17 تا 21 اکتوبر 1996ء زمبابوے کے خلاف شیخوپورہ ٹیسٹ کو میں شاید ہی کبھی فراموش کر سکوں۔ بحیثیت باؤلر تو میرے بہت سے مقابلے ایسے ہیں جنہیں یادگار کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بحیثیت بلے باز میں شیخوپورہ ٹیسٹ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس ٹیسٹ میں، میں نے 257 رنز جیسی بڑی اور ناقابل شکست اننگز کھیلی تھی۔ مجھے خود اپنی اس کارکردگی پر حیرت تھی۔ ساتویں، آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرنے والے اختتامی بلے باز سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں؟ تیس رنز، پینتیس رنز؟ یا زیادہ سے زیادہ پچاس۔ لیکن 257رنز؟ میرے لئے اب تک ناقابل یقین ہیں۔ اتنی بڑی اننگز کا شمار تو ایک منجھے ہوئے بلےباز کے پورے کیریئر میں بھی انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔ میں تو آخری لمحات میں تیزی سے تیس، چالیس رنز بنانے والا ایک آل راؤنڈر تھا۔ آٹھ گھنٹے مسلسل بیٹنگ تو میں نے کبھی فرسٹ کلاس یا کاؤنٹی کرکٹ میں بھی نہیں کی تھی۔
میچ کے دوسرے دن میں جب میں میدان میں بیٹنگ کے لیے اترا تو پاکستان زمبابوے کی پہلی اننگز 375 رنز کے جواب میں 183 رنز پر 6 وکٹیں گنوا بیٹھا تھا۔ میچ کے تیسرے دن معین خان کے ساتھ 50 رنز کی شراکت داری ہوئی جس سے پاکستان کی اننگز کچھ حد تک سنبھل گئی لیکن معین کیچ آؤٹ ہوگئے اور پاکستان ایک بار پھر مشکل میں آ پڑا۔ اس وقت ثقلین مشتاق میرا ساتھ دینے میدان میں آئے اور یہاں سے میری اس ناقابل فراموش اننگز کی کہانی شروع ہوئی۔ پچاس کے بعد 100 رنز پر پہنچ کر مجھے بہت لطیف احساس ہوا۔ سنچری کے بعد میں لاپروائی سے شاٹ پر شاٹ مار رہا تھا۔ اور کچھ ہی دیر بعد میرے اسکور کا ہندسہ 150 سے تجاوز کرگیا۔ ثقلین مشتاق میرے ساتھ دوسرے اینڈ پر ڈٹا ہوا تھا۔ ہم نے بعد میں آٹھویں وکٹ کی شراکت میں 313 رنز کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ ثقلین باربار میری ہمت بڑھا رہا تھا۔ مجھے ڈبل سنچری بنانے کا کوئی خاص شوق تو نہ تھا لیکن ثقلین باربار مجھ سے کہہ رہا تھا۔ "وسیم بھائی! بس تھوڑی سی ہمت، آپ 200 کرسکتے ہیں۔" 190 کے اسکور پر پہنچتے ہی تالیاں بجناشروع ہوگئیں۔ مجھے اس وقت احساس ہوا شاید واقعی میں کوئی بڑا کام کرنے جارہا ہوں۔
ڈبل سنچری۔۔۔۔۔۔۔۔اُف کس قدر لذت تھی دو سوواں رنز لینے میں؟ ثقلین مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس پر مجھے بے حد پیار آرہا تھا۔ اس کے بے لوث جذبے سے میری ہمت بندھی اور ڈبل سنچری بن گئی، ورنہ مجھے تو ڈبل سنچری کی لذت کا علم ہی نہ تھا۔ اُس دن اس محاورے "بندر کیا جانے ادرک کا مزا؟" کے اصل معنی و مطلب مجھے سمجھ آئے۔ واقعی ایک باؤلر یا اختتامی بلےباز کیا جانے ڈبل سنچری کا مزا۔
ڈبل سنچری بنانے کے بعداس احساس نے کہ میرا نام اب ظہیرعباس، جاوید میانداد اور حنیف محمد جیسے بلے بازوں کی فہرست میں آگیا ہے۔ میرا بدن شدید تھکاوٹ کے باوجود کیف وسرور میں ڈوب گیا۔ دوسوکے بعد اب مجھے کیا لینا تھا۔ میں نے قدموں کا استعمال کرکے دوچھکے رسید کردیئے۔ لیکن درحقیقت میں تھک چکاتھا اور مجھے ابھی باؤلنگ بھی کرانی تھی۔ میں آؤٹ ہوکر چند لمحے آرام کرناچاہتاتھالیکن اس موقع پر پویلین سے اعجازاحمدنے ہدایات بھیجیں۔ "وسیم بھائی! آپ 9 چھکے لگاچکے ہیں، تین اور لگادیں تو عالمی ریکارڈ ہوجائے گا۔" وہ سب میری بیٹنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ زندگی میں ایک بار ملنے والے اس موقع کی بدولت اننگز جاری رکھنے کے خواہاں تھے۔ باوجود تھکن کے میں پھر سے ڈٹ گیا۔ وہ دن ہی کچھ ایسا تھا کہ جو میں چاہ رہا تھا وہی ہو رہا تھا۔ بھرپور طاقت سے میں نے تین چھکے لگا ہی ڈالے اور ایک اننگز میں 12 چھکوں کا عالمی ریکارڈ بن گیا۔ ہر چھکے پر ایسا محسوس ہوتا شاید کیچ آؤٹ ہوجاؤں لیکن گیند ہر بار میدان سے باہر ہوتی۔ چھکے مارنے کی خواہش میں میرا انفرادی اسکور 250 تک پہنچ گیا۔
300 رنز کا ہندسہ ذہن میں آتے ہی میں لرز گیا۔ ٹرپل سنچری؟۔۔۔۔۔کیا میں ٹرپل سنچری بناسکتا ہوں؟ میں زیر لب بڑبڑایا۔ 100 اور 200 کا چسکالگ چکا تھا۔ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ 300 کے ہندسے تک جاؤں گا۔ لیکن میرے مصمم ارادے میں اُس وقت پہلی دراڑ پڑی جب باہمت ثقلین مشتاق 79 کے انفرادی اسکور پر میری ہمت بندھاتے بندھاتے خود پویلین سدھارگئے۔ وقاریونس میدان میں میرا ساتھ دینے پہنچے۔ وہ بہت طویل وقت سے پیڈ باندھے پویلین میں، شاید سخت بوریت میں، بیٹھے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بھی ثقلین کی مانند سیدھے بلے سے کھیلتے رہیں اور میں اپنا سفر جاری رکھوں۔ لیکن وقار گرم خون اور جذبے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ میں بھی چھکے مارسکتا ہوں اور ایک زوردار شاٹ کھیلنے کی کوشش میں پہلی ہی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ آخری کھلاڑی شاہد نذیر نے اپنی طرف سے میرا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کیچ آؤٹ ہوگئے اور میرے 'دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔' پاکستان کی اننگز ختم ہوگئی۔ میری زندگی کی یادگار ترین اننگز 257 پر محدود ہو گئی اور میں ٹرپل سنچری تک نہ پہنچ سکا۔ کتنا عجیب ہے نا؟ جس کا میں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچاتھا وہ ناقابل یقین طور پر حقیقت کا روپ دھار گیا اور جو میں چاہتا تھا وہ نہ ہوسکا۔ بہرحال یہ میچ میری زندگی ایک یادگار میچ تھا۔
No comments:
Post a Comment