Wednesday, October 31, 2012

An amazing and true story...

ایک مرتبہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل اور پاکباز عورت حضرت بایزید رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُن سے شکایت کی کہ میرا خاوند دوسری شادی کرنا چاھتا ھے - اسلیے آپ مجھے ایسا تعویذ دیں یا اس طرح دُ عا مانگیں کہ وہ اپنے اس ارادے سے باز آجائے 
حضرت نے فرمایا-"بہن! جب اللہ تعالی نے مرد کو استطاعت ہونے پر چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دی ھے تو پھر میں کون ہوتا ھوں جو قانون خُداوندی میں در آؤں اور حکم خُداوندی کی خلاف ورزی کا ذریعہ بنوں "
اس پر وہ خاتون بہت دل برداشتہ ہوئی اور حضرت کی بارگاہ میں عرض کیا "حضرت! میں پردہ میں ھوں اور شریعت اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ پر اپنا چہرہ ظاہر کروں ، اگر شریعت اجازت دیتی اور میں آپ پراپنا حسن و جمال ظاہر کرسکتی پھر آپ فیصلہ فرماتے کہ آیا میرے خاوند کو سوکن لانے کا حق حاصل ھے یا نہیں ؟
یہ جواب سُننا تھا کہ حضرت تڑپ اُٹھے اور بے ہوش ھوگئے - ہوش آنے پر فرمایا -دیکھو! یہ ایک خاتون جس کا حسن وجمال قطعی فانی اور محض عطیہ خداوندی ہے ، اپنے حسن وجمال پر اس قدر نازاں ہے کہ اس پر سوکن لانا پسند نہیں کرتی اور اپنی توہین سمجھتی ھے 
تو وہ رب ذوالجلال اور خالق کائنات جو حسن وجمال کا خالق اور ساری کائنات کا خالق ھے کیونکر گوارہ کرسکتا ھے کہ مخلوق کسی کو اسکا شریک ٹہرائے-

An amazing and true story...

ایک مرتبہ ایک نہایت ہی حسین وجمیل اور پاکباز عورت حضرت بایزید رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُن سے شکایت کی کہ میرا خاوند دوسری شادی کرنا چاھتا ھے - اسلیے آپ مجھے ایسا تعویذ دیں یا اس طرح دُ عا مانگیں کہ وہ اپنے اس ارادے سے باز آجائے 
حضرت نے فرمایا-"بہن! جب اللہ تعالی نے مرد کو استطاعت ہونے پر چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دی ھے تو پھر میں کون ہوتا ھوں جو قانون خُداوندی میں در آؤں اور حکم خُداوندی کی خلاف ورزی کا ذریعہ بنوں "
اس پر وہ خاتون بہت دل برداشتہ ہوئی اور حضرت کی بارگاہ میں عرض کیا "حضرت! میں پردہ میں ھوں اور شریعت اجازت نہیں دیتی کہ میں آپ پر اپنا چہرہ ظاہر کروں ، اگر شریعت اجازت دیتی اور میں آپ پراپنا حسن و جمال ظاہر کرسکتی پھر آپ فیصلہ فرماتے کہ آیا میرے خاوند کو سوکن لانے کا حق حاصل ھے یا نہیں ؟
یہ جواب سُننا تھا کہ حضرت تڑپ اُٹھے اور بے ہوش ھوگئے - ہوش آنے پر فرمایا -دیکھو! یہ ایک خاتون جس کا حسن وجمال قطعی فانی اور محض عطیہ خداوندی ہے ، اپنے حسن وجمال پر اس قدر نازاں ہے کہ اس پر سوکن لانا پسند نہیں کرتی اور اپنی توہین سمجھتی ھے 
تو وہ رب ذوالجلال اور خالق کائنات جو حسن وجمال کا خالق اور ساری کائنات کا خالق ھے کیونکر گوارہ کرسکتا ھے کہ مخلوق کسی کو اسکا شریک ٹہرائے-

Tain Tain Fish : Gul Nokhaiz Akhter

جیسے ہی نائی نے میرے سر پر استرا پھیرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سکون سا آ گیا۔ ٹنڈ کروانا میرے لیے ہمیشہ باعث اطمینان رہا ہے۔۔۔۔ جیسے جیسے استرا میرے سر پر پھرتا جاتا ہے مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگتا ہے، میں ٹنڈ اس لیے نہیں کرواتا کہ اس سے سر کو ہوا لگتی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ٹنڈ کروانے سے میرا سر میرے منہ سے اچھا نکل آتا ہے۔ ابا کو میری ٹنڈ سے بہت چڑ ہےان کے بس میں ہو تو وہ د...
نیا بھر کے استروں کو زنگ لگوا دیں، اگرچہ ان کو ٹنڈ کا کوئی شوق نہیں لیکن قدرت نے ان کے سارے بال اڑا دیے ہیں۔۔۔ ابا کی اتنی گھنی ٹنڈ دیکھ کر میرے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہےاور میں سوچتا ہوں کہ کاش میرا سر بھی ایسا ہی سموتھ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو ابا کے سر پر چپت مارنے کا بڑا مزا آتا تھا، بالکل ایسی آواز آتی تھی جیسے تبلے کی ترکٹ سے آتی ہےلیکن جوں جوں بڑا ہوتا گیا ابا کا سر مجھ سے دور ہوتا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اخلاقی اعتبار سے ابا کے سر پر چپت مارنا میرے لیے جرم ضعیفی قرار پایا۔ انہی دنوں میں نے

 فیصلہ کیا کہ اب ابا کے سر پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے سر پر خود کھڑا ہوں گا۔۔۔۔ یوں میں نے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلی دفعہ ٹنڈ کرائی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹنڈ شدہ ہو کر گھر پہنچا تو ابا نے دروازے سے ہی مجھے چونی دے کر رخصت کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منۃ کھولا تو میری بات کاٹ کر بولے۔۔۔۔۔ دیکھو بھئی۔۔۔۔۔۔۔ نہ تو ہمارے گھر میں کوئی بچہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شادی ہے۔۔۔۔۔ پھر تمھیں ادھر کا پتہ کس نے دیا ، یہ چونی پکڑو اور معاف کرو! وہ دروازہ بند کرنے لگے۔۔۔۔!!!
ابا۔۔۔۔۔!!! یہ میں ہوں۔۔۔۔ میں چلایا۔۔۔۔۔!!!
ان کے پیرون تلے زمین نکل گئی ۔۔۔۔ ابے آہستہ بول ۔۔۔۔ کیوں مجھے ابا ابا کہہ کر بدنام کر رہا ہے ۔۔۔۔ میں کہاں سے تیرا باپ ہو گیا۔۔۔ وہ غرائے
ابا۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔ ابا ۔۔۔۔ تو ہی میرا باپ ہے۔۔۔۔ خدا کے لیے مجھے پہچان۔۔۔۔!!!
ابے کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔ ابا کے ماتھے پہ پسینہ آکیا۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔ ابا میں تیرا بیٹا ہوں۔۔۔ میں نے دہائی دی۔
لل۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔میں۔۔۔ تو کبھی موت کا کنواں دیکھنے نہیں گیا۔۔۔۔ ابا نے مری مری آواز میں دلیل دی اور بے عزتی کے احساس سے میرا رنگ سرخ ہو گیا۔ میں نے کوئی اور حملہ ہونے سے پہلے جلدی سے کہا ۔۔۔۔
ابا ماضی میں جھانکنے کی بجائے میری آنکھوں میں جھانک۔۔۔۔ میں تیرا بیٹا کمال ہون ۔۔۔۔ کمالا۔۔۔۔

"ٹائیں ٹائیں فش از گل نوخیز اختر"

Tain Tain Fish : Gul Nokhaiz Akhter

جیسے ہی نائی نے میرے سر پر استرا پھیرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سکون سا آ گیا۔ ٹنڈ کروانا میرے لیے ہمیشہ باعث اطمینان رہا ہے۔۔۔۔ جیسے جیسے استرا میرے سر پر پھرتا جاتا ہے مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگتا ہے، میں ٹنڈ اس لیے نہیں کرواتا کہ اس سے سر کو ہوا لگتی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ٹنڈ کروانے سے میرا سر میرے منہ سے اچھا نکل آتا ہے۔ ابا کو میری ٹنڈ سے بہت چڑ ہےان کے بس میں ہو تو وہ د...
نیا بھر کے استروں کو زنگ لگوا دیں، اگرچہ ان کو ٹنڈ کا کوئی شوق نہیں لیکن قدرت نے ان کے سارے بال اڑا دیے ہیں۔۔۔ ابا کی اتنی گھنی ٹنڈ دیکھ کر میرے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہےاور میں سوچتا ہوں کہ کاش میرا سر بھی ایسا ہی سموتھ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو ابا کے سر پر چپت مارنے کا بڑا مزا آتا تھا، بالکل ایسی آواز آتی تھی جیسے تبلے کی ترکٹ سے آتی ہےلیکن جوں جوں بڑا ہوتا گیا ابا کا سر مجھ سے دور ہوتا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اخلاقی اعتبار سے ابا کے سر پر چپت مارنا میرے لیے جرم ضعیفی قرار پایا۔ انہی دنوں میں نے

 فیصلہ کیا کہ اب ابا کے سر پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے سر پر خود کھڑا ہوں گا۔۔۔۔ یوں میں نے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلی دفعہ ٹنڈ کرائی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹنڈ شدہ ہو کر گھر پہنچا تو ابا نے دروازے سے ہی مجھے چونی دے کر رخصت کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منۃ کھولا تو میری بات کاٹ کر بولے۔۔۔۔۔ دیکھو بھئی۔۔۔۔۔۔۔ نہ تو ہمارے گھر میں کوئی بچہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شادی ہے۔۔۔۔۔ پھر تمھیں ادھر کا پتہ کس نے دیا ، یہ چونی پکڑو اور معاف کرو! وہ دروازہ بند کرنے لگے۔۔۔۔!!!
ابا۔۔۔۔۔!!! یہ میں ہوں۔۔۔۔ میں چلایا۔۔۔۔۔!!!
ان کے پیرون تلے زمین نکل گئی ۔۔۔۔ ابے آہستہ بول ۔۔۔۔ کیوں مجھے ابا ابا کہہ کر بدنام کر رہا ہے ۔۔۔۔ میں کہاں سے تیرا باپ ہو گیا۔۔۔ وہ غرائے
ابا۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔ ابا ۔۔۔۔ تو ہی میرا باپ ہے۔۔۔۔ خدا کے لیے مجھے پہچان۔۔۔۔!!!
ابے کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔ ابا کے ماتھے پہ پسینہ آکیا۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔ ابا میں تیرا بیٹا ہوں۔۔۔ میں نے دہائی دی۔
لل۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔میں۔۔۔ تو کبھی موت کا کنواں دیکھنے نہیں گیا۔۔۔۔ ابا نے مری مری آواز میں دلیل دی اور بے عزتی کے احساس سے میرا رنگ سرخ ہو گیا۔ میں نے کوئی اور حملہ ہونے سے پہلے جلدی سے کہا ۔۔۔۔
ابا ماضی میں جھانکنے کی بجائے میری آنکھوں میں جھانک۔۔۔۔ میں تیرا بیٹا کمال ہون ۔۔۔۔ کمالا۔۔۔۔

"ٹائیں ٹائیں فش از گل نوخیز اختر"

Ghazi Ilm-ud-Deen Shaheed

کچھ لوگ چھوٹی سی زندگی میں اتنا بڑا کام کر جاتے ہیں کہ ان کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے انہیں میں سے ایک غازی علم الدین شہید تھے۔ غازی علم الدین شہید 3دسمبر 1908ءکو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میا ں طالع مند تھا جو نجاری یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمدا لدین سے سیکھا ۔پھر 1928ءمیں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔

غازی علم الدین نے مشہور بدنام زمانہ کتاب "رنگیلا رسول "کے ناشر راج پال کو ٹھکانے لگایا اور تختہ دار پر چڑھ گئے ۔اس واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہندووں کی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو 1920ءکی دہائی میں شروع کی گئی تھیں ۔اس سلسلہ میں ہندووں نے دلآزار لڑیچر شائع کرنا شروع کیا ۔ مہاشہ کرشن مدیر "پر تاپ "لاہور نے ایک کتاب "رنگیلا رسول "کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے اپنی بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف لکھ دیا ۔تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور واضح لکھا ہوا تھا۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی ۔اس کے انکار پر مسلمانوں نے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا ۔مجسٹریٹ نے ناشر کو چھ ماہ قید کی سزا دی۔مگر اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔

اس سلسلے میں مسلمانوں نے جلسے کئے۔متعدد جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ 144نافذ کر کے مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔فرنگی حکومت کے انصاف سے مایوس ہونے کے بعدمسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم ارادہ کیا ۔چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کے لئے سب سے پہلے ایک نوجوان غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دوکان پر جا پہنچا ۔اتفاق سے اس وقت دوکان پر راج پال نہیں بیٹھاتھا بلکہ اس کی جگہ اس کا ایک دوست جتندر موجود تھا۔

عبد العزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تما م کردیا ۔انگریزی حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی ۔راج پال اپنے آپ کو ہروقت خطرے میں محسوس کرتا ۔اس کی دراخوست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالداراس کی حفاظت کے لئے متعین کئے گئے ۔راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا 'کاشی اور متھرا چلاگیا لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ شروع کردیا۔

چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک پہنچ کر آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دلآزار کتاب کو تلف کردواور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجاو۔"راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ اف تک نہ کرسکا۔اس وقت دوکان میں دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ بھی موجود تھے ۔

کدار ناتھ نے انار کلی پولیس سٹیشن میں قتل کی اطلاع درج کروائی ۔پولیس نے لاش پر قبضہ کرکے کدار ناتھ 'بھگت رام اور دیگر گواہوں کے بیانات لئے ۔چونکہ ملزم اقبالی تھا اس لئے مقدمے کی تفتیش اور چالان میں نہ توکوئی دقت پیش آئی نہ کوئی رکاوٹ ہوئی ۔اس واقعہ کے بعد شہر میں خاصاخوف وہراس پھیل گیا تھا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کر کے ہندو مسلم کشیدگی پرقابو پانے کی کوشش کی۔تاہم ہندووں نے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پورے احترام کے ساتھ رام باغ نزد بادامی باغ نذر آتش کر کے اس کی راکھ کو دریائے راوی میں بہا دیا ۔مقدمہ مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔انہوں نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے اس کا بیان لیا اور بغیر صفائی کے مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا۔

مسٹر نیپ سیشن جج تھے ۔مسٹر سلیم بارایٹ لاءنے غازی علم الدین کے حق میں معقو ل دلائل پیش کئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا فرد جرم عائد کرکے مورخہ 22مئی 1929ءکو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا ۔ جن کے وکیل صفائی بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے لیکن انگریز سرکار کی پریوی کونسل نے ان کی اپیل خارج کر دی جس پر 31اکتوبر 1929ء کے دن حرمت رسول
ۖ پر قربان ہونے والے غازی علم دین کو میانوالی جیل میں تختہ دا ر پر لٹکا دیا گیا ۔ پھانسی پانے سے قبل شمع رسالت ۖ کے پروانے غازی علم دین شہید نے پھانسی گھاٹ پر موجود انگریز و ہندو افسران کو مخاطب کر کے کہا " کہ میں نے حرمت رسول ۖ کیلئے راجپال کو قتل کیا ہے ۔ تم گواہ رہو کہ میں محبت رسول ۖ میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوا راہ حق میں جان قربان کر رہا ہوں "۔غازی علم دین شہید نے شہادت گاہ پر کھڑے ہو کر وہاں موجود سب حاضرین کو گواہ بنا کر تین مرتبہ بلند آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور پھر پھانسی کے رسے کو چوم کر گلے میں ڈال لیا۔ پھانسی کے بعد غازی علم دین شہید کی نمازجنازہ میانوالی جیل میں ادا کی گئی اور اسے وہیں دفن کر دیا گیا۔ اس پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس پر مسلمانوں کا ایک وفد مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع کی قیادت میں وائسرائے ہند سے ملا اور غازی علم دین کا جسد خاکی لاہور لے جانے کا مطالبہ کیا جس پر وائسرائے نے چند شرائط پر یہ درخواست منظور کرلی اور اس طرح 8نومبر 1929ء کو غازی علم دین شہید کا جسد خاکی میانوالی سے ریل کے ذریعے لاہور لایاگیاجہاں ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ غازی علم دین شہید کی 4مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ پہلی مرتبہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا دیدار علی شاہ ، دوسری بار مسجد وزیر خان کے خطیب مولانا شمس الدین ، تیسری مرتبہ حضرت مولانا سید احمد شاہ اور چوتھی مرتبہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ نے غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ ادا کروائی ۔ بعد ازاں آپ کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے غاز ی علم دین کا جسد خاکی لحد میں اتار ا۔ انہوں نے شہید کا ماتھا چوم کر فرمایا کہ "ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا، اسی تے گلاں کردے رہ گئے"۔ شہید ناموس رسالت ۖ
کی برسی کے موقع پر دو روزہ عرس کا بھی انعقاد کیا جائے گا

Ghazi Ilm-ud-Deen Shaheed

کچھ لوگ چھوٹی سی زندگی میں اتنا بڑا کام کر جاتے ہیں کہ ان کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے انہیں میں سے ایک غازی علم الدین شہید تھے۔ غازی علم الدین شہید 3دسمبر 1908ءکو محلہ چابک سواراں لاہور میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میا ں طالع مند تھا جو نجاری یعنی لکڑی کا کام کرتے تھے غازی علم الدین نے نجاری کا فن اپنے والد سے اور بڑے بھائی میاں محمدا لدین سے سیکھا ۔پھر 1928ءمیں کوہاٹ چلے گئے اور والد کے ساتھ بنوں بازار کوہاٹ میں فرنیچر کا کام کرنے لگے۔

غازی علم الدین نے مشہور بدنام زمانہ کتاب "رنگیلا رسول "کے ناشر راج پال کو ٹھکانے لگایا اور تختہ دار پر چڑھ گئے ۔اس واقعہ کے پس منظر کو سمجھنے کے لئے ہندووں کی شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں کو یاد رکھنا ضروری ہے جو 1920ءکی دہائی میں شروع کی گئی تھیں ۔اس سلسلہ میں ہندووں نے دلآزار لڑیچر شائع کرنا شروع کیا ۔ مہاشہ کرشن مدیر "پر تاپ "لاہور نے ایک کتاب "رنگیلا رسول "کے نام سے لکھی ۔مصنف نے مسلمانوں کے غم و غصہ سے بچنے کے لئے اپنی بجائے پروفیسر چمپوپتی لال ایم اے کا فرضی نام بطور مصنف لکھ دیا ۔تاہم اس کتاب پر راج پال ناشر ہسپتال روڈ لاہور کا نام درست اور واضح لکھا ہوا تھا۔مسلمانوں نے اس کتاب کو تلف کرنے کی درخواست کی ۔اس کے انکار پر مسلمانوں نے دفعہ 153الف کے تحت فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا ۔مجسٹریٹ نے ناشر کو چھ ماہ قید کی سزا دی۔مگر اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔

اس سلسلے میں مسلمانوں نے جلسے کئے۔متعدد جلوس نکالے لیکن حکومت نے دفعہ 144نافذ کر کے مسلمان لیڈروں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔فرنگی حکومت کے انصاف سے مایوس ہونے کے بعدمسلمانوں نے اپنی قوت بازو سے کام لینے کا مصمم ارادہ کیا ۔چنانچہ راج پال کو ٹھکانے لگانے کے لئے سب سے پہلے ایک نوجوان غازی عبد العزیز کوہاٹ سے لاہور آیا۔پوچھتا پوچھتا ناشر کی دوکان پر جا پہنچا ۔اتفاق سے اس وقت دوکان پر راج پال نہیں بیٹھاتھا بلکہ اس کی جگہ اس کا ایک دوست جتندر موجود تھا۔

عبد العزیز نے ایک ہی وار میں اس کا کام تما م کردیا ۔انگریزی حکومت نے کچھ قانونی تقاضوں اور مصلحتوں کے پیش نظر عبدالعزیز کو چودہ سال کی سزا دی ۔راج پال اپنے آپ کو ہروقت خطرے میں محسوس کرتا ۔اس کی دراخوست پر دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالداراس کی حفاظت کے لئے متعین کئے گئے ۔راج پال لاہور چھوڑ کر ہردوا 'کاشی اور متھرا چلاگیا لیکن دوچار ماہ بعد واپس آکر اپنا کاروبار دوبارہ شروع کردیا۔

چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے اور ایک بجے دوپہر راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک پہنچ کر آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا "اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دلآزار کتاب کو تلف کردواور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آجاو۔"راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے ایسا بھر پور وار کیا کہ وہ اف تک نہ کرسکا۔اس وقت دوکان میں دو ملازم بھگت رام اور کدار ناتھ بھی موجود تھے ۔

کدار ناتھ نے انار کلی پولیس سٹیشن میں قتل کی اطلاع درج کروائی ۔پولیس نے لاش پر قبضہ کرکے کدار ناتھ 'بھگت رام اور دیگر گواہوں کے بیانات لئے ۔چونکہ ملزم اقبالی تھا اس لئے مقدمے کی تفتیش اور چالان میں نہ توکوئی دقت پیش آئی نہ کوئی رکاوٹ ہوئی ۔اس واقعہ کے بعد شہر میں خاصاخوف وہراس پھیل گیا تھا ۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے دفعہ 144نافذ کر کے ہندو مسلم کشیدگی پرقابو پانے کی کوشش کی۔تاہم ہندووں نے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پورے احترام کے ساتھ رام باغ نزد بادامی باغ نذر آتش کر کے اس کی راکھ کو دریائے راوی میں بہا دیا ۔مقدمہ مسٹر لوئیس ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوا۔انہوں نے ملزم پر فرد جرم عائد کر کے اس کا بیان لیا اور بغیر صفائی کے مقدمہ سیشن کے سپرد کردیا۔

مسٹر نیپ سیشن جج تھے ۔مسٹر سلیم بارایٹ لاءنے غازی علم الدین کے حق میں معقو ل دلائل پیش کئے مگر عدالت نے دفعہ 302کا فرد جرم عائد کرکے مورخہ 22مئی 1929ءکو پھانسی کی سزا کا حکم سنایا ۔ جن کے وکیل صفائی بانی پاکستان بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح تھے لیکن انگریز سرکار کی پریوی کونسل نے ان کی اپیل خارج کر دی جس پر 31اکتوبر 1929ء کے دن حرمت رسول
ۖ پر قربان ہونے والے غازی علم دین کو میانوالی جیل میں تختہ دا ر پر لٹکا دیا گیا ۔ پھانسی پانے سے قبل شمع رسالت ۖ کے پروانے غازی علم دین شہید نے پھانسی گھاٹ پر موجود انگریز و ہندو افسران کو مخاطب کر کے کہا " کہ میں نے حرمت رسول ۖ کیلئے راجپال کو قتل کیا ہے ۔ تم گواہ رہو کہ میں محبت رسول ۖ میں کلمہ شہادت پڑھتا ہوا راہ حق میں جان قربان کر رہا ہوں "۔غازی علم دین شہید نے شہادت گاہ پر کھڑے ہو کر وہاں موجود سب حاضرین کو گواہ بنا کر تین مرتبہ بلند آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور پھر پھانسی کے رسے کو چوم کر گلے میں ڈال لیا۔ پھانسی کے بعد غازی علم دین شہید کی نمازجنازہ میانوالی جیل میں ادا کی گئی اور اسے وہیں دفن کر دیا گیا۔ اس پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس پر مسلمانوں کا ایک وفد مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور سر محمد شفیع کی قیادت میں وائسرائے ہند سے ملا اور غازی علم دین کا جسد خاکی لاہور لے جانے کا مطالبہ کیا جس پر وائسرائے نے چند شرائط پر یہ درخواست منظور کرلی اور اس طرح 8نومبر 1929ء کو غازی علم دین شہید کا جسد خاکی میانوالی سے ریل کے ذریعے لاہور لایاگیاجہاں ان کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ غازی علم دین شہید کی 4مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ پہلی مرتبہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا دیدار علی شاہ ، دوسری بار مسجد وزیر خان کے خطیب مولانا شمس الدین ، تیسری مرتبہ حضرت مولانا سید احمد شاہ اور چوتھی مرتبہ حضرت پیر سید جماعت علی شاہ نے غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ ادا کروائی ۔ بعد ازاں آپ کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ تدفین کے موقع پر حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے غاز ی علم دین کا جسد خاکی لحد میں اتار ا۔ انہوں نے شہید کا ماتھا چوم کر فرمایا کہ "ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا، اسی تے گلاں کردے رہ گئے"۔ شہید ناموس رسالت ۖ
کی برسی کے موقع پر دو روزہ عرس کا بھی انعقاد کیا جائے گا

Ka'abay Ki Ronaq, Ka'abay Ka Manzar..!!

کعبےکی رونق کعبےکا منظر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر 
دیکھوں تو دیکھےجائوں برابر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

حیرت سےخود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو 
لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر


حمد خدا سےتر ہیں زبانیں کانوں میں رس گھولتی ہیں اذانیں 
بس اک صدا آرہی ہے برابر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

قطرےکو جیسےسمندر سمیٹےمجھ کو مطاف اپنےاندر سمیٹے 
جیسےسمیٹے آغوش مادر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

مانگی ہیں میں نےجتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی 
میزاب رحمت ہے میرے سر پر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

یاد آگئیں جب اپنی خطائیں اشکوں میں ڈھلنےلگی
اِلتجائیں رویا غلاف کعبہ پکڑ کر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

اپنی عطا سےبلوا لیا ہے مجھ پر کرم میرےرب نےکیا ہے 
پہنچا ہوں پھر سےحطیم کےاندر، اﷲ کرم اﷲ کرم

بھیجا ہےجنت سےتجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو خود مصطفی نے
اےسنگِ اسود تیرا مقدر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

جس پر نبی کےقدم کو سجایا، اپنی نشانی کہہ کر بتایا 
محفوظ رکھا رب نےوہ پتھر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

محشر میں ہو نہ مجھےپیاس کا ڈر ، ہوں ملتفت مجھ پر ساقیِ کوثر 
رب سےدعا کی زم زم کو پی کر ، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

دیکھا صفا بھی مروہ بھی دیکھا رب کےکرم کا جلوہ بھی دیکھا 
دیکھا رواں اک سروں کا سمندر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

کعبےکےاوپر سےجاتےنہیں ہیں ، کس کو ادب یہ سکھاتےنہیں ہیں 
کتنےمؤدب ہیں یہ کبوتر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

تیرےکرم کی کیا بات مولا، تیرےحرم کی کیا بات مولا تا 
عمر کر دےآنا مقدر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

مولاصبیح اور کیا چاہتا ہے، بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے 
بخشش کےطالب پہ اپنا کرم کر، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر 

Ka'abay Ki Ronaq, Ka'abay Ka Manzar..!!

کعبےکی رونق کعبےکا منظر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر 
دیکھوں تو دیکھےجائوں برابر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

حیرت سےخود کو کبھی دیکھتا ہوں اور دیکھتا ہوں کبھی میں حرم کو 
لایا کہاں مجھ کو میرا مقدر، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر


حمد خدا سےتر ہیں زبانیں کانوں میں رس گھولتی ہیں اذانیں 
بس اک صدا آرہی ہے برابر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

قطرےکو جیسےسمندر سمیٹےمجھ کو مطاف اپنےاندر سمیٹے 
جیسےسمیٹے آغوش مادر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

مانگی ہیں میں نےجتنی دعائیں منظور ہوں گی مقبول ہوں گی 
میزاب رحمت ہے میرے سر پر ، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

یاد آگئیں جب اپنی خطائیں اشکوں میں ڈھلنےلگی
اِلتجائیں رویا غلاف کعبہ پکڑ کر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

اپنی عطا سےبلوا لیا ہے مجھ پر کرم میرےرب نےکیا ہے 
پہنچا ہوں پھر سےحطیم کےاندر، اﷲ کرم اﷲ کرم

بھیجا ہےجنت سےتجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو خود مصطفی نے
اےسنگِ اسود تیرا مقدر، اﷲ اکبر اﷲ اکبر

جس پر نبی کےقدم کو سجایا، اپنی نشانی کہہ کر بتایا 
محفوظ رکھا رب نےوہ پتھر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

محشر میں ہو نہ مجھےپیاس کا ڈر ، ہوں ملتفت مجھ پر ساقیِ کوثر 
رب سےدعا کی زم زم کو پی کر ، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

دیکھا صفا بھی مروہ بھی دیکھا رب کےکرم کا جلوہ بھی دیکھا 
دیکھا رواں اک سروں کا سمندر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

کعبےکےاوپر سےجاتےنہیں ہیں ، کس کو ادب یہ سکھاتےنہیں ہیں 
کتنےمؤدب ہیں یہ کبوتر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

تیرےکرم کی کیا بات مولا، تیرےحرم کی کیا بات مولا تا 
عمر کر دےآنا مقدر، اﷲ اکبر ، اﷲ اکبر

مولاصبیح اور کیا چاہتا ہے، بس مغفرت کی عطا چاہتا ہے 
بخشش کےطالب پہ اپنا کرم کر، اﷲ اکبر، اﷲ اکبر 

Madeenay Ka Safar Hay Aur May Namdeeda Namdeeda..!!

مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ


کسی کےہاتھ نےمجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

غلامان محمد دور سے پہچانےجاتےہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ

کہاں میں اور کہاں اُس روضئہ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نےدیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ 

Madeenay Ka Safar Hay Aur May Namdeeda Namdeeda..!!

مدینےکا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانب طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ بدن لرزیدہ لرزیدہ


کسی کےہاتھ نےمجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

غلامان محمد دور سے پہچانےجاتےہیں
دل گرویدہ گرویدہ، سرِ شوریدہ شوریدہ

کہاں میں اور کہاں اُس روضئہ اقدس کا نظارہ
نظر اُس سمت اٹھتی ہے مگر دُزیدہ دُزیدہ

بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نےدیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ

وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ 

Napak Koshish..

روضہ رسول سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اجسام مبارک کو چرانے کی تین دفعہ کی گئی ناپاک کوشش 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبور کی بے حرمتی کرنے کی بار بار کوشش کی ۔آپ تینوں مدی

نہ منورہ میں مسجد نبوی شریف میں دفن ہیں۔دشمنوں نے باربار کوشش کی کہ ان کے اجسام مبارک کو ان کی قبروں سے نکال لیا جائے تاکہ مسجد نبوی شریف اور مدینہ منورہ توجہ کا مرکز نہ رہیں ۔شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب تاریخ مدینہ میں تین بڑی سازشوںکا ذکر کیا ہے ۔
پہلی سازش 
ابن نجار نے اپنی کتاب بغداد کی تاریخ میں لکھا ہے کہ 386ھ سے 411ھ تک ایک فاطمی حکمران مصر کا بادشاہ تھا اور مدینہ منورہ اس کے زیر اثر تھا ۔اس حکمران کی سوچ اور کوشش یہ تھی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کےدو صحابہ کرام رضی اللہ عنھما کے اجسام مبارک کو مدینہ منورہ سے مصر منتقل کیا جائے ۔اس طرح لوگوں کی توجہ مدینہ منورہ سے کی بجائے مصر کی طرف مبذول ہوجائے گی ۔اس نے اس مقصد کے لئے مصر میں ایک نہایت شاندار عمارت تعمیر کی جس میں وہ ان اجسام کو رکھنا چاہتا تھا۔حکمران نے اس مقصد کے لئے اپنے ایک کارندے ابوالفتوح کو مدینہ بھیجا ۔جب یہ کارندہ مدینہ پہنچا تو اہل مدینہ کو اس سازش کی خبر ہوگئی ۔اہل مدینہ کو ابوالفتوح پر بہت غصہ آیا ۔وہ ابوالفتوح اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردینے کو تیار ہوگئے ۔ابوالفتوح ڈرگیااوربول اٹھا۔میں اس سازش کو کبھی بھی عملی جامہ نہ پہناوں گاخواہ حاکم مصر مجھے قتل ہی کردے ۔اسی دوران مدینہ منورہ میں ایک بہت بڑا طوفان آیاجس سے کئی گھر تباہ ہوئے اور جانی ومالی نقصان ہوا۔ابوالفتوح کو مدینہ سے بھاگنے کا ایک اچھا بہانہ مل گیا اس طرح سے اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو ان مجرموں سے نجات دی ۔اس حکمران نے ایک اور کوشش بھی کی لیکن وہ دوبارہ ناکام ہوا۔ 

دوسری سازش 
سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557 ھ میں مرتب کی اس وقت شام کے بادشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا۔ اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا۔ایک رات نورالدین زنگی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں تین بار دیکھا ۔ہربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوآدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلطان سے کہا مجھے ان دونوں کی شرارت سے بچاو۔ اس رات، نمازِ تہجّد کے بعد، سلطان نور الدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ا دو سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ان کے شر سے بچاؤ۔ سلطان ہڑبڑا کر اٹھا، وضو کیا، نفل ادا کیے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ دوبارہ وہی خواب دیکھا۔ اٹھا وضو کیا۔ نفل پڑھے اور سوگیا۔ تیسری بار وہی خواب دیکھا۔اب اس کی نیند اڑ گئی۔اس نے رات کو ہی اپنے مشیر جمال الدین موصلی کو بلاکر پورا واقعہ سنایا۔ مشیر نے کہا: "سلطان یہ خواب تین بار دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینے روانہ ہوجائیں۔" اگلے روز سلطان نے بیس مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینے کے لیے کوچ کیا اور سولہویں روز شام کے وقت وہاں پہنچ گیا۔ سلطان نے روضہٴ رسول پر حاضری دی اور مسجدِ نبوی میں بیٹھ گیا۔ اعلان کیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کرے گا۔ لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتا رہا۔اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا، لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اسے ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔سلطان نے حاضرین سے پوچھا: "کیا مدینے کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟" جواب اثبات میں تھا۔ سلطان نے پھر پوچھا: "کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟" اس بار حاضرین نے کہا: "سوائے دو آدمیوں کے"۔ راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا: "وہ کون ہیں؟ اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے؟" بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم و صلوٰة کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجدِ قبا جاتے ہیں۔ فیاض اور مہمان نواز ہیں۔ کسی کا دیا نہیں لیتے۔سلطان نے کہا: "سبحان اللہ" اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کے لیے فوراً بلایا جائے۔ جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا: "الحمدللہ، ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں۔" جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اس نے حکم دیا کہ ان دونوں کو فوراً پیش کیا جائے۔ حکم کی فوری تعمیل ہوئی۔ ایک جھلک ان کی شناخت کے لیے کافی تھی، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا : "تم کون ہو؟" یہاں کیوں آئے ہو؟" انہوں نے کہا، "ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے اور اب روضہٴ رسول کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔" سلطان نے سختی سے کہا: "کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے؟" اب وہ چپ رہے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا: "یہ کہاں رہ رہے ہیں؟" بتایا گیا کہ روضہٴ نبوی کے بالکل نزدیک ایک مکان میں (جو مسجدِ نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا) سلطان فوراً اٹھا اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا۔ اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے اس مکان میں، اس کی نظر فرش پر پڑی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی۔نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اڑ گئیں۔ سلطان نے چٹائی اٹھائی۔ اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی۔ سلطان نے گرج کر کہا: "کیا اب بھی سچ نہ بولو گے؟" ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ عیسائی ہیں اور ان کے حکمراں نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح رسول کریم اکا جسدِ اقدس روضہٴ مبارک سے نکال کر لے آئیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے، انہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اس کے بعد روضہٴ رسول سے نزدیک ترین جو مکان کرائے پر مل سکتا تھا، وہ لے کر اپنا مذموم کام شروع کردیا۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے، جس کا رخ روضہٴ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنّت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل میں تھی کہ ایک رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جب کہ ان کا کام پایہٴ تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان نہ جانے کیسے مدینے پہنچ گئے۔ سلطان نور الدین زنگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کردیا جائے۔ روضہٴ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے اور اسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا جائے، تاکہ آئندہ کوئی بدبخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ ۵۵۷ھ (مطابق ۱۱۶۲ء) کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کےقریب ایک چبوترہ بھی بنوایا ۔تا کہ اس پر ان قبور کی حفاظت کے لئے ہروقت پاسبان رہیں ۔یہ چبوترہ اب بھی موجود ہے۔اورباب جبریل سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب ہے ۔بعض زائرین اسے مقام صفہ سمجھتے ہیں ۔حالانکہ مقام اصحاب صفہ مسجد نبوی کے اندر تھا۔جب کہ چبوترہ اُس وقت کی مسجد کی چاردیواری سے باہر تھا۔ مقام اصحاب صفہ کے تعین کے لئے استونہ عائشہ سے شمال کو چلئے (یعنی قبلہ کی سمت کے خلاف)پانچویں ستوں کے قریب مقام اصحاب صفہ ہے ۔یا یہ کہ پرانے باب جبریل کےبالمقابل یہ مقام تھا۔یادرہے کہ وہاں اس وقت کوئی چبوترہ نہیں ۔

تیسری سازش 
طبری نے اپنی کتاب الریاض النضرہ مین اس کا یوں ذکر کیا ہے: حلب شہر(شام)کے چند لوگ مدینہ منورہ آئے وہ مدینہ کے گورنر کے لئے بیش بہا تحائف لائے۔ان کی خواہش تھی کہ روضہ مبارک میں داخل ہوکر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے اجسام مبارک نکال کر یہاں سے باہر پھینکیں۔گورنر کی مذہبی سوچ بھی ایسی ہی تھی ۔اس نے منظوری دے دی ۔گورنر نے مسجد کے خادم سے کہا کہ اگر رات کو کچھ لوگ آئیں تو ان کےلئے مسجد کا دروازہ کھول دینا اوروہ جو کچھ کرنا چاہیں اس میں مداخلت نہ کرنا۔ عشاء کی نماز سے کافی دیر بعد کسی نے باب السلام پر دستک دی ۔خادم نے مسجد کا دروازہ کھول دیا۔تقریبا چالیس آدمی مسجد میں داخل ہوگئے ۔ان کے پاس توڑ پھوڑ اور کھدائی کے ہتھیار بھی تھے ۔خادم سہم گیا۔اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔یہ لوگ روضہ مبارک کی طرف بڑھے ۔ابھی منبر تک نہ پہنچے تھےکہ اچانک ان کےنیچے کی زمین پھٹ گئی یہ سب لوگ اپنے ہتھیاروں سمیت اس زمین میں دفن ہوگئے ۔ گورنر ان لوگوں کا بے تابی سے انتظار کرتا رہا ۔بالآخر خادم کو بلایا اور ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا ۔خادم نے اسے سارا واقعہ بتادیا۔گورنر نے کہا یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔تم یقینا پاگل ہو۔خادم نے گورنر کو دعوت دی کہ وہ اپنی آنکھوںسےموقع دیکھے ۔گورنر نے اس جگہ کی زمین کو دھنسا ہوا پایا تو خادم سے کہنے لگا۔تم اس معاملے کے بارے میں زبان نہ کھولناورنہ میں تمہارا سر اُڑا دوں گا۔" اللہ کے دشمن اپنی عقل کی تدبیریں بناتے ہیں اور اللہ تعالی بھی اپنی تدبیریں بناتے ہیں یقینا اللہ کی تدبیریں انسانی تدبیروں پر حاوی ہیں ۔سورۃ الانفال:30 ویمکرون ویمکراللہ ،واللہ خیرالماکرین ۔ یادرہے کہ اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا وعدہ پورا کیا اور آپ کی دنیاوی حیات میں اور اس کے بعد بھی سب لوگوںسے حفاظت فرمائی ۔سورۃ المائدہ :67 واللہ یعصمک من الناس ۔ 

دعا کہ کہ اللہ سب مسلمانوں کی ان کے دشمنوں کے بُرے منصوبوں اور ذلیل سازشوں سے حفاظت فرمائیں۔اور مسلمانوں کو اچھے اعمال کی توفیق دے ۔تاکہ وہ رب العزت کی حفاظت کے مستحق بن جائیں ۔آمین

Achay Akhlaq

ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کہیں جا رہے تھے' راستے میں زبردست کیچڑ تھا' ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا' یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔
آپ اسی پریشانی میں تھے کہ صاحب خانہ کو بلایا گیا' اتفاق سے وہ شخص مجوسی تھا اور آپ کا مقروض بھی' آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ شاید قرض مانگنے آئے ہیں' پریشان ہوکر عذر اور معذرت پیش کرنے لگا' آپ نے فرمایا: قرض کی بات چھوڑو'میں اس فکر وپریشانی میں ہوں کہ تمہاری دیوار کو کیسے صاف کروں'اگر کیچڑ کھرچوں تو خطرہ ہے کہ دیوار سے کچھ مٹی بھی اتر آئے گی اور اگر یوں ہی رہنے دوں تو تمہاری دیوار گندی ہوتی ہے'

یہ بات سن کر وہ مجوسی بے ساختہ کہنے لگا حضور! دیوار کو بعد میں صاف کیجئے گا پہلے مجھے کلمہ طیبہ پڑھا کر میرا دل صاف کردیں' چنانچہ وہ مجوسی آپ کے عظیم اخلاق وکردار کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

امام ابو حنیفہ جس طرح علم وفضل اور فقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی آپ یکتائے روزگار تھے- آپ کے اخلاق اور کردار کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس پر عمل پیرا ہو کر نا صرف آئمہ کرام بلکہ عالم اسلام کا ہر شخص اخلاق و کردار میں آپ اپنی مثال بن سکتا ہے- اللہ رب العزت ہم سب میں ایسے اوصاف پیدا فرماۓ- آمین

Achay Akhlaq

ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کہیں جا رہے تھے' راستے میں زبردست کیچڑ تھا' ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا' یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔
آپ اسی پریشانی میں تھے کہ صاحب خانہ کو بلایا گیا' اتفاق سے وہ شخص مجوسی تھا اور آپ کا مقروض بھی' آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ شاید قرض مانگنے آئے ہیں' پریشان ہوکر عذر اور معذرت پیش کرنے لگا' آپ نے فرمایا: قرض کی بات چھوڑو'میں اس فکر وپریشانی میں ہوں کہ تمہاری دیوار کو کیسے صاف کروں'اگر کیچڑ کھرچوں تو خطرہ ہے کہ دیوار سے کچھ مٹی بھی اتر آئے گی اور اگر یوں ہی رہنے دوں تو تمہاری دیوار گندی ہوتی ہے'

یہ بات سن کر وہ مجوسی بے ساختہ کہنے لگا حضور! دیوار کو بعد میں صاف کیجئے گا پہلے مجھے کلمہ طیبہ پڑھا کر میرا دل صاف کردیں' چنانچہ وہ مجوسی آپ کے عظیم اخلاق وکردار کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔

امام ابو حنیفہ جس طرح علم وفضل اور فقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی آپ یکتائے روزگار تھے- آپ کے اخلاق اور کردار کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس پر عمل پیرا ہو کر نا صرف آئمہ کرام بلکہ عالم اسلام کا ہر شخص اخلاق و کردار میں آپ اپنی مثال بن سکتا ہے- اللہ رب العزت ہم سب میں ایسے اوصاف پیدا فرماۓ- آمین

Tuesday, October 30, 2012

Mushtaq Ahmad Yousfi : Khansamaa Ki Talaash May..

خانساماں کی تلاش میں ۔۔۔ 

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک" پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔

کہنے لگے: " صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!"
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا ۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کروگے؟ "
" یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔"

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری ، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا " جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔"
" پھر بھی ؟"
کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی ! "

مشتاق احمد یوسفی - شہ پارے

Mushtaq Ahmad Yousfi : Khansamaa Ki Talaash May..

خانساماں کی تلاش میں ۔۔۔ 

کچھ دن ہوئے ایک مڈل فیل خانساماں ملازمت کی تلاش میں آ نکلا اور آتے ہی ہمارا نام اور پیشہ پوچھا۔ پھر سابق خانساماؤں کے پتے دریافت کیے۔ نیز یہ کہ آخری خانساماں نے ملازمت کیوں چھوڑی؟ باتوں باتوں میں انھوں نے یہ عندیہ بھی لینے کی کوشش کی کہ ہم ہفتے میں کتنی دفعہ باہر مدعو ہوتے ہیں اور باورچی خانے میں چینی کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز سے ہمارے اعصاب اور اخلاق پر کیا اثر مرتب ہوتا ہے۔ ایک شرط انھوں نے یہ بھی لگائی کہ اگر آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں پہاڑ پر جائیں گے تو پہلے "عوضی مالک" پیش کرنا پڑے گا۔

کافی رد و کد کے بعد ہمیں یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہم میں وہی خوبیاں تلاش کر رہے ہیں جو ہم ان میں ڈھونڈ رہے تھے۔ یہ آنکھ مچولی ختم ہوئی اور کام کے اوقات کا سوال آیا تو ہم نے کہا کہ اصولاً ہمیں محنتی آدمی پسند ہیں۔ خود بیگم صاحبہ صبح پانچ بجے سے رات کے دس بجے تک گھر کے کام کاج میں جٹی رہتی ہیں۔

کہنے لگے: " صاحب! اُن کی بات چھوڑیے۔ وہ گھر کی مالک ہیں۔ میں تو نوکر ہوں!"
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ برتن نہیں مانجھوں گا ۔ جھاڑو نہیں دوں گا۔ ایش ٹرے صاف نہیں کروں گا۔ میز نہیں لگاؤں گا۔ دعوتوں میں ہاتھ نہیں دھلاؤں گا۔
ہم نے گھبرا کر پوچھا " پھر کیا کروگے؟ "
" یہ تو آپ بتائیے ۔ کام آپ کو لینا ہے۔ میں تو تابع دار ہوں۔"

جب سب باتیں حسب منشا و ضرورت ( ضرورت ہماری ، منشا ان کی) طے ہو گئیں تو ہم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی سودا لانے کے لیے فی الحال کوئی علٰحدہ نوکر نہیں ہے ۔ اس لیے کچھ دن تمھیں سودا بھی لانا پڑے گا۔ تنخواہ طے کر لو۔

فرمایا " جناب ! تنخواہ کی فکر نہ کیجئے۔ پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا۔"
" پھر بھی ؟"
کہنے لگے " پچھتر روپے ماہوار ہوگی۔ لیکن اگر سودا بھی مجھی کو لانا پڑا تو چالیس روپے ہوگی ! "

مشتاق احمد یوسفی - شہ پارے

Sabaq Aamoz...

امام غزالیؒ کے ابتدا تعلیم کا ایک واقعہ ہے ۔ایک مرتبہ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر مدرسہ نظامیہ میں گیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔اس مدرسہ میں امام غزالیؒ بھی پڑھتے تھے ۔اور جا کر الگ الگ طلبہ سے دریافت کرنا شروع کیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے۔ سب نے مختلف جواب دیئے کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنی نیت بتائی جب امام غزالیؒ سے پو چھا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا ۔اس لئے کہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو ۔پھر اس کے بعد فرمایا کہ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں۔بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے ظاہر کر دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں ۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے ۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں

 گا۔

حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے ۔ایک بے نمازی مسلمان کو انھوں نے نمازپڑھنے کی تلقین کی ۔اس نے کہا حضرت میں نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں مگر مجھ سے وضو کا اہتمام نہیں ہو سکتا ۔حاجی صاحب ؒ نے فرمایا !اچھا نماز پڑھ جیسے ہو سکے ۔بظاہر وضو کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت دے کر حضرت حاجی صاحبؒ نے ایک خلاف دین عمل کیا تھا ۔مگر حقیقۃً یہ عین دینی عمل تھا ۔کیونکہ حکمے دین کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اس شخص نے پہلے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنی شروع کی مگر جلد ہی وہ با وضو نماز پڑھنے لگا۔

مولانا عبد السلام صاحب صدر شعبہ عربی شبلی کالج اعظم گڈھ ناقل ہیں کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ پھرہا اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے ۔ایک گاڑی فلیٹ فارم پر آکر رکی اور ڈپٹی عبد الغنی انصاری مرحوم (انکم ٹیکس کمشنر) کسی کمپار منٹ سے برآمد ہو ئے مولانا پر نظر پڑی تو بڑے اشتیاق واحترام سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا تے ہو ئے ان کی طرف بڑھے لیکن مولانا نے فرمایا میں داڑھی منڈوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ۔پلیٹ فارم پر مجمع اچھا خاصا تھا ۔عبد الغنی صاحب کچھ خفیف ہوئے آرزودگی کے ساتھ لیکن ادب کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔مولانا آپ نے بھرے مجمع میں میری ہتک کر ڈالی ۔آپ کو کوئی نصیحت کر نی تھی تو تنہائی میں کر سکتے تھے ۔موقع ومحل کی رعایت بھی تو کوئی چیز ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ پندرہ منٹ تک بولتے رہے اور ایک اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ،مولانا عبد السلام فرماتیہیں ۔میں مولانا کو دیکھتا تھا وہ بڑی توجہ اور اور خاموشی سے سنے چلے جا تے تھے ،درمیان میں بالکل نہیں ٹوکا۔ ہم سب نے سوچا بات بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔آخر مولانا ان باتوں کا جواب ہی کیا دے سکتے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ خاموش ہوئے تو مولانا نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا ! عبد الغنی اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہو جب مجمع اس سے بڑا ہو گا اور رسوائی اس سے بھی کہیں ذیادہ ہوگی----

 

Sabaq Aamoz...

امام غزالیؒ کے ابتدا تعلیم کا ایک واقعہ ہے ۔ایک مرتبہ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر مدرسہ نظامیہ میں گیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔اس مدرسہ میں امام غزالیؒ بھی پڑھتے تھے ۔اور جا کر الگ الگ طلبہ سے دریافت کرنا شروع کیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے۔ سب نے مختلف جواب دیئے کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنی نیت بتائی جب امام غزالیؒ سے پو چھا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا ۔اس لئے کہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو ۔پھر اس کے بعد فرمایا کہ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں۔بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے ظاہر کر دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں ۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے ۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں

 گا۔

حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے ۔ایک بے نمازی مسلمان کو انھوں نے نمازپڑھنے کی تلقین کی ۔اس نے کہا حضرت میں نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں مگر مجھ سے وضو کا اہتمام نہیں ہو سکتا ۔حاجی صاحب ؒ نے فرمایا !اچھا نماز پڑھ جیسے ہو سکے ۔بظاہر وضو کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت دے کر حضرت حاجی صاحبؒ نے ایک خلاف دین عمل کیا تھا ۔مگر حقیقۃً یہ عین دینی عمل تھا ۔کیونکہ حکمے دین کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اس شخص نے پہلے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنی شروع کی مگر جلد ہی وہ با وضو نماز پڑھنے لگا۔

مولانا عبد السلام صاحب صدر شعبہ عربی شبلی کالج اعظم گڈھ ناقل ہیں کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ پھرہا اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے ۔ایک گاڑی فلیٹ فارم پر آکر رکی اور ڈپٹی عبد الغنی انصاری مرحوم (انکم ٹیکس کمشنر) کسی کمپار منٹ سے برآمد ہو ئے مولانا پر نظر پڑی تو بڑے اشتیاق واحترام سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا تے ہو ئے ان کی طرف بڑھے لیکن مولانا نے فرمایا میں داڑھی منڈوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ۔پلیٹ فارم پر مجمع اچھا خاصا تھا ۔عبد الغنی صاحب کچھ خفیف ہوئے آرزودگی کے ساتھ لیکن ادب کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔مولانا آپ نے بھرے مجمع میں میری ہتک کر ڈالی ۔آپ کو کوئی نصیحت کر نی تھی تو تنہائی میں کر سکتے تھے ۔موقع ومحل کی رعایت بھی تو کوئی چیز ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ پندرہ منٹ تک بولتے رہے اور ایک اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ،مولانا عبد السلام فرماتیہیں ۔میں مولانا کو دیکھتا تھا وہ بڑی توجہ اور اور خاموشی سے سنے چلے جا تے تھے ،درمیان میں بالکل نہیں ٹوکا۔ ہم سب نے سوچا بات بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔آخر مولانا ان باتوں کا جواب ہی کیا دے سکتے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ خاموش ہوئے تو مولانا نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا ! عبد الغنی اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہو جب مجمع اس سے بڑا ہو گا اور رسوائی اس سے بھی کہیں ذیادہ ہوگی----

 

Panch Haslatain...

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرم

انی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: "جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو "۔ اس آدمی نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں اللہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے ، ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو' جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا….ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ' تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیں تو ان کے ہمراہ مت جاناآدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔
کیا ہم سب بھی ان باتوں میں سے کسی بات پر قادر ہیں اگر نہیں تو کس وجہ سے دن رات اللہ کی نافرمانی والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں 
اللہ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائے اور اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے 

Panch Haslatain...

ایک آدمی ابراہیم بن ادہم رحمه الله کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا ابواسحاق! میں اپنے نفس پر بے حد زیادتی کرتاہوں،مجھے کچھ نصیحت کیجئے جو میرے لیے تازیانہء اصلاح ہو ۔
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اگر تم پانچ خصلتوں کو قبول کرلو اور اس پرقادر ہوجاؤ تو گناہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔آدمی نے کہا: بتائیے وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں ؟
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کے رزق میں سے مت کھاؤ۔آدمی نے کہا: تو پھر میں کہاں سے کھاؤں جبکہ زمین کی ساری اشیاءاسی کی پیدا کردہ ہیں ۔ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کے رزق سے کھائے اور اسی کی نافرمانی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….دوسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: جب تم اللہ کی نافرمانی کرنا چاہو تو اس کی زمین میں مت رہو۔آدمی نے کہا: یہ تو بڑامشکل معاملہ ہے ، پھررہوں گا کہاں ….؟ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: اے شخص! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تو اسی کا رزق کھائے ،اسی کی زمین پر رہے اور اسی کی نافرم

انی کرے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ….تیسری خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: "جب تم اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو جبکہ تم اسی کا رزق کھارہے ہو ،اسی کی زمین پر رہ رہے ہو تو ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں وہ تجھے نہ دیکھ رہاہو "۔ اس آدمی نے کہا کہ یہ تو ممکن نہیں اللہ تو ہر جگہ دیکھتا ہے ، ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:اے شخص ! کیا تجھے زیب دیتا ہے کہ تم اسی کا رزق کھاؤ ،اسی کی زمین پر رہوپھر اسی کی نافرمانی کرو' جو تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے ظاہر وباطن سے آگاہ ہے؟آدمی نے کہا : بالکل نہیں ، چوتھی خصلت بتائیے
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب موت کا فرشتہ تیری روح قبض کرنے آئے تو اس سے کہو کہ ذرا مہلت دو کہ خالص توبہ کرلوں اورنیک عمل کا توشہ تیار کرلوں ۔آدمی نے کہا : (فرشتہ ) میری گزارش قبول نہیں کرے گا….ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب تم توبہ کرنے کے لیے موت کو مؤخر کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور جان رہے ہو کہ موت کا فرشتہ آگیا تو ایک سکنڈ کے لیے بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ' تو نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو ….؟آدمی نے کہا: پانچویں خصلت بتائیں
ابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا:جب جہنم کے داروغے تجھے جہنم کی طرف لے جانے کے لیے آئیں تو ان کے ہمراہ مت جاناآدمی نے کہا: وہ تومیری ایک نہ سنیں گےابراہیم بن ادہم رحمه الله نے فرمایا: توپھر نجات کی امید کیوں کر رکھتے ہو۔
آدمی نے کہا : ابراہیم ! میرے لیے کافی ہے ، میرے لیے کافی ہے ، میں آج ہی توبہ کرتا ہوں اوراللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا سوال کرتاہوں۔ چنانچہ اس نے سچی توبہ کی اور اپنی پوری زندگی عبادت وریاضت میں گزارا ۔
کیا ہم سب بھی ان باتوں میں سے کسی بات پر قادر ہیں اگر نہیں تو کس وجہ سے دن رات اللہ کی نافرمانی والے کاموں میں لگے ہوئے ہیں 
اللہ ہمیں صراط مستقیم نصیب فرمائے اور اپنی رضا والے کام کرنے کی توفیق دے 

Hikayat-e-Aoulia

ہمیشہ خلقت کی بہتری چاہو۔۔اللہ تمھارے دشمنون کو تمھارا مطیع کر دے گا۔۔۔ نیکی ایسے کرو جیسے بارش جگہ نہیں دیکھتی بلکہ ہر جگہ کو سیراب کر دیتی ہے۔۔یاد رکھو تمھارے عمل سے ثابت ہونا چاہئے کہ تم رب رحمان کے ماننے والے ہو۔۔۔

اس انسان پر افسوس جو ظلم کے جواب میں ظالم بن جائے۔ اس انسان پر افسوس نام اللہ کا لے مگر شر کے ذریعے اللہ کی رضا کو تلاش کرے۔ اس انسان پر افسوس جو رسول اللہ کو اپنا رہبر مانے۔اور ان کی شریعت کو اللہ کی رضا کے حصول کے غرض سے پامال کرے

Hikayat-e-Aoulia

ہمیشہ خلقت کی بہتری چاہو۔۔اللہ تمھارے دشمنون کو تمھارا مطیع کر دے گا۔۔۔ نیکی ایسے کرو جیسے بارش جگہ نہیں دیکھتی بلکہ ہر جگہ کو سیراب کر دیتی ہے۔۔یاد رکھو تمھارے عمل سے ثابت ہونا چاہئے کہ تم رب رحمان کے ماننے والے ہو۔۔۔

اس انسان پر افسوس جو ظلم کے جواب میں ظالم بن جائے۔ اس انسان پر افسوس نام اللہ کا لے مگر شر کے ذریعے اللہ کی رضا کو تلاش کرے۔ اس انسان پر افسوس جو رسول اللہ کو اپنا رہبر مانے۔اور ان کی شریعت کو اللہ کی رضا کے حصول کے غرض سے پامال کرے

Sab Rehmat Hay.. Sab Hair Hay...

سورة الم نشرح پڑھو ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں – ہر سختی کے بعد نرمی ہے۔۔بے شک ہر سختی کے بعد نرمی ہے-مقام آزمائیش کے بعد ملتا ہے۔جتنا سخت امتحان اتنا ہی بڑا انعام۔ آزمائیش تو اللہ کی محربانی ہے کیونکہ یہ ترقی کی نوید دیتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو آزمائیش میں ثابت قدم رہے۔۔۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں-ہم یقیناً تمہیں آزمائین گے مال،اولاد۔۔۔۔۔ کے ذریعے تاکہ دیکھیں تم میں سے کون متقی ہے- 
۔
سزا 

بھی اللہ کی ایک رحمت ہے۔ غلط اعمال کے بعد ملنے والی سزا روح اور جسم کو پاکیزگی بخشتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو غلطی کرنے کے بعد توبہ کرے اور وہ جسے سزا اور توبہ کے بعد تطہیر حاصل ہو۔
اللہ ستار العیوب ہے۔ اللہ کسی کے بڑے خیال پر اس کی پکر نہیں کرتا مگر جہان خیال عمل کا روپ ڈھال لے تو پکر ہے۔اللہ اپنی رحمت سے اپنے بندون کے غلط خیالات کی پردا پوشی فرماتے ہیں۔ اگر بندا توبہ کرے تو اپنی رحمت سے بھی نوازتے ہیں۔
دوستو جو چیز بھی اللہ کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ اچھائی ہو، آزمائیش ہو یا چاہے سزا ۔۔۔ سب رحمت ہے۔۔۔خیر ہے ۔۔۔

Sab Rehmat Hay.. Sab Hair Hay...

سورة الم نشرح پڑھو ۔ اللہ رب العزت فرماتے ہیں – ہر سختی کے بعد نرمی ہے۔۔بے شک ہر سختی کے بعد نرمی ہے-مقام آزمائیش کے بعد ملتا ہے۔جتنا سخت امتحان اتنا ہی بڑا انعام۔ آزمائیش تو اللہ کی محربانی ہے کیونکہ یہ ترقی کی نوید دیتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو آزمائیش میں ثابت قدم رہے۔۔۔ اللہ رب العزت قرآن میں فرماتے ہیں-ہم یقیناً تمہیں آزمائین گے مال،اولاد۔۔۔۔۔ کے ذریعے تاکہ دیکھیں تم میں سے کون متقی ہے- 
۔
سزا 

بھی اللہ کی ایک رحمت ہے۔ غلط اعمال کے بعد ملنے والی سزا روح اور جسم کو پاکیزگی بخشتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو غلطی کرنے کے بعد توبہ کرے اور وہ جسے سزا اور توبہ کے بعد تطہیر حاصل ہو۔
اللہ ستار العیوب ہے۔ اللہ کسی کے بڑے خیال پر اس کی پکر نہیں کرتا مگر جہان خیال عمل کا روپ ڈھال لے تو پکر ہے۔اللہ اپنی رحمت سے اپنے بندون کے غلط خیالات کی پردا پوشی فرماتے ہیں۔ اگر بندا توبہ کرے تو اپنی رحمت سے بھی نوازتے ہیں۔
دوستو جو چیز بھی اللہ کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ اچھائی ہو، آزمائیش ہو یا چاہے سزا ۔۔۔ سب رحمت ہے۔۔۔خیر ہے ۔۔۔

Chaman Say Aa Rahi Hay Boooay Kabab..

ایک بار مشاعرہ ہو رہا تھا، ایک م استاد اٹھے اور انہوں نے ایک طرح مصرعہ دیا۔
چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب 

بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی لیکن کوئی گرہ نہ لگا سکا، ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے، چنانچہ وہ ہرصبح دریا کے کنارے نکل جاتے اونچی آواز سے الاپتے۔ 
چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب


ایک روز وہ دریا کے کنارے یہی مصرعہ الاپ رہے تھے کہ ادھرسے ایک کمسن لڑکا گزرا جونہی شاعر نے یہ مصرعہ پڑھا، وہ لڑکا بول اٹھا۔ 

کسی بلبل کا دل جلا ہوگا 

شاعر نے بھاگ کر اس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ یہی لڑکا بڑا ہو کر جگر مرادآبادی بنا۔

چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب 
کسی بلبل کا دل ____ جلا ہوگ

Chaman Say Aa Rahi Hay Boooay Kabab..

ایک بار مشاعرہ ہو رہا تھا، ایک م استاد اٹھے اور انہوں نے ایک طرح مصرعہ دیا۔
چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب 

بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی لیکن کوئی گرہ نہ لگا سکا، ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھالی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے، چنانچہ وہ ہرصبح دریا کے کنارے نکل جاتے اونچی آواز سے الاپتے۔ 
چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب


ایک روز وہ دریا کے کنارے یہی مصرعہ الاپ رہے تھے کہ ادھرسے ایک کمسن لڑکا گزرا جونہی شاعر نے یہ مصرعہ پڑھا، وہ لڑکا بول اٹھا۔ 

کسی بلبل کا دل جلا ہوگا 

شاعر نے بھاگ کر اس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ یہی لڑکا بڑا ہو کر جگر مرادآبادی بنا۔

چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب 
کسی بلبل کا دل ____ جلا ہوگ

Shaikh Junaid Bagdari Aur Bahlool

ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" 
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ 
انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

Shaikh Junaid Bagdari Aur Bahlool

ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا: "تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟"
لوگوں نے کہا: " حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
"ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔"
بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔" اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا: "کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔" 
پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ 
انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔" اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں ۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟"
شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
"جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا ۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔"
کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔"
شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔" (اللہ تمہارا بھلا کرے)
پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔"
پھر سونے کے متعلق بتایا: "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔"
بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

Shaitaan Aur Insaan Ki Jang..

بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً  یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا  ۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔  فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا ۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔

اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق افعال اور عقائد پر بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔

ایک دن  اس نے سوچا کہ وہ  ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں  پوری کرے گا۔۔۔

اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا

درخت کے قریب پہنچا تو  اسے عزازیل (ابلیس)  ایک باریش بزرگ  کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل  نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔

اس شخص نے اپنی نیت اور عزم  بیان کیا۔۔

عزازئیل بولا : تمھاری نیت بہت  اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں ۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔

وہ شخص  بولا :  بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو  کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے  خلقت گمراہی سے بچے گی ۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے  توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے

عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے  سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے  طور پر روزانہ  ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا  تو جو تم چاہو وہ کرنا ۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ  مہینے تک مجھے   کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔

اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ  بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے ۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔

وہ شخص بولا : ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر  لوگ پھر بھی  اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔

دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص  گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے  رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن ، تیسرے دن ۔۔۔۔  ہر روز  3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات  بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔

تیسویں دن  جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا ۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا ۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیئوں گا۔۔۔

اسی غصے  میں وہ چلا درخت کاٹنے ۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا کو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔

یہ آدمی چیخا : حضرت آگے سے ہٹ جائیں ۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔

عزازئیل مسکراتے ہوئے  سامنے سے ہٹ گیا۔۔

غصے سے  اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا ۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے  ٹکرائی ہو۔۔۔

عزازئیل  اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔

یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن  گیا تھا۔۔۔

آخر تھک کر یہ  بندہ  زمیں پر بیٹھ گیا ۔

  عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا : حضرت ماجرا  کیا ہے؟

عزازیل مسکراتے ہوئے بولا : اے بد بخت میں عزازیل ہوں ، تمھارے اور تمھارے ابا   آدم  علیہ سلام کا ازلی دشمن ۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا  کہ تم یقیناً  درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔  سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔ رحمدلی  کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت   کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا ۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا  تو تم  میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے ۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔

Shaitaan Aur Insaan Ki Jang..

بہت زمانے پہلے کی بات ہے۔ غالباً  یہ بنی اسرائیل کے عروج کا زمانہ تھا  ۔۔۔ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔۔تاکہ توحید کی جگہ بت پرستی خلقت کا شعار بن جائے۔۔۔  فلسطین کے ایک قصبے میں ایک قدیم درخت تھا ۔۔۔ شیطان کی کوششوں سے لوگوں میں پہلے توہم پرستی عام ہوئی اور پھر ایک وقت آیا کہ اس درخت کی کچھ لوگوں نے پوجا شروع کر دی۔۔۔

اسی قصبے میں ایک توحید پرست شخص رہتا تھا۔۔ جس کا دل لوگوں کے درخت سے متعلق افعال اور عقائد پر بہت دکھتا۔۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور شریعت موسوی پر عمل کرین۔۔

ایک دن  اس نے سوچا کہ وہ  ۔۔ اس درخت کو ہی کاٹ دے گا۔۔تاکہ لوگوں کو یہ سمجھ آ جائے کہ جو درخت اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ بھلا لوگوں کی کیا مرادیں  پوری کرے گا۔۔۔

اسی سوچ میں اس نے کلہاڑی اٹھائی اور درخت کا ٹنے نکل پڑا

درخت کے قریب پہنچا تو  اسے عزازیل (ابلیس)  ایک باریش بزرگ  کی صورت میں نظر آیا۔۔۔ سلام دعا کہ بعد عزازئیل  نے پوچھا کہ وہ کلہاڑی کے ساتھ کیا کرنے آیا ہے۔۔

اس شخص نے اپنی نیت اور عزم  بیان کیا۔۔

عزازئیل بولا : تمھاری نیت بہت  اچھی ہے۔۔ لیکن درخت بھی جاندار ہوتے ہیں ۔۔ اگر لوگ کم علمی میں اس کی پوجا کر رہے ہیں تو اس میں درخت کا کیا قصور۔۔

وہ شخص  بولا :  بے شک آپ درست کہتے ہیں۔۔ لیکن اس درخت کی وجہ سے لوگ شریعت موسوی کو بھلا رہے ہیں اور بت پرستی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔۔ میں اس درخت کو  کاٹنا چاہتا ہوں کیونکہ اس کے کٹنے سے  خلقت گمراہی سے بچے گی ۔۔ اور معاشرے میں سراحیت کرتے  توہم پرستی کے جراثیم ختم ہو جائیں گے

عزازیل بولا: بے شک یہ ایک اچھی سوچ ہے۔۔ مگر اس میں بے چارے درخت کا کیا قصور۔۔ دیکھو کتنے پرندوں نے اس درخت پر گھونسلے بنائے ہوئے ہیں ۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک مہینے کا وقت مجھے دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں لوگوں کو سمجھاؤں گا۔۔ مجھے امید ہے کہ لوگ میری بات ضرور سمجھ لیں گے۔۔۔ اس طرح ایک جاندار اور اس سے جڑے درجنوں پرندے بھی بچ جائیں گے۔۔۔ اس ایک مہینے کے دوران تمھیں صبح کی عبادت کے بعد تکئیے کے نیچے  سے 3سونے کے سکے بھی ضمانت کے  طور پر روزانہ  ملیں گے۔۔ جو میری طرف سے ضمانت ہو گی۔۔ اگر ایک مہینے کے اختتام تک میں لوگوں کو سمجھا نہ سکا  تو جو تم چاہو وہ کرنا ۔۔ لیکن میری درخواست ہے کہ  مہینے تک مجھے   کوشش کرنے کی مہلت ضرور دینا۔۔

اس شخص نے سوچا چلو کہتا تو یہ  بھی ٹھیک ہے۔۔ درخت میں جان تو ہوتی ہے ۔۔دوسرا اس درخت پر پرندے بھی آباد ہیں۔۔ سب سے بڑھ کر یہ ضمانت بھی دے رہا ہے۔۔۔ اور مہینے تک صبر کرنے کا معاوضہ بھی بہت زیادہ دے رہا ہے۔۔

وہ شخص بولا : ٹھیک ہے حضرت آپ کے پاس ایک مہینہ ہے۔ ایک مہینے بعد میں آؤں گا۔۔ اگر  لوگ پھر بھی  اس درخت کی پوجا کرتے رہے تو خدا کی قسم میں یہ درخت کاٹ دوں گا اور کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔

دوسرے دن صبح کی عبادت کے بعد یہ شخص  گھر واپس آیا تو اس نے اپنے تکیے کے نیچے 3 سونے کے سکے  رکھے پائے۔۔ شخص مسکرایا اور یہ سکے جیب میں رکھ لئے۔۔ دوسرے دن ، تیسرے دن ۔۔۔۔  ہر روز  3 سکے صبح کے وقت اسے مل جاتے۔۔۔ بندہ خوش تھا کہ اس کی ضروریات  بغیر ہاتھ ہلائے ہی پوری ہو رہی ہیں۔۔

تیسویں دن  جب وہ واپس آیا تو تکئے کے نیچے کچھ نہیں تھا۔۔۔ بندے کو بہت غصہ آیا۔۔ غصے کے ساتھ ہی ایک دم اس کا ایمان پھر جاگ گیا۔۔۔ اٹھا اور کلہاڑی تیز کرنے لگا ۔۔ اور اونچی آواز میں قسمیں کھانے لگا ۔۔۔ آج میں خدا کی قسم اس درخت کو کاٹ کر ہی کچھ کھاؤں پیئوں گا۔۔۔

اسی غصے  میں وہ چلا درخت کاٹنے ۔۔۔ درخت کے پاس پہنچا کو سامنے عزازئیل کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔

یہ آدمی چیخا : حضرت آگے سے ہٹ جائیں ۔آج میں آپ کی کوئی دلیل نہیں سنوں گا۔۔۔ میں آج یہ درخت کاٹ کر ہی رہوں گا۔۔

عزازئیل مسکراتے ہوئے  سامنے سے ہٹ گیا۔۔

غصے سے  اس شخص نے کلہاڑی گمائی لیکن جیسے ہی کلہاڑی درخت سے ٹکرائی تو بندہ کانپ اٹھا ۔۔۔جیسے کلہاڑی لکڑی سے نہیں بلکہ لوہے سے  ٹکرائی ہو۔۔۔

عزازئیل  اپنی جگہ کھڑا مسکراتا رہا۔۔۔

یہ شخص کئی گھنٹے کوشش کرتا رہا لیکن درخت جیسے فولاد کا بن  گیا تھا۔۔۔

آخر تھک کر یہ  بندہ  زمیں پر بیٹھ گیا ۔

  عزازیل سے مخاطب ہو کر بولا : حضرت ماجرا  کیا ہے؟

عزازیل مسکراتے ہوئے بولا : اے بد بخت میں عزازیل ہوں ، تمھارے اور تمھارے ابا   آدم  علیہ سلام کا ازلی دشمن ۔۔ تم جب انتیس دن پہلے آئے تھے اس وقت تم ایمان کی جس کیفیت میں تھے۔۔ مجھے ڈر ہوا  کہ تم یقیناً  درخت کاٹ دو گے اور میرا انسانوں کو بہکانے کا یہ وار ضائع جائے گا۔۔۔  سو میں نے سوچا کہ تمھاری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاؤں ۔۔ رحمدلی  کی بات کرتے ہوئے میں نے تمھارے فطری لالچ کو چنگاڑی دکھائی۔۔ تم نے مصلحت   کے نام پر میری پیشکش قبول کر لی۔۔ پھر میں نے انتیس دن تمھیں حرام کھلایا ۔۔۔ جب حرام کا مال تم میں رچ بس گیا  تو تم  میرے لئے خطرہ نہیں رہے۔۔۔ اب تم جو مرضی کر لو تم اس درخت کو کاٹ نہیں سکو گے ۔۔ اور لوگ اس کی پوجا کرتے رہیں گے۔۔۔۔

A Beautiful and True Story

کوفہ میں ایک نوجوان رہتا تھا تو انتہائی عبادت گزار تھا اور ہمہ وقت جامع مسجد میں پڑا رہتا تھا ۔ ساتھ ہی وہ نہایت ہی دراز قامت ، خوبصورت اور خوب سیرت بھی تھا ۔ ایک حسینہ عورت نے اسے دیکھا تو پہلی ہی نظر میں وہ فریفتہ ہو گئی ۔
ایک مدت تک عشق کی چنگاری اس کے دل میں سلگتی رہی لیکن اسے اپنی محبت کے اظہار کا موقع نہ ملا ۔ ایک روز وہ نوجوان مسجد جا رہا تھا وہ عورت آئی اور اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ، اور کہنے لگی نوجوان ! پہلے میری بات سن لو اس کے بعد جو دل میں آئے وہ کرو ۔ لیکن نوجوان نے کوئی جواب نہ دیا اور چلتا رہا یہاں تک کہ مسجد میں پنہچ گیا ۔ واپسی میں وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی جب وہ نوجوان قریب پنہچا تو اس نے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ نوجوان نے کہا کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھے تمہارے ساتھ کھڑا ہوا دیکھ کر تہمت لگائے اس لئے میرا راستہ نہ روکو اور مجھے جانے دو ۔ اس عورت نے کہا خدا کی قسم میں یہاں اس لئے نہیں کھڑی ہوئی کہ مجھے تمہاری حثییت کا علم نہیں ہے ، یا میں یہ نہیں جانتی کہ یہ تہمت کی جگہ ہے ، خدا نہ کرے لوگوں کو میرے متعلق بد گمان ہونے کا موقع ملے لیکن مجھے اس معاملے میں بزات خود تم سے ملاقات پر اس امر نے اکسایا ہے کہ لوگ تھوڑی سی بات کو زیادہ کر لیتے ہیں اور تم جیسے عبادت گزار لوگ آئینے کی طرح ہیں کہ معمولی سا غبار بھی اس کی صفائی کو متاثر کر دیتا ہے ، میں تو سو بات کی ایک بات یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میرا دل و جان تمام اعضاء تم پر فدا ہیں ، اور 
ہجر میری موت ہے اور زندگی میری وصال 
اب بتاؤ تم کو ان دونوں میں کیا منظور ہے
اور اللہ ہی ہے جو میرے اور تمہارے معاملے میں کوئی فیصلہ فرمائے ۔ وہ نوجوان اس عورت کی یہ تقریر سن کر خاموشی کے ساتھ کوئی جواب دئیے بغیر اپنے گھر چلا گیا ۔ گھر پنہچ کر نماز پڑھنی چاہی لیکن نماز میں دل نہیں لگا اور سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں ۔ مجبورا قلم کاغذ سنمبھالا اور اس عورت کے نام ایک خط لکھا ۔ خط لکھ کر باہر آیا ، دیکھا کہ وہ عورت اسی طرح راہ میں کھڑی ہوئی ہے ، اس نے خط اس کی طرف پھینک دیا اور خود تیزی سے گھر میں داخل ہو گیا ۔
خط کا مضمون
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اے عورت ! تجھے یہ بات جان لینی چاہیے کہ جب بندہ اپنے خدا کی نا فرمانی کرتا ہے تو وہ در گزر سے کام لیتا ہے جب وہ دوبارہ اسی معصییت کا ارتکاب کرتا ہے تب بھی وہ پردہ پوشی فرما دیتا ہے ، لیکن جب وہ اس معصییت کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے تو پھر ایسا غضب نازل فرماتا ہے کہ زمین و آسمان شجر و حجر کانپ اٹھتے ہیں ، کون ہے وہ جو اس کی سزا کو برداشت کر سکے ، کون ہے جو اس کی ناراضگی کا تحمل کر سکے ، بس اس کے حضور میں اپنے آپ کو پیش کر جو تمام جہانوں کا رب ہے ، اس جبار عظیم کے آگے سربسجود ہو جا اس سے محبت کر کیونکہ وہ شروع سے ہے اور آخر تک تیرے ساتھ رہے گا ۔ فقط طالب دعا ۔۔۔
اس خط کے کافی دنوں کے بعد وہ عورت پھر راستے میں کھڑی نظر آئی ، انہوں نے اسے دیکھ لیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا لیکن اس عورت نے کہا ، کیوں واپس جاتے ہو ؟ یہ آخری ملاقات ہے 
آج کے بعد پھر خدا ہی کے یہاں ملاقات ہو گی ۔ یہ کہہ کر خوب روئی اور کہنے لگی کہ میں خدا سے جس کے ہاتھ میں تمہارا دل ہے یہ دعا کرتی ہوں کہ وہ تمہارے سلسلے میں درپیش میری مشکل آسان فرمائیں ۔ اب تم صرف مجے ایک نصیحت کرو ۔ نوجوان نے کہا ! میں صرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خود کو اپنے نفس سے محفوظ رکھنا اور اس آیت کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا ۔
ھوالذی یتوفٰکم باالیل و یعلم ما جرحتم بالنھار
ترجمعہ : اور وہ ذات تو ایسی ہے کہ رات میں تمہاری روح کو قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کو اچھی طرح جانتا ہے ۔
اور یہاں تک کہ : یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور : وہ تمہاری آنکھوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور ان باتوں کو بھی جو سینوں میں پوشیدہ ہیں ۔
یہ نصیحت سن کر وہ عورت بہت روئی اور دیر تک روتی رہی ۔ اور جب افاقہ ہوا تو اپنے گھر پنہچی اور کچھ عرصہ عبادت میں مشغول رہ کر ایمان کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی