Tuesday, October 30, 2012

Sabaq Aamoz...

امام غزالیؒ کے ابتدا تعلیم کا ایک واقعہ ہے ۔ایک مرتبہ بادشاہِ وقت بھیس بدل کر مدرسہ نظامیہ میں گیا تاکہ کوئی پہچان نہ سکے۔اس مدرسہ میں امام غزالیؒ بھی پڑھتے تھے ۔اور جا کر الگ الگ طلبہ سے دریافت کرنا شروع کیا کہ علم سے تمہارا کیا مقصود ہے۔ سب نے مختلف جواب دیئے کسی نے منصب قضاء اور کسی نے منصب افتاء کیلئے اپنی نیت بتائی جب امام غزالیؒ سے پو چھا گیا تو انھوں نے اللہ تعالیٰ کا وجوداور وحدانیت بدلیل عقل ونقل ثابت کیا ۔اس لئے کہ سوچا ہو گا کہ یہ شخص کہیں منکر نہ ہو ۔پھر اس کے بعد فرمایا کہ میں علم اس لئے پڑھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیات اور نا مرضیات معلوم کروں اور مرضی الٰہی کے مطابق عمل کروں۔بادشاہ ان کے اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس نے ظاہر کر دیا کہ میں بادشاہ ہوں اور میں نے اور لوگوں کے جوابات سے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ آج سے اس مدرسہ کو بند کردوں ۔اس لئے کہ کوئی بھی اللہ کے لئے علم حاصل کر نے والا نہیں ہے ۔روپیہ فضول ضائع ہو رہا ہے ،مگر آپ جیسے طالب علم جب اس مدرسہ میں موجود ہیں تو میری محنت اصول ہو گئی اب آپ کی وجہ سے اس مدرسہ کو باقی رکھوں

 گا۔

حضرت حاجی امدا اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کا واقعہ ہے ۔ایک بے نمازی مسلمان کو انھوں نے نمازپڑھنے کی تلقین کی ۔اس نے کہا حضرت میں نماز پڑھنے کیلئے تیار ہوں مگر مجھ سے وضو کا اہتمام نہیں ہو سکتا ۔حاجی صاحب ؒ نے فرمایا !اچھا نماز پڑھ جیسے ہو سکے ۔بظاہر وضو کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت دے کر حضرت حاجی صاحبؒ نے ایک خلاف دین عمل کیا تھا ۔مگر حقیقۃً یہ عین دینی عمل تھا ۔کیونکہ حکمے دین کے عین مطابق تھا ۔ چنانچہ اس شخص نے پہلے تو بغیر وضو کے نماز پڑھنی شروع کی مگر جلد ہی وہ با وضو نماز پڑھنے لگا۔

مولانا عبد السلام صاحب صدر شعبہ عربی شبلی کالج اعظم گڈھ ناقل ہیں کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ پھرہا اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کر رہے تھے ۔ایک گاڑی فلیٹ فارم پر آکر رکی اور ڈپٹی عبد الغنی انصاری مرحوم (انکم ٹیکس کمشنر) کسی کمپار منٹ سے برآمد ہو ئے مولانا پر نظر پڑی تو بڑے اشتیاق واحترام سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھا تے ہو ئے ان کی طرف بڑھے لیکن مولانا نے فرمایا میں داڑھی منڈوں سے ہاتھ نہیں ملاتا ۔پلیٹ فارم پر مجمع اچھا خاصا تھا ۔عبد الغنی صاحب کچھ خفیف ہوئے آرزودگی کے ساتھ لیکن ادب کے ساتھ کہنا شروع کیا ۔مولانا آپ نے بھرے مجمع میں میری ہتک کر ڈالی ۔آپ کو کوئی نصیحت کر نی تھی تو تنہائی میں کر سکتے تھے ۔موقع ومحل کی رعایت بھی تو کوئی چیز ہے ۔۔۔وغیرہ وغیرہ پندرہ منٹ تک بولتے رہے اور ایک اچھی خاصی تقریر کر ڈالی ،مولانا عبد السلام فرماتیہیں ۔میں مولانا کو دیکھتا تھا وہ بڑی توجہ اور اور خاموشی سے سنے چلے جا تے تھے ،درمیان میں بالکل نہیں ٹوکا۔ ہم سب نے سوچا بات بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔آخر مولانا ان باتوں کا جواب ہی کیا دے سکتے ہیں پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ خاموش ہوئے تو مولانا نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا ! عبد الغنی اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہو جب مجمع اس سے بڑا ہو گا اور رسوائی اس سے بھی کہیں ذیادہ ہوگی----

 

No comments:

Post a Comment