Showing posts with label largest desert. Show all posts
Showing posts with label largest desert. Show all posts

Wednesday, August 12, 2015

River sand

صحرائے صحارا جسے صحرائے اعظم بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے جس کا رقبہ نو لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو امریکا کے کُل رقبے کے تقریباً برابر ہے۔ صحرائے اعظم شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ اس کے مغرب میں بحرِاوقیانوس، شمال میں کوہ اطلس اور بحیرۂ روم، مشرق میں بحیرۂ احمر اور مصر اور جنوب میں دریائے نائجر کی وادی اور سوڈان واقع ہیں۔
صحرائے صحارا دنیا کے چند بنجر ترین اور آبادی کے اعتبار سے انتہائی ناموزوں خطوں میں سے ایک ہے۔ اس کی ویران سطح مرتفع، چٹانیں، ریت کے طوفان نے براعظم افریقا کا ایک تہائی علاقہ ڈھانپ رکھا ہے۔ یہاں بارش برائے نام ہوتی ہے۔ سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے، چناں چہ صحرائی نباتات اور جانوروں کی صورت میں زندگی کا وجود بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ دوسری جانب، بحرِ اوقیانوس کے پار دنیا کا سب سے بڑا بارانی جنگل ہے جو امیزون کا جنگل کہلاتا ہے۔ اس جنگل میں زندگی کی بے شمار شکلیں نظر آتی ہیں۔ یہاں نباتات اور حیوانات کی ہزاروں اقسام پائی جاتی ہیں۔ صحرائے صحارا اور امیزون کا گھنا جنگل ماحولیاتی اور جغرافیائی اعتبار سے یکسر مختلف ہیں، لیکن کیا ان خطوں کا ایک دوسرے سے کوئی گہرا تعلق بھی ہے؟ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ دونوں خطے دس ہزار میل لمبے ’ریت کے فضائی دریا‘ کے ذریعے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ درحقیت امیزون کے جنگلات، خصوصاً وہاں کے نباتات کو پروان چڑھانے میں صحرائے صحارا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ناسا کے ماہرین نے گلوبل وارمنگ کے اثرات سے متعلق اپنے ایک پروجیکٹ کے دوران صحرا اور اس جنگل کی آب و ہوا اور فضائی ماحول پر تحقیق کی تو حیرت انگیز بات سامنے آئی۔ ان علاقوں کی آب و ہوا اور جانداروں سے متعلق سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ صحارا میں چلنے والی طوفانی ہوائیں اپنے ساتھ کثیر مقدار میں ریت لے کر امیزون کے طاس کی جانب روانہ ہوتی ہیں۔ اس ریت میں فاسفورس کی اہم مقدار موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صحرائی حیات کی باقیات بھی ننھے ننھے ذرات کی صورت میں اس میں شامل ہوتی ہیں۔ اس طرح یہ ریت نباتات کی نشوونما کے لیے درکار غذائی اجزا سے بھرپور ہوتی ہے اور قدرتی طریقے سے زندگی کا سفر جاری رکھنے کا باعث بنتی ہے۔ گویا صحرائے صحارا کی ریت امیزون کے جنگل کے لیے حیات بخش عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق امیزون کے جنگل میں فاسفورس کی قلت ہے۔ فاسفورس پودوں کی نشوونما کے لیے انتہائی اہم ہے۔ قدرت ایک نظام کے تحت امیزون میں فاسفورس کی ضرورت صحرائے صحارا کی جانب سے ہوائوں کے دوش پر آنے والی ریت کے ذریعے پوری کرتی ہے۔ ناسا کے سائنس دانوں کے مطابق ہر سال صحارا سے 182 ملین ٹن ریت اڑتی ہے جو امیزون کے طاس میں بکھر جاتی ہے اور اس خطے کو ہرا بھرا رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

Monday, August 10, 2015

Deserts of the world's largest desert ..

قدرت نے کائنات کے بعض خطوں میں کچھ ایسے سربستہ راز پوشیدہ کررکھے ہیں جو انسانی نظر سے باہر ہیں وہ اپنی تمام تر ترقی کے باوجود ان سے بے خبر رہا ہے۔ان میں ایک صحارا کا لق و دق ریگستان ہے۔ دنیا کے اس سب سے بڑے صحرا کا زیادہ تر حصہ شمالی افریقہ کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ جو تقریباً 5149 کلو میٹر ہے۔ یہ علاقہ مصر سے سوڈان تک جبکہ مغرب میں ماریطانیہ اور سپین کی سرحدوں تک چلا جاتا ہے۔ درمیان میں کئی ممالک آتے ہیں۔ جیسے الجزائر، چاڈ و نائیجر وغیرہ۔صحرائے صحارا کا رقبہ 86 لاکھ مربع کلو میٹر (33 لاکھ 20 ہزار مربع میل) ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا رقبہ پورے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے برابر ہے۔ ایک طرف اس کی سرحد بحیرہ روم سے ملتی ہے۔ شمال میں یہ صحرا اطلس کی پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ مغرب میں اس کی سرحد بحرالکاہل تک ہے اور مشرق میں یہ بحیرہ احمر تک جاتا ہے۔ صحرائے صحارا کی سرحدی پٹی 3200 میل (5150 کلو میٹر) لمبی ہے۔ شمال اور جنوب میں اس صحرا کی کوئی واضح سرحدی لائن نہیں ہے۔ لیکن یہاں 62 میل چوڑا ایک ایسا چٹیل میدان ہے جو آہستہ آہستہ صحرا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جنوب میں صحارا اور سوانا کے سرسبز میدان کے درمیان سوڈان کا وہ علاقہ ہے جو ’’ساحل‘‘ کہلاتا ہے۔اس ریگستان میں پہاڑوں کے دو سلسلے ہیں۔ ایک 11,204 فٹ بلند اور دوسرا 9852 فٹ بلند ہے۔ صحارا عربی لفظ ’’صحرا‘‘ کی جمع ہے جس کے معنی ’’ریگستان‘‘ کے ہیں لیکن اس صحرا کے مختلف حصوں کے اپنے علیحدہ علیحدہ نام ہیں۔ مثلاً جنوب مغربی الجزائر اور شمال مشرقی مالی میں یہ ’’تینزرنٹ‘‘ کہلاتا ہے۔ صحارا کا مشرقی حصہ ’’تیزی‘‘ یعنی خوفناک میدان کہلاتا ہے۔ یہ صحرا افریقہ کے دس ملکوں میں منقسم ہے۔ شمال میں مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا اور مصر ہیں۔ جنوب میں ماریطانیہ، مالی، نائیجر، چاڈ اور سوڈان ہیں۔ اس صحرا کا ایک 11 واںعلاقہ بھی ہے جس کے بارے میں ماریطانیہ اور مراکش میں تنازعہ ہے۔ یہ علاقہ ’’مغربی صحارا‘‘ ہے۔اکثر لوگ صحارا کو ریت کا ایک نہ ختم ہونے والا سمندر سمجھتے ہیں۔ جس میں اڑتی ہوائیں اس ریٹ کو ٹیلوں میں تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ درحقیقت ہوا جس انداز میں ریت کو ٹیلوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس سے یہ ایک حسین منظر بن جاتا ہے۔ یہ ٹیلے 755 فٹ کی بلندی تک ہوتے ہیں۔ ان کی اشکال بھی مختلف ہوتی ہیں۔ زیادہ تر علاقے کا موسم گرم اور خشک ہے جہاں ریت کے ٹیلے آگ کی مانند تپتے رہتے ہیں۔ خاص کر باہر سے داخل ہونے والی نسبتاً ٹھنڈی ہوائیں، خشک اور مربوط ماحول کے باعث گرم جھکڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ دن کے وقت یہاں درجہ حرارت 183 فارن ہائیٹ ہوجاتا ہے۔صحارا میں سب سے گرم مہینے جولائی اور اگست کے ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصے میں مئی اور جون سب سے زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ ایک طرف دن کے وقت موسم اتنا گرم ہوتا ہے تو دوسری طرف راتیں انتہائی ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ رات کو درجہ حرارت غیر معمولی طور پر گر جاتا ہے اور شمال کے بلند علاقوں میں کہرا اور برف تک جم جاتی ہے۔ تیز دھوپ کے علاوہ صحارا کے موسم کی ایک اہم خصوصیت وہ تیز ہوا جو روز چلتی ہے اور اپنے ساتھ ریت اور مٹی لے کر آتی ہے۔اس ریگستان میں ایسے مقامات بھی ہیں جو سال میں 70 دن تک طوفان کی زد میں رہتے ہیں۔صحارا بالکل چٹیل بھی نہیں ہے اس میں کہیں کہیں پودے بھی اگتے ہیں۔ ایسے پودے جو صحرا میں پرورش پاسکتے ہیں اور جنہیں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحارا کے شمالی علاقے میں کھجور کے درخت ہوتے ہیں جبکہ جنوبی حصہ میں کیکر اور مختلف قسم کی جھاڑیاں پائی جاتی ہیں۔ یہاں عام طور پر ایسے کیڑے ہوتے ہیں جو زمین کھود کر اپنا گھر بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑے جانوروں میں ایک خاص قسم کا کینگرو اور ہرن بھی پائے جاتے ہیں۔صحارا کا علاقہ صدیوں سے قافلوں کے لیے گزرگاہ بنا ہوا ہے۔ یہ علاقہ ہمیشہ سے ہی ایک ریگستان نہیں تھا۔ اس کے موسم میں مختلف ادوار میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اس کا موجودہ موسم 3 ہزار قبل مسیح سے شروع ہوا۔ ابتداء میں صحرائے صحارا اس سے کہیں طویل علاقہ میں پھیلا ہوا تھا جتنا کہ آج ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کو یہاں ایسے آثار ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے یہاں کبھی انسان کے علاوہ بڑے جانور، بھینس، ہاتھی وغیرہ بھی پائے جاتے تھے۔بے آب و گیاہ اس صحرا میں یوں تو زندگی کا تصور خام خیالی محسوس ہوتا ہے لیکن یہاں صدیوں سے خانہ بدوش آباد ہیں۔ یہاں چار قسم کے لوگ آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر ’’بربر‘‘ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ شمالی علاقہ میں عرب بربروں کی تعداد زیادہ ہے۔ مغرب میں مورز (Moors) نسل کے افراد رہتے ہیں۔ جنوبی وسطی پہاڑوں کے نزدیک توریگ (Tuareg) آباد ہیں۔ جبکہ تبتی پہاڑوں اور جنوبی صحارا میں ٹیڈا کی تعداد زیادہ ہے۔ ان لوگوں نے یہاں کے موسم اور حالات سے سمجھوتہ کر رکھا ہے۔زمانہ قدیم میں صحارا کے رہنے والے اونٹ، بھیڑ بکریاں پالتے اور ان سے ہی اپنی گزر بسر کیا کرتے تھے۔ طاقتور قبیلے ہی صحرا پر حکمرانی کرتے۔ نخلستانوں کا تمام انتظام اپنے ہاتھ میں رکھتے اور صحرا سے گزرنے والے قافلوں سے تمام کاروبار کرتے۔ خاص طور پر ’’توریگ‘‘ اپنی بہادری، شجاعت اور جنگجویانہ خوبیوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ صدیوں تک صحارا کا راستہ ہی ایسا ذریعہ تھا جس سے گزر کر افریقہ کے باشندے افریقہ کی شمالی بندرگاہوں تک پہنچتے اور اپنے ساتھ سونا، ہاتھی دانت اور نمک لاتے اور اس کی تجارت کرتے تھے۔