Wednesday, October 31, 2012

Tain Tain Fish : Gul Nokhaiz Akhter

جیسے ہی نائی نے میرے سر پر استرا پھیرنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سکون سا آ گیا۔ ٹنڈ کروانا میرے لیے ہمیشہ باعث اطمینان رہا ہے۔۔۔۔ جیسے جیسے استرا میرے سر پر پھرتا جاتا ہے مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگتا ہے، میں ٹنڈ اس لیے نہیں کرواتا کہ اس سے سر کو ہوا لگتی ہے۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ ٹنڈ کروانے سے میرا سر میرے منہ سے اچھا نکل آتا ہے۔ ابا کو میری ٹنڈ سے بہت چڑ ہےان کے بس میں ہو تو وہ د...
نیا بھر کے استروں کو زنگ لگوا دیں، اگرچہ ان کو ٹنڈ کا کوئی شوق نہیں لیکن قدرت نے ان کے سارے بال اڑا دیے ہیں۔۔۔ ابا کی اتنی گھنی ٹنڈ دیکھ کر میرے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہےاور میں سوچتا ہوں کہ کاش میرا سر بھی ایسا ہی سموتھ ہو جائے۔ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو ابا کے سر پر چپت مارنے کا بڑا مزا آتا تھا، بالکل ایسی آواز آتی تھی جیسے تبلے کی ترکٹ سے آتی ہےلیکن جوں جوں بڑا ہوتا گیا ابا کا سر مجھ سے دور ہوتا گیا اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ اخلاقی اعتبار سے ابا کے سر پر چپت مارنا میرے لیے جرم ضعیفی قرار پایا۔ انہی دنوں میں نے

 فیصلہ کیا کہ اب ابا کے سر پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے سر پر خود کھڑا ہوں گا۔۔۔۔ یوں میں نے خود انحصاری کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پہلی دفعہ ٹنڈ کرائی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں ٹنڈ شدہ ہو کر گھر پہنچا تو ابا نے دروازے سے ہی مجھے چونی دے کر رخصت کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں نے کچھ کہنے کے لیے منۃ کھولا تو میری بات کاٹ کر بولے۔۔۔۔۔ دیکھو بھئی۔۔۔۔۔۔۔ نہ تو ہمارے گھر میں کوئی بچہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی شادی ہے۔۔۔۔۔ پھر تمھیں ادھر کا پتہ کس نے دیا ، یہ چونی پکڑو اور معاف کرو! وہ دروازہ بند کرنے لگے۔۔۔۔!!!
ابا۔۔۔۔۔!!! یہ میں ہوں۔۔۔۔ میں چلایا۔۔۔۔۔!!!
ان کے پیرون تلے زمین نکل گئی ۔۔۔۔ ابے آہستہ بول ۔۔۔۔ کیوں مجھے ابا ابا کہہ کر بدنام کر رہا ہے ۔۔۔۔ میں کہاں سے تیرا باپ ہو گیا۔۔۔ وہ غرائے
ابا۔۔۔۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔۔۔ ابا ۔۔۔۔ تو ہی میرا باپ ہے۔۔۔۔ خدا کے لیے مجھے پہچان۔۔۔۔!!!
ابے کیا بک رہا ہے۔۔۔۔۔ ابا کے ماتھے پہ پسینہ آکیا۔
میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔ ابا میں تیرا بیٹا ہوں۔۔۔ میں نے دہائی دی۔
لل۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔میں۔۔۔ تو کبھی موت کا کنواں دیکھنے نہیں گیا۔۔۔۔ ابا نے مری مری آواز میں دلیل دی اور بے عزتی کے احساس سے میرا رنگ سرخ ہو گیا۔ میں نے کوئی اور حملہ ہونے سے پہلے جلدی سے کہا ۔۔۔۔
ابا ماضی میں جھانکنے کی بجائے میری آنکھوں میں جھانک۔۔۔۔ میں تیرا بیٹا کمال ہون ۔۔۔۔ کمالا۔۔۔۔

"ٹائیں ٹائیں فش از گل نوخیز اختر"

No comments:

Post a Comment