Friday, November 16, 2012

Ashfaq Ahmad in Zavia 2

میں ایک مرتبہ لاہور سے قصور جا رہا تھا تو  ایک پلی پر لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور اس پلی کو  ڈنڈے سے بجا رہا تھا اور آسمان کو دیکھنے میں محو تھا ۔  مجھے بحیثیت استاد کے اس پر بڑا غصہ آیا کہ دیکھو وقت ضائع کر رہا ہے اس کو تو پڑھنا چاہیے 

خیر میں وہاں سے گذر گیا ۔ تھوڑی دور آگے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ جو فائلیں اور کاغذات میرے ہمراہ ہونے چاہیے تھے وہ نہیں ہیں  لہٰذا مجھے لوٹ کر دفتر جانا پڑا ۔  میں واپس لوٹا  تو لڑکا پھر ڈنڈا بجا رہا تھا ۔ مجھے اس پر اور غصہ آیا ۔ 

جب میں کاغذات لے کر واپس آرہا تھا تب بھی اس لڑکے کی کیفیت ویسی ہی تھی ۔  میں نے وہاں گاڑی روک دی اور کہا 

یار دیکھو تم یہاں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہو  ، تمہاری عمر کتنی ہے ۔ 

اس نے کہا تیرہ یا چودہ سال ہے ۔ میں نے کہا تمہیں پڑھنا چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ 

تب میں نے کہا تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو ۔ میرے خیال میں فضول میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہو ، تمہیں شرم آنی چاہیے ۔ وہ کہنے لگا جی میں تو یہاں بیٹھا بڑا کام کر رہا ہوں  میں نے کہا آپ کیا کام کر رہے ہہیں ۔

کہنے لگا جی میں چڑی کو دیکھ رہا ہوں یہ وہی چڑی ہے  جو پچھلے سے پچھلے سال ادہر آئی تھی اور اس نے یہیں گھونسلا ڈالا تھا  تب اس کے ساتھ کوئی اور چڑا تھا اب  کی بار شاید یہ کسی اور سے شادی کر کے آئی ہے ۔ 

میں نے کہا کہ تم کیسے پہچانتے ہو کہ یہ وہی چڑیا ہے ۔ وہ کہنے لگا کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔  میں اس کو پہچانتا ہوں یہ مجھے پہچانتی ہے ۔ مجھے اس کی بات سن کر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ میرے ملک میں ایک اورنی تھالوجسٹ بھی ہے ۔ 

اس کا گو کوئی گائیڈ نہیں ۔ یہ کسی یونیورسٹی سے یہ مضمون نہیں پڑھا کیونکہ ہماری کسی یونیورسٹی میں یہ سبجیکٹ نہیں پڑھایا جاتا ہے ۔ 

میں چونکہ شرمندہ ہو چکا تھا اور اس سے کہ چکا تھا تم بڑا وقت ضائع کر رہے ہو  اور فضول کام میں لگے ہو اور اب میں نے اپنے مؤقف سے نہ ہٹتے ہوئے اور شرمندگی ٹالتے ہوئے کہا  کہ یار تمہیں کوئی کام کرنا چاہیے ۔ میری طرف دیکھو میں کیسی اچھی گاڑی میں ہوں  اور میں اپنی ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں ۔  لوگ مجھے اجلاسوں میں بلاتے ہیں اور میں تم سے بڑے درجے میں ہوں  اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں ۔ اور تم نے گویا تعلیم حاصل نہیں کی تم فضول لڑکے ہو ۔ وہ میری بات سن کر ہنس کر کہنے لگا  " صاحب جی بات یہ ہے کہ ہم تم دونوں ہی برابر ہیں  ۔ میں اس پلی پر بیٹھا بھاگتی ہوئی موٹریں دیکھ رہا ہوں  ۔ اور آپ موٹر میں بیٹھے پلیا کو بھاگتا دیکھ رہے ہیں ۔  آپ نے بھی کچھ زیادہ اکٹھا نہیں کیا "۔

 خواتین و حضرات !  کبھی کبھی اس لڑکے کی بات مجھے یاد آ جاتی ہے  مین نے اب حال ہی میں پچھلے سے پچھلے ہفتے یہ فیصلہ کیا کہ اتنی زیادہ خشک اور اتنی زیادہ سنجیدہ زندگی بسر کرنے کی نہ تو اجتماعی طور پر ضرورت ہے اور نہ انفرادی طور پر  ۔ بلکہ ہمیں ڈھیلے ڈھالے اور پیارے پیارے آدمی ہو کر  ریلیکس رہنے کا فن سیکھنا چاہیے ۔ 

 

اشفاق احمد زاویہ 2  زندگی سے پیار کی اجازت درکار ہے  صفحہ  176 

No comments:

Post a Comment