Thursday, October 25, 2012

Ashfaq Ahmad Zavia 2 : Live and Let to Live

پاکستان کا ہر  شخص آجکل اس وقت بڑی شدت کے ساتھ اس محاورے پر عمل کر رہا ہے۔ میں اپنے بہت امیر دوستوں سے ملتا ہوں تو وہ کہتے ہیں اشفاق صاحب ہم تو Live and Let to Live پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم جس طرح سے زندگی بسر کر رہے ہیں اس پر خوش ہیں اور ہم لوگوں کی زندگیوں میں دخل نہیں دیتے۔ ہمارے اردگرد جھگی والے رہتے ہیں، دوسرے لوگ رہتے ہیں ہم نے کبھی جا کر ان سے نہیں پوچھا کہ تم کیسے ہو۔ ہمار اصول Live and Let to Live  هے. ہمارے اب یہ اصول ہی چل رہا ہے کہ کوئی زندہ رہے، مرے کھپے، جئیے، ہم اس میں دخل نہیں کریں گے۔ پچھلے سے پچھلے سال مجھے امریکہ جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ریاست کیلیفورنیا میں ایک صاحب نے ہماری دعوت کی۔ میرے ساتھ بانو قدسیہ بھی تھیں۔ وہ دعوت بڑی ہی پر تکلف تھی۔ وہ ہمارے دوست ائیر فورس کے بھاگے ہوئے افسر تھے۔ وہ ماشاءاللہ پاکستان سے بڑی دولت لوٹ کر ساتھ لے گئے تھے۔ وہ آجکل امریکہ میں انگور سکھا کر دنیا بھر میں سپلائی کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا، آپ تو یہاں ہمارا سارا پیسہ لے کر آئے ہیں۔ وہ کہنے لگے اشفاق صاحب ہم تو Live and Let to Live  پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم یہاں Live کر رہے ہیں اور آپ کو ہم نے  Let Live کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ جیسے مرضی زندگی بسر کرو۔ میں نے کہا کہ میں ایک دن صبح جاگا تو جیسے سود خور پٹھان ڈنڈا پکڑ کر دورازے پر آیا کرتا ہے اس طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا ایک بندہ  ہم سے وصولی کے لیے آ جاتا ہے اور پٹھان کی طرح کہتا ہے کہ، "دیکھو ہمارا پیسہ نکالو۔" اور میں اس سے کہتا ہوں کہ میں نے تو تم سے ساری زندگی کوئی پیسہ نہیں لیا تو وہ کہتا ہے کہ تم نے لیا ہے اور تمہیں 32 بلین ڈالر دینا پڑیں گے۔

میں نے کہا، کب لیا؟ کس نے لیا؟ تو اس نے کہا تمھارے بڑوں نے قرضہ لیا۔

اس پر میرے دوست نے کہا کہ ہم نے پیسہ لیا اور اسے اچھی طرح کے ساتھ استعمال کیا اور اگر اب بھی ہمیں موقع ملا تو ہم انشاء اللہ اسی طرح سے استعمال کریں گے۔ خواتین و حضرات، دنیا کا یہ معروف ترین محاورہ پاکستان میں بڑے اطمینان، اعتماد اور یقین  کے ساتھ بولا جاتا ہے لیکن کسی نے کسی موٹر کا شیشہ نیچا کر کے یہ نہیں دیکھا کہ پیچھے آنے والا زندہ ہے کہ مر گیا ہے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ

زاویہ دوم سے اقتباس

No comments:

Post a Comment