ نے انسان کو ایک فیور دے دی
ایمان کی فیور، اطاعت کی فیور کہ جب انسان اس عمل سے گزرے گا تو اسے درد سے، دکھ سے نمٹنے کا طریقہ آ جائے گا ۔ صبر کا سبق سمجھنے کے لیے پھر اس کے لیے ضروری نہیں ہوگا کہ وہ غم کی بھٹی سے گزرے ۔ اسے پہلے علم ہوگا کہ جب پتھر سر پہ گرنا تو کہنا ہے :
انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ دعا ہی کیوں پڑھی جاتی ہے؟ دکھ ہمیں ہر نوعیت کا مل رہا ہو اور ہم کہنے لگیں کہ اے اللہ ہم آپ کے ہی ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ دکھ کے وقت اس دعا کو پڑھنے کا کیا تعلق ہے؟ صرف ایک ہی تعلق ۔۔۔ جو اللہ نے ان کو بخشا جو ایمان لائے
ایمان کا تعلق۔ میں نے ابھی کہا کہ اللہ نے انسان کو ایمان کی فیور دی تھی جب انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اسے دکھ درد سے نمٹے کا طریقہ آ جاتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ یہ دکھ دنیاوی ہیِں ۔ جلد ہی ختم ہو جانے والے ہیں اور ان پہ صبر ہمیشہ کی خوشیوں میں لے جا سکتا ہے تو ایمان والے بے اختیار کہتے ہیں :
انا للہ وانا الیہ راجعون
جو بھی ہو جائے، جیسا بھی ہو جائے اے میرے رب! میں تو آپ کا ہی ہوں، آپ کا ہی رہوں گا، ایسا تو نہیں ناں کہ آپ مجھے کروڑوں نعمتیں دینے کے بعد چند دکھ دیں تو میں آپ پر ایمان سے پھر جاؤں ۔ ایمان سے پھر جانے سے مراد صرف یہی تو نہیں ہے کہ انسان کلمے سے نکل جائے ۔ اللہ پہ یقین سے بھی پھر جانا یہی ہے کہ انسان تکلیف میں یا تو اللہ کے قریب ہو جاتا ہے یا پھر دور ۔۔۔۔۔
ایمان والے کہتے ہیں کہ اے رب! آپ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ابدی سکون اور خوشیوں کی طرف ،کہ صبر کا صلہ ہی تو جنت ہے!
(عفیفہ شمسی)
اللہ نے انسان کو ایک فیور دے دی
ایمان کی فیور، اطاعت کی فیور کہ جب انسان اس عمل سے گزرے گا تو اسے درد سے، دکھ سے نمٹنے کا طریقہ آ جائے گا ۔ صبر کا سبق سمجھنے کے لیے پھر اس کے لیے ضروری نہیں ہوگا کہ وہ غم کی بھٹی سے گزرے ۔ اسے پہلے علم ہوگا کہ جب پتھر سر پہ گرنا تو کہنا ہے :
انا للہ وانا الیہ راجعون
یہ دعا ہی کیوں پڑھی جاتی ہے؟ دکھ ہمیں ہر نوعیت کا مل رہا ہو اور ہم کہنے لگیں کہ اے اللہ ہم آپ کے ہی ہیں اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔ دکھ کے وقت اس دعا کو پڑھنے کا کیا تعلق ہے؟ صرف ایک ہی تعلق ۔۔۔ جو اللہ نے ان کو بخشا جو ایمان لائے
ایمان کا تعلق۔ میں نے ابھی کہا کہ اللہ نے انسان کو ایمان کی فیور دی تھی جب انسان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اسے دکھ درد سے نمٹے کا طریقہ آ جاتا ہے اسے علم ہوتا ہے کہ یہ دکھ دنیاوی ہیِں ۔ جلد ہی ختم ہو جانے والے ہیں اور ان پہ صبر ہمیشہ کی خوشیوں میں لے جا سکتا ہے تو ایمان والے بے اختیار کہتے ہیں :
انا للہ وانا الیہ راجعون
جو بھی ہو جائے، جیسا بھی ہو جائے اے میرے رب! میں تو آپ کا ہی ہوں، آپ کا ہی رہوں گا، ایسا تو نہیں ناں کہ آپ مجھے کروڑوں نعمتیں دینے کے بعد چند دکھ دیں تو میں آپ پر ایمان سے پھر جاؤں ۔ ایمان سے پھر جانے سے مراد صرف یہی تو نہیں ہے کہ انسان کلمے سے نکل جائے ۔ اللہ پہ یقین سے بھی پھر جانا یہی ہے کہ انسان تکلیف میں یا تو اللہ کے قریب ہو جاتا ہے یا پھر دور ۔۔۔۔۔
ایمان والے کہتے ہیں کہ اے رب! آپ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ابدی سکون اور خوشیوں کی طرف ،کہ صبر کا صلہ ہی تو جنت ہے!
(عفیفہ شمسی)