Showing posts with label Many Years. Show all posts
Showing posts with label Many Years. Show all posts

Monday, August 10, 2015

10 years have passed since the earthquake of 2005 but was not in the affected areas rebuild ..

اسلام آباد: 2005 کے قیامت خیز زلزلے کو گزرے 10 سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کا کام اب تک مکمل نہیں ہو سکا۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کی بروقت تکمیل نہ ہونے پر ناقدین نہ صرف زلزلے کے بعد بحالی اور تعمیر نوکے حوالے سے قائم اتھارٹی ’’ایرا‘‘ پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ این ڈی ایم اے کی موجودگی میں ایرا کے وجود کو ہی غیر ضروری قرار دے رہے ہیں، ذرائع کے مطابق ایرا نے 2005 کے قیامت خیز زلزلے سے متاثرہ علاقوں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں تعمیر نو اور بحالی کے مجموعی طور پر 70 فیصد کے قریب کام مکمل کیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایرا کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے کل 14,476 منصوبے مکمل کرنے کا ٹاسک ملا تھا جس میں سے اب تک 9,803 منصوبے مکمل ہو سکے ہیں اور3000 منصوبوں پر تعمیراتی کام جاری ہے جبکہ 1500 منصوبوں پر ابھی تک کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق ایرا نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں تعلیم کے 5,701 ،صحت کے 306، ماحولیات کے 466،گورننس کے 701، معاش سے متعلق 2,349 ،مواصلات کے 233، فراہمی و نکاسی آب کے 4,720 منصوبوں کو مکمل کرنا تھا، ایرا نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں مجموعی طور پر کل 6 لاکھ مکانات تعمیرکیے، ذرائع نے مزید بتایا کہ ایرا نے رواں سال زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں 1000 اسکولز تعمیر کرنے کی حکمت عملی بنائی ہے، اس منصوبے پر 8 بلین روپے خرچ ہوں گے، اس منصوبے کے تحت تعلیمی اداروں کی تعمیر کیلیے 3 مراحل میں کام کیا جائے گا، فیز ون میںآزاد کشمیر اور پختونخوا میں 100,100اسکول، فیز ٹو کے دوران150-150 جبکہ فیز تھری کے دوران دونوں علاقوں میں 250-250 اسکولوں کی تعمیر کا منصوبہ ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے فیز ون اور فیز ٹو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جبکہ فیز تھری پر بھی کام جاری ہے جو نومبر کے آخر تک مکمل کیا جائے گا، واضح رہے کہ رواں مالی سال برائے 2015-16 کے وفاقی بجٹ میں ایرا کیلیے مجموعی طور پر 7000 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ مالی سال برائے 2014-15 کے لیے ایرا کو 5000 ملین روپے مختص کیے گئے تھے۔