All about Pakistan,Islam,Quran and Hadith,Urdu Poetry,Cricket News,Sports News,Urdu Columns,International News,Pakistan News,Islamic Byan,Video clips
Thursday, June 28, 2012
Best Of Iqbal....!!
Best Of Iqbal....!!
Best Of Iqbal...!!
Best Of Iqbal...!!
A Lesson In Psychology
When Some1 Laughs To Much
Even On Stupid Things,
Be Sure That Person Is Sad Deep Inside…
When Some1 Sleeps A Lot,
Be Sure That Person Is Lonely…
When Some1 Doesn't Talk Much 'N If He Talks,
He Talks Fast,
Be Sure That Person Keeps Secrets…
& When Some1 Asks About You
Although That Person Is Busy,
Be Sure That He Loves You.. ;->
ایپل کے آئی پیڈ کو شکست دے گا اب گوگل کا شاندار اور انتہائی سستا ٹیبلٹ
گوگل نے ايپل کے آئي پيڈ اورايمزون کے کنڈل kindleکے مقابلے ميں اپنا نيکسسnexusسيون ٹيبلٹ نمائش کے لئے پيش کر ديا ہے. امريکي رياست کيلي فورنيا کے شہر سان فرانسسکو ميں گوگل نے اپنا پہلا ٹيبل پي سي نمائش کے لئے پيش کيا. نيکسس سيون ، ٹيبلٹ کي لمبائي 7 انچ، قيمت 199 ڈالر اور اس کاوزن صرف12اونس ہے. اسے ڈيزائن گوگل نے جبکہ تيار تائيوان کي ايک کمپني نے کيا ہے.اس ميں گوگل کے سوفٹ ويئر کا نيا ورجن 4.1 Jelly Bean اور Resolution screenوالا فرنٹ فيس کيمرہ بھي ہے اور ساتھ ميں ايک Nvidia tegraتھري پروسيسر بھي ہے. کمپني کے مطابق نيکسس سيون ٹيبلٹ ميں وائس سرچ جيسي نئي خصوصيات بھي ہيں
Wednesday, June 27, 2012
ان کے مبارک الفاظ کو قرآن کا جز بنا دیا گیا
مکہ میں انہی کوسب سے زیادہ خوشبولگاناپسند تھا۔ نازونعم میں پیدا ہوئے اور اسی فضا میں پرورش پا کر جوانی تک پہنچے۔ شاید مکہ کے نوجوانوں میں کسی کو اپنے والدین کی محبت و شفقت اس حد تک میسر نہ آئی ہو جس قدر حضرت مصعب بن عمیر ؓ کوملی۔
قریش کا یہ قابلِ توجہ نوجوان گفتگو کو دلچسپی اور انہماک سے سنتا ۔اِسی لیے کم عمری کے باوجود مکی مجلسوں اور محفلوں کی زینت بن گیا۔ ہر مجلس کے شرکاء کی یہ خواہش ہوتی کہ مصعبؓ ان کی محفل میں بیٹھے۔ وجہ یہ تھی کہ حسن و عقلمندی مصعبؓ کی وہ دو خوبیاں تھیں جو دِلوں اور دروں کو واکر دیتیں۔
یہ بھر پور ورعنا جوان، نازو نعمت کا پروردہ، مکہ کا نوخیز حسین اور اس کی مجلسوں اورمحفلوں کا نگینہ…کیا یہ ممکن تھا کہ وہ ایمان وجاں سپاری کی تاریخی داستانوں میں سے ایک داستان بن جائے؟
ایک روز اس جوان نے بھی وہ بات سنی جو اہلِ مکہ، جناب محمد الامینﷺ کے بارے میں کہہ رہے تھے'' محمد کہتا ہے کہ اللہ نے اسے بشیر ونذیر رسول بنا کر بھیجا ہے اور اللہ واحد الاحد کی عبادت کی طرف بلانے کی ذمے داری سونپی ہے۔''ان دنوں اہلِ مکہ کو صبح و شام اس بات کے سوا کوئی اور غم تھا ہی نہیں ، کرنے کو کوئی اور بات تھی ہی نہیں سوائے اس کے کہ وہ رسول ﷺ اور آپؓ کے دین کے متعلق محو گفتگو رہتے ۔
آپؓ نے جو باتیں اہلِ مکہ سے سنیں ،ان میں یہ بات بھی تھی کہ رسولﷺاور مسلمان قریش مکہ کی مشغولیات، فضولیات اور ایذا و تکالیف سے دُور کوہِ صفا کے اوپر ارقم بن ابی ارقم کے گھر جمع ہوتے ہیں۔ حضرت مصعب ؓ نے یہ سنا تو انتظار و تردّد کیے بغیر شام کو دارِ ارقم جا پہنچے۔ آپ ؓ کی تمنائیں اور نگاہیں تو پہلے ہی وہاں پہنچ چکی تھیں۔ وہاں رسول ﷺ اپنے صحابہؓ سے ملتے، ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے۔
حضرت مصعب ؓ ابھی جا کر بیٹھے ہی تھے کہ آیاتِ قرآن قلب رسولﷺسے لبِ رسول ﷺ پہ تاباں ہونا شروع ہو گئیں۔یہ آیات کانوں سے ٹکراتیں اور اپنا راستہ بناتی ہوئی دلوں میں اتر جاتیں۔یہاں تک کہ ابنِ عمیرؓ کے دل کی گہرائیوں میں بھی اتر گئیں ۔ دل پر پڑا پردہ اپنی جگہ سے ہٹنا شروع ہو گیا ۔
ادھر رسولﷺ نے اپنا دستِ شفقت و برکت آگے بڑھایا اور جذبات کی آتش سے بھڑکتے اور دھڑکتے دل کو چھوا تو سکون و راحت کی شعاعیں دل کی گہرائیوں میں اتر گئیں۔جو نوجوان ایمان و اسلام لے آیا تھا، وہ پلک جھپکنے میں اس طرح نمایاں ہوا کہ حکمت اس کی عمر سے دگنا نظر آنے لگی۔ اس کے اندر عزم و ارادے کی وہ قوت بھی آگئی جو وقت کا دھارا بدل ڈالنے پر قادر تھی۔
٭٭
حضرت مصعبؓ کی والدہ خناس بنت مالک غیر معمولی شخصیت کی مالک تھی۔اس کی دہشت انگیزی بھی حد کو پہنچی ہوئی تھی۔جب حضرت مصعب ؓ اسلام لائے تو روئے زمین پر ماں کے علاوہ کوئی قوت ایسی نہ تھی جس سے وہ بچتے یا خوف کھاتے ۔ اگرچہ قریش مکہ نے اپنے بتوں اور اشراف کا سارا زور لگا کر حضرت مصعب ؓ کو ڈرانا اور بھگانا چاہا مگر آپؓ کسی سے مرعوب ہوئے نہ خوفزدہ۔لیکن ماں کا جھگڑا ہی ایسا خطرہ تھا جس کا سامنا کرنے کی آپؓ قوت نہیں رکھتے تھے ۔ لہٰذا آپ ؓ نے اس پر فوری غورو فکر کیا اور اس فیصلے پر پہنچے کہ جب تک اللہ تعالیٰ معاملے کا فیصلہ نہیں کرتا، وہ اپنے اسلام کو چھپائے رکھیں گے۔
پھر دارِ ارقم آتے اور بارگاہ رسول ﷺ میں بیٹھتے رہے۔ آپ ؓ اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھے تا کہ ماں کے غضب سے بچ سکیں جسے ابھی تک آپؓ کے اسلام لانے کی خبر نہیں ہوئی تھی۔
مگر مکہ…!اور خصوصاً ان دِنوں…اُن دِنوں تو وہاں کوئی بات چھپی نہیں ر ہ سکتی تھی۔ قریش کے جاسوس و کارندے ہر راستے پر موجود ہوتے، نرم گرم ریت پر پڑنے والے نشان کے پیچھے ایک قدم اور ہوتا۔یہی ہوا کہ حضرت مصعب ؓ چھپ چھپا کر دارِ ارقم میں داخل ہو رہے تھے ،عثمان بن طلحہ نے آپ ؓ کو دیکھ لیا ۔ اس کے بعد دیکھا کہ آپ ؓ جنابِ محمد ﷺ کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں، عثمان صحرا کی آندھی اور بگولوں سے بھی تیز نکلے اور فوراً اُمِ مصعب کو جا خبر دی، جو پوری حقیقت کے ساتھ مکہ میں پھیل گئی۔حضرت مصعبؓ تب اپنی والدہ، خاندان اور سردارانِ مکہ کے درمیان کھڑے حق و ثبات کی یقینی کیفیت میں اس قرآن کی تلاوت کر رہے تھے جس کے ذریعے رسول ﷺ نے اپنے صحابہؓ کے دلوں کو دھو ڈالا اور انہیں حکمت و عزت اور عدل و تقویٰ سے بھر دیا تھا۔ماں نے چاہا کہ ایک زبر دست تھپڑ لگا کر آپؓ کو خاموش کرا دے مگر تیر کی مانند حضرت مصعبؓ کی جانب بڑھنے والا ہاتھ فوراً اس نور کے سامنے ڈھیلا پڑ گیا جس نے آپ ؓ کے چہرے کی چمک دمک میں رعب و جلال کو یوں بڑھا دیا گویا بیٹے کا احترام ماں کے اوپر فرض ہو گیا ہے۔ہاتھ سکون کے ساتھ وہیں رک گیا۔جس طرح ماں کی ممتا کا یہ تقاضا تھا کہ وہ بیٹے کے چہرے پر مارنے اور اسے تکلیف دینے سے رک جائے ، اسی طرح یہ بھی اس کے بس میں تھا کہ وہ ان معُبودوں کی محبت میں جوشِ غضب سے بھڑک اٹھے جنھیں بیٹے نے چھوڑ دیا تھا۔ماں انھیں گھر کے ایک گوشے میں لے گئی اور وہاں بند کر کے تالا لگا دیا۔ پھر حضرت مصعب ؓ اسی قید میں رہے، حتیٰ کہ کچھ مومنین نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب آپ ؓ نے ان لوگوں کے یہاں سے چلے جانے کی خبر سنی تو خود کو آزاد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ماں اور اپنے چوکیداروں کو غافل پا کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ وہاں اپنے مہاجر بھائیوں کے ساتھ کچھ عرصہ رہے، پھر ان کے ساتھ مکہ آگئے۔پھر دوبارہ حکمِ رسول اﷲ ﷺ پر دیگر مسلمانوں کی معیت میں حبشہ ہجرت کر گئے۔حضرت مصعب ؓ کا ماں کے ساتھ آخری ٹکرائو اس وقت ہوا جب ماں نے واپسی پر دوبارہ آپؓ کو محبوس کرنے کی کوشش کی ۔ حضرت مصعب ؓ نے اس وقت قسم کھائی کہ اگر تم ایسا کرو گی تو میں ہر اس شخص کو قتل کر ڈالوں گا جس سے تم میرے خلاف مدد لو گی۔ماں، بیٹے کے عزم و ارادے سے واقف تھی کہ وہ جب کسی کام کا عزم کر لے ،تو اسے کر گزرتا ہے، لہٰذا اس نے روتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔بیٹے نے بھی روتے ہوئے ماں کو چھوڑ دیا۔ ایک دوسرے کو چھوڑتے وقت ماں کی جانب سے کفر اور اپنے بیٹے کی جانب سے اسلام پر قائم رہنے کا عجیب عزم و اصرار سامنے آیا ۔ماں نے گھر سے نکلتے وقت کہا'' جائو اپنی مرضی کرو، میں دوبارہ تیرے پاس آئوں تو میں تیری ماں نہیں ہوں گی''۔بیٹا، ماں کے قریب ہوا اور کہنے لگا''ماں…! میں تیرا خیر خواہ ہوں، میرے دل میں تیرے لیے نرم جذبات ہیں، تو یہ گواہی دے ڈال کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔''ماں نے غضب ناک کیفیت میں جواب دیا ''ستاروں کی قسم… ! میں تیرے دین میں داخل نہیں ہوں گی۔ یہ تو میری رائے کو بے وقعت اور عقل کو کمزور کر دے گا۔''پھر حضرت مصعب ؓ نعمتوں بھری زندگی پر فقرو تنگ دستی کو ترجیح دیتے ہوئے باہر نکل آئے اور خوش لباس و خوشبو پسند جوان یوں نظر آنے لگا کہ کھر درے کپڑے کی قمیص زیب تن کیے ہوتا۔ ایک دن کھا لیتا تو کئی روز بھوکوں رہتا، لیکن عقیدے کی بلندی اور نور الٰہی سے منور خوبصورت روح نے ان کے اندر دوسرا ہی انسان پیدا کر دیا تھا۔ ایسا انسان جو اپنے جلال سے آنکھوں کو خیرہ کر دے اور دلوں پر اپنی دھاک بٹھا دے۔ایک روزآپؓ مسلمانوں کے پاس آئے جو رسول اللہؐ کے گرد وپیش مجلس آرا تھے۔ ان لوگوں نے حضرت مصعبؓ کو دیکھتے ہی سر اور نگاہیں جھکا لیں ۔ بعض کی تو آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ان کی یہ کیفیت کیوں ہو گئی تھی؟اس لیے کہ وہ آپؓ کو اس حالت میں دیکھ رہے تھے کہ آپ ؓ پیوند لگی بوسیدہ قمیص پہنے ہیں۔ صحابہؓنے تو آپ ؓ کے اسلام سے قبل آپ ؓ کی جو تصویر دیکھی تھی وہ تو کچھ اور تھی، اس وقت تو آپؓ کے کپڑے باغ کے پھولوں کے مانند چمکدار اور عطر بیز ہوا کرتے تھے ۔رسول اللہ ﷺ دیر تک آپؓ کو حکمت و عزت اور محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔ پھر آپﷺ کے مبارک لبوں پر رعب دار مسکراہٹ نمودار ہوئی۔آپﷺ نے فرمایا '' میں نے مصعبؓ کو دیکھا ہے کہ مکہ میں والدین کا کوئی بیٹا ایسا نہ تھا جو اس سے بڑھ کر نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہو۔ لیکن مصعب ؓ نے ہر چیزکو اللہ و رسول کی محبت میں خیر باد کہا ہے۔''
٭٭
یہی وہ دن ہیں جب رسول اکر م ﷺ نے ایک بہت بڑی مہم کے لیے آپ ؓ کو منتخب فرمایا آپ ؓ مدینہ میں اسلام کے پہلے سفیر ہوں گے اور ان انصار مدینہ کو دینی تعلیم دیں گے جو عقبہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کر چکے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی دعوتِ اسلام دے کر حلقۂ دین میں داخل کریں گے ۔ان دنوں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عمرو مرتبہ میں حضرت مصعب ؓسے بڑے اور رسول اللہ ﷺ کے زیادہ قرابت دار تھے۔ مگر رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب الخیر ؓ کو اس کام کے لیے منتخب کیا۔ حضرت معصبؓکو بھی خوب معلوم تھا کہ انتہائی خطرناک معاملہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے۔اس مدینہ میں اسلام کو پھیلانے اور بڑھانے کا معاملہ ان کے سامنے رکھا گیا ہے جو عنقریب دارالہجرت قرار پانے اور دعوت و داعیان اور غازیان و فاتحین کا مرکز بننے والا ہے۔حضرت مصعبؓ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کو مکمل طور پر سمجھ چکے تھے۔ آپ ؓ جان گئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ کے داعی اور اس دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں جو انسانیت کو ہدایت اور صراط مستقیم کی طرف لے جاتا ہے۔حضرت مصعب ؓ اسی وقت حضرت اسعدؓ بن زرارہ کی مہمان داری میں اُٹھتے اور قبائل و مجالس اور بستیوں پر چھا جاتے ہیں۔ آپؓ لوگوں کے پاس اپنے رب کی کتاب لے کر جاتے۔اور بڑی دلسوزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس جملے کو بیان کرتے ہیں۔ترجمہ''اللہ ہی واحد معبود ہے ۔''حضرت مصعبؓ نے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہترین دانش و کمال اخلاق کا سہارا لیتے ہوئے اس امانت کا بار اُٹھایا۔ آپ ؓ نے اپنے زہد و ترفع اور اِخلاص کے زور پر اہل مدینہ کے دلوں کو فتح کر لیا اور وہ فوج در فوج دین میں اترنا شروع ہو گئے۔جس دن رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو مدینہ بھیجا تھا، وہاں ان 12 آدمیوں کے علاوہ کوئی اور مسلمان نہیں تھا جنھوں نے عقبہ کے مقام پر نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ لیکن حضرت مصعب ؓ کو ان کے درمیان آئے ابھی چند ماہ گزرے تھے کہ اہلِ مدینہ نے اللہ و رسول کی دعوت پر لبیک کہہ دیا۔بیعتِ عقبہ کے بعد آنے والے حج میں مسلمانانِ مدینہ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنی نمائندگی کے لیے جو وفد مکہ بھیجا اس کے شرکاء کی تعداد مرد و خواتین سمیت ۷۰ تھی۔ وہ نبیﷺ کی طرف سے ارسال کردہ معلم حضرت مصعبؓبن عمیر کی قیادت میں مکہ آئے۔حضرت مصعبؓ نے اپنی فطری دانائی اور جاں کاہی کے ساتھ ثابت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں کیوں منتخب کیا تھا۔ آپ ؓ کو بارہا ایسے حالات سے سابقہ پڑا کہ اگر آپ ؓ کی تیز ترین ذہانت اور عظیم ترین روحانی قوت ساتھ نہ ہوتی تو خود آپ ؓ اور رفقاء کو اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑتا۔ایک روز آپ ؓ مدینہ میں لوگوں کو وعظ کر رہے تھے کہ اچانک بنی الاشہل کے ایک سردار، اُسید بن حضیر نے وہاں آکر اپنا نیزہ گاڑ دیا ۔ وہ اس آدمی کے خلاف غیظ و غضب سے بھڑک اٹھا تھا جو اس کی قوم کو کفر سے برگشتہ کر رہا تھا۔ انھیں اپنے معبود کو چھوڑنے کی تبلیغ کر رہا اور صرف ایک اللہ کے بارے میں بتا رہا تھا جس کے متعلق انھیں اس سے قبل کوئی علم تھا نہ وہ اس سے مانوس تھے۔حضرت مصعب ؓ کے ساتھ بیٹھے مسلمانوں نے غیظ و غضب سے بھڑ کتے اُسید بن حضیر کو دیکھا تو سہم گئے لیکن حضرت معصبؓ سکون و اطمینان سے اللہ کی توحید کا اظہار کرتے رہے۔اُسید غصّے کی آگ میں جلتے ہوئے حضرت مصعبؓ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر حضرت مصعب ؓ اور حضرت اسعد ؓ بن زرارہ کو مخاطب کر کے کہنے لگا''تمہیں ہمارے محلے میں کون لایا، تم ہمارے کمزور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو؟ اگر زندگی چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جائو…!''لیکن ادھر سمندر کی قوت و روانی کے مانند اور سپیدئہ سحر کے نمودار ہونے کی طرح حضرت مصعب ؓ کے چہرے پر خوشی کے آثار تاباں ہوئے۔وہ بزبان شیریں مقال گویا ہوئے:''کیا آپ بیٹھ کر سنیں گے نہیں ؟ اگر آپ کو ہمارا معاملہ اچھا لگے تو اسے مان لیجئے گا۔ناگوار گزرے تو ہم مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔''اللہ اکبر…! اس چیز کا آغاز کتنا دلکش تھا جس کا اختتام عنقریب با سعادت ہونے ولا تھا! اُسّید ایک دانا و بینا آدمی تھے اور ادھر حضرت مصعب ؓ نے ان کے ضمیر پر دستک دے ڈالی تھی کہ وہ صرف یہ کلام سن لیں اور کچھ نہ کریں۔ اگر وہ اس پر مطمئن ہوں تو اچھی بات ! ورنہ وہ ان کا محلہ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور کسی دوسرے قبیلے کنبے کے پاس جا کر اپنی بات کریں گے جسے وہ تکلیف پہنچائیں نہ ان سے تکلیف اُٹھائیں۔اُسید نے جواب دیا'' تم نے بات تو انصاف کی کہی۔'' یہ کہہ کر اپنا نیزہ زمین پر پھینکا اور بیٹھ گئے۔حضرت مصعبؓ تلاوتِ قرآن پاک کرنے لگے۔ اُنہوں نے اس دعوتِ جانفزا کی تفسیر پیش کرنا شروع کی ہی تھی جو جناب محمد ﷺ بن عبداللہ پیش کر رہے تھے کہ اُسید کے خوابیدہ جذبات بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ حضرت مصعب ؓ نے بات مکمل کی تو اُسید بن حضیر با ٓ واز بلند کہہ اُٹھے''یہ بات کس قدر حسین اور حق ہے…اس آدمی کو کیا کرنا چاہیے جو اس دین میں داخل ہونا چاہتا ہو؟''حضرت مصعب ؓ نے کہا'' وہ اپنے کپڑے اور بدن پاک صاف کرے اور یہ شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے۔''اُسید وہاں سے غائب ہو گئے۔تھوڑ ی دیر بعد آئے تو سر کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔وہ پھر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے لگے کہ ؔؔ''اللہ کے سوا کوئی معبُود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔''یہ خبر روشنی کی طرح پھیل گئی…اب سعد ؓ بن معاذ آئے، یہ بھی مصعب ؓ کے سامنے ہتھیار ڈال کرمسلمان ہو گئے ہیں ، پھر سعد ؓ بن عبادہ آتے اور نعمت اسلام سے بہرہ ور ہو جاتے ہیں۔اُدھر اہلِ مدینہ آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں، اگر اُسید ؓ بن حضیر ، سعدؓ بن معاذ اور سعدؓ بن عبادہ اسلام لے آئے تو ہم کس لیے پیچھے رہ گئے۔ آئو مصعبؓ کے پاس چلتے ہیں تا کہ ان کے ہاتھ پر ہم بھی ایمان لے آئیں۔یہ لوگ باتیں کر رہے تھے کہ مصعبؓ کے منہ سے جو بات بھی نکلے ،حق ہوتی ہے…!
٭٭
اِس طرح اوّلینِ سفیرِ رسول ﷺ مدینہ منورہ میں بے مثال کامیابی سے ہمکنار ہوئے… ایسی کامیابی جو ان کے شایانِ شان تھی اور وہ اس کے اہل تھے۔اب مہ وسال گزرنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ اور آپؐ کے صحابہ ؓ مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں ۔اُدھر قریش اپنے سینوںمیں حسدو بغض کی آگ جلا رہے ہیں۔وہ اپنے باطل کو حق ثابت کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں تا کہ اللہ کے نیک بندوں کو ظالمانہ انداز میں کچل کر رکھ دیں۔پھر غزوئہ بدر برپا ہو تا ہے جو ہوش گوش رکھنے والے قریشیوں کے لیے ایک سبق چھوڑ جاتا ہے جس سے وہ آتشِ انتقام میں جلنے لگے۔ نتیجے میں غزوئہ اُحد برپا ہوتا ہے۔ مسلمان بھی تیار ہو کر میدانِ جنگ میں آجاتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ صفوں کے وسط میں کھڑے ہو کر مومنوں کے چہروں کو متلاشی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔آپ ﷺ ایسے شخص کی تلاش میں ہیں جسے جنگ کا پرچم تھمائیں۔ آپ ﷺ حضرت مصعب الخیرؓ کو پکارتے ہیں۔ حضرت مصعب ؓ آگے بڑھتے اور علم تھام لیتے ہیں۔اب خوفناک معرکہ برپا ہوتا ہے۔ قتل و غارت کا مقابلہ تیز ہو جاتا ہے۔ کچھ تیر انداز جب دیکھتے ہیں کہ مشرکین میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے تو وہ فرمانِ رسولﷺ کی پروا نہ کرتے ہوئے مخالفت کرتے اور پہاڑ کی چوٹی پر سے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا یہ عمل مسلمانوں کی فتح فوراً شکست میں بدل دیتا ہے۔ اچانک قریش کے گھوڑ سوار پہاڑ کی بالائی جانب سے حملہ آور ہوتے ہیں اور خونخوار و تشنہ لب تلواریں مسلمانوں کو گہرا گھائو لگاتی ہیں۔ جب قریش دیکھتے ہیں کہ انتشار و بد دلی نے مسلمان لشکر کی صفوں کو توڑ ڈالا تو وہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے کے لیے حملہ کرتے ہیں۔حضرت مصعبؓ پیش آمدہ خطرہ بھانپ لیتے ہیں۔ آپ ؓ علم بلند کرتے اور چنگھاڑتے ہوئے شیر کی مانند نعرئہ تکبیر لگاتے ہیں۔پھر دائیں بائیں دُور تک دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں۔ آپ ؓ کو یہ شدید فکر لاحق ہے کہ بنفس نفیس دُشمنوں کی نظروں کو رسول اللہ ﷺ سے پھیر دیں۔ اس دوران آپ ؓ تنہا ایک لشکر ثابت ہوتے ہیں۔ اللہ اکبر… حضرت معصبؓ تنہا ایسے لڑتے ہیں گویا آپ ؓ طاقت و قوت کا پہاڑ، لشکر جرار ہوں۔ادھر اس تنہا جان پر دشمن کی جمعیت حملہ آور ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ا س شخص کے اوپر سے گزر کر رسول اللہ ﷺ تک جا پہنچیں ۔حضرت مصعب ؓ کی زندگی کے اس فیصلہ کن لمحے کی روداد کا بیان ہم ایک عینی شاہد پر چھوڑتے ہیں۔ معروف سیرت نگار ''ابن سعد ''لکھتے ہیں''ہمیں ابراہیم بن محمد بن شرجیل عبدری اپنے باپ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کہا ''اُحد کے روز مصعب ؓ نے علم اُٹھایا۔ جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے تو مصعب ؓ ثابت قدم رہے۔ مشرکین کا ایک گھڑ سوار ابن قمیہ اُن پر حملہ آور ہوا اور تلوار کا وار کر کے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ دیا۔مصعبؓ کہہ رہے تھے:''اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں''۔پھر اُنہوں نے علَم اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا اور اس پر جھک گئے۔ ابن قمیہ نے اس ہاتھ پر وار کر کے اسے بھی کاٹ ڈالا۔ اب مصعب ؓ علَم کو سینے کے ساتھ لگا کر اپنے بازوئوں کی گرفت میں لیے جھکے کھڑے اور کہہ رہے ہیں :''اور محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں''۔اب ابن قمیہ تیسری بار نیزہ سے حملہ آور ہوا، اس نے نیزہ مار ا اور نیزہ مصعب ؓ کے جسم میں دھنس گیا ، مصعب ؓ گرے اور علم بھی بازوئوں کی گرفت سے نکل کر گر گیا۔''مصعب ؓ گر گئے…اور…علَم گر گیا…!زیورِ شہادت گر گیا ، کو کبِ شہدا ء گر گیا…!حضرت مصعبؓ گرے مگر ایمان و جاں سپاری کے معرکہ میں شجاعت و بسالت کی بے نظیر تاریخ رقم کرنے کے بعد ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ گرے تو رسول اللہ ﷺ کے قتل تک پہنچنے کی راہ محافظین و مدافعین سے خالی ہو جائے گی۔ لیکن وہ اپنے اوپر آنے والی اس مصیبت پر رسول اللہ ﷺ سے فرط محبت اور آپ ﷺ کی زندگی کو معرض خطرہ میں دیکھ کر صبر کا یوں اظہار کر چکے تھے:''اور محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں، ان سے قبل بھی تو رسول گزر چکے ہیں''۔بعد میں حضرت مصعب ؓ کے ان الفاظ کو مکمل کر کے قرآن کا جز بنا دیا گیا جس کی تا قیامت بار بار تلاوت ہوتی رہے گی۔
٭٭
رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ اس ارضِ معرکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو حضرت حمزہ ؓ کے المناک و غم انگیز واقعہ کے باوجود جس سے قلبِ رسول حزین و ملول ہو کر رہ گیا تھا کہ مشرکین نے ان کی نعش کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیااوران اصحابِ رسول اورر فقائے رسول ﷺ کی نعشوں سے ارضِ معرکہ کے بھر جانے کے باوجود جن میں سے ہر ایک طہارت و صداقت اور روشنی کا پیکر عالم تھا،جی ہاں! اس سب کچھ کے باوجود رسول اللہ ﷺ اپنے اوّلین سفیر کے جسد کے قریب جا کر ٹھہرے۔ آپ ﷺ انھیں الوداع اور ان کی خوبیاں بیان کر رہے تھے… اللہ اکبر !رسول اللہ ﷺ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے پاس کھڑے ہو کر گویا ہوئے تو آپ ﷺ کی پر نورو محبت بھری اور وفا کیش نگاہیں ان کے جسم پر پڑ رہی تھیں۔ پھر زبانِ رسالتؐ اظہار ِ صداقت کرتی ہے:ترجمہ''مومنین میں ایسے مرد ان ِ کار بھی ہیں جنھوں نے اس عہد کو سچ کر دکھایا جو اللہ سے انھوں نے کیا تھا ۔''پھر آپﷺ حسرت بھری نظر اس چادر پر ڈالتے ہیں جس میں ان کوکفن دیا گیا ہے اور فرماتے ہیں:ترجمہ''میں نے تجھے مکہ میں دیکھا تو تجھ سے عمدہ و دیدہ زیب لباس پہننے والا اور خوبصورت زلفوں والا کوئی نہ تھا … آج تو ایک چادر میں غبار آلود سر چھپائے ہوئے ہے۔''حضرت خباب ؓ بن الارت کہتے ہیں:''ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اﷲ کی راہ میں ہجرت کی تو ہم اللہ کی رضا کے طلب گار تھے اور اللہ کے ذمے ہمارے اس عمل کا اجرواجب ہو گیا ۔ ادھر ہم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی پوری کر چکے مگر انھوں نے اس دنیامیں اپنے اس اجر (مال غنیمت)سے کوئی چیز نہیں کھائی…مصعب ؓ اُنہی لوگوں میں شامل ہیں، وہ یومِ اُحد کو شہید ہوئے تو انھیں کفن دینے کے لیے ایک چادر کے سوا کچھ نہ تھا ۔ہم اس چادر سے ان کا سر ڈھانپتے تو پائوں ننگے ہو جاتے اور پائوں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا…رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا:''چادر کو ان کے سر کی جانب سے اوپر ڈال دو اور قدموں پر اذخر گھاس ڈال دو''۔رسول اللہ ﷺنے ارضِ معرکہ میں ان تمام لوگوں (شہدائ) کو بآوازبلند پکارا جو حضرت مصعب ؓ کے ساتھ تھے :''اللہ کا رسول بلا شک و شبہ یہ شہادت دیتا ہے کہ تم قیامت کے روز اللہ کے حضور حقیقی شہدا ء ہو گے۔''پھر آپ ﷺ اپنے صحابہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا''لوگو!اِن شہداء کی زیار ت کرو، ان کے پاس آئو، ان پر سلام بھیجو،اُس اللہ کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ، قیامت تک جس نے بھی اُن پر سلام بھیجا وہ اسے جواب دیں گے۔
گوگل سرچ انجن میں تبدیلی
گوگل کمپنی نے اپنے معروف سرچ انجن میں تلاش کے حوالے سے بڑی تبدیلیاں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ گوگل کے حریف بِنگ سرچ انجن میں بہتری لائے جانے کی خبروں کے بعد سامنے آیا ہے۔گوگل کی تلاش کرنے کی صلاحیت میں بہتری اور نئی تبدیلیوں کو اس معروف انٹرنیٹ کمپنی نے 'نالج گراف' کا نام دیا ہے۔ گوگل کے مطابق اب اس کے نئے الگورتھم یا تخمینہ لگانے کے طریقے یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ لوگ دراصل کیا تلاش کرنا چاہ رہے ہیں۔ اپنے اندازے یا تخمینے کے مطابق اب گوگل نتائج دکھانے والے صفحے پر چند بنیادی سوالات بھی دکھائے گا۔ صارف اپنی درست ترین مطلوبہ معلومات کے حصول کے لیے ان میں سے کسی بھی سوال کو کلک کر سکتا ہے۔گوگل کے نائب صدر اول برائے انجینئرنگ امیت سنگھال نے اس حوالے سے اپنے بلاگ پر لکھا ہے، '' ہمارا یہ یقین ہے کہ ایک بہترین سرچ انجن میں یہ سمجھنے کی صلاحیت ہونی چاہیے کہ آپ دراصل کیا تلاش کرنا چاہتے ہیں۔'' سنگھال اپنے بلاگ میں مزید لکھتے ہیں، ''اب ہم بعض اوقات آپ کے پوچھنے سے قبل ہی آپ کے اگلے سوال کا جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ جو نتائج ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ ان حقائق پر مشتمل ہوں گے جو اس سے قبل لوگ تلاش کر چکے ہوں گے۔سنگھال کے مطابق انٹرنیٹ کی مجموعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے 'نالج گراف' دراصل آپ کے سوالات کے جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ہالی وُڈ کے معروف اداکار ٹام کروز کے بارے میں کچھ ڈھونڈتے ہیں تو نالج گراف لوگوں کی طرف سے پہلے کی گئی تلاش کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کے اگلے ممکنہ سوال کا 37 فیصد تک درست اندازہ لگا سکتا ہے۔گوگل کے شعبہ انجینئرنگ کے سینئر وائس پریزیڈنٹ سنگھال مزید کہتے ہیں، ''یہ سب کچھ خوابوں خیالوں کی بات معلوم ہوتی تھی اور ہمیں دراصل اندازہ نہیں تھا کہ یہ مقصد حاصل کیسے کیا جائے، لیکن بالآخر ہم نے یہ مسئلہ حل کر ہی لیا۔گوگل کے مطابق نئی معلومات روایتی سرچ رزلٹس والے پیج پر ہی ایک علیحدہ پینل میں دکھائی دیں گی۔ گوگل کے مطابق بہتر بنایا گیا گوگل سرچ انجن ابتدا میں صرف امریکا کے انٹرنیٹ صارفین کو ہی دستیاب ہوگا، تاہم بعد میں یہ دنیا ے دیگر ملکوں میں بھی دستیاب ہوگا۔گوگل کےپراڈکٹ منیجمنٹ کے شعبے کے ڈائریکٹر جیک مینزل کے مطابق 'نالج گراف' کے ابتدائی ورژن میں 500 ملین افراد، مقامات اور چیزوں کے بارے میں معلومات موجود ہیں، جن کی مدد سے یہ 3.5 بلین مختلف کیٹیگریز ترتیب دے سکتا ہے۔صرف امریکا میں اس وقت انٹرنیٹ کے دو تہائی صارفین گوگل سرچ انجن استعمال کرتے ہیں، جبکہ مائیکروسافٹ کے سرچ انجن بِنگ کو استعمال کرنے والوں کی شرح محض 15 فیصد ہے۔ مائیکروسافٹ گوگل اور بِنگ کے درمیان اس فرق کو ختم کرنے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کر رہا ہے۔
ہوشیار خبردار ،ڈیٹا چرانے والا خطرناک وائرس فلیم کا حملہ
محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے سائبر حملے کا پتہ چلایا ہے جس کی مدد سے ایران اور اسرائیل جیسے ممالک سے حساس معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔روسی سکیورٹی فرم کیسپراسکائی لیبز نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ حملہ 'فلیم' نامی وائرس پروگرام کی مدد سے کیا گیا جو کہ اگست دو ہزار دس سے انٹرنیٹ پر سرگرم ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے خیال میں اس سائبر حمل کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی لیکن وہ اس کے اصل ماخذ کا پتہ نہیں چلا سکے ہیں۔انہوں نے 'فلیم' کو اب تک سامنے آنے والے سب سے پیچیدہ سائبر حملوں میں سے ایک قرار دیا ہے اور اس سے متاثرہ ممالک میں ایران، اسرائیل، سوڈان، شام، لبنان، سعودی عرب اور مصر شامل ہیں۔خیال رہے کہ ماضی میں بھی ایران کے جوہری ڈھانچے پر 'سٹکس نیٹ' وائرس کی مدد سے سائبر حملہ کیا گیا تھا جس سے ایران کے جوہری پروگرام کی رفتار متاثر ہوئی تھی۔'فلیم' سائبر حملے پر ہونے والی تحقیق میں کمپنی کا ساتھ اقوامِ متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے دیا۔یہ دونوں ادارے ماضی میں وائپر نامی وائرس پروگرام پر بھی تحقیق کرتے رہے ہیں جس نے مغربی ایشیا میں کمپیوٹرز کا ڈیٹا ختم کر دیا تھا۔کیسپرا سکائی کے سینیئر ماہر ویٹالی کاملک کے مطابق ' یہ نیا پروگرام بظاہر ہارڈ ویئر کو تو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ حساس معلومات اکٹھی کرتا ہے'۔ان کے مطابق جب کوئی سسٹم اس پروگرام سے متاثر ہو جاتا ہے تو فلیم بہت سے پیچیدہ آپریشنز شروع کر دیتا ہے جن میں نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی، سکرین شاٹس لینا، صوتی بات چیت ریکارڈ کرنے کے علاوہ کی بورڈ کی مدد سے ٹائپ کی گئی معلومات کا ریکارڈ رکھنا بھی شامل ہیں'۔ویٹالی کاملک کے مطابق اس سائبر حملے میں چھ سو سے زائد مخصوص اہداف کو نشانہ بنایا گیا جن میں مختلف افراد کے علاوہ، کاروباری اور تعلیمی ادارے اور حکومتی سسٹمز بھی شامل ہیں۔'فلیم' کا حجم بیس میگا بائٹ ہے جو کہ سٹکس نیٹ وائرس سے بیس گنا زیادہ ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے تجزیے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔اس وائرس میں ڈیٹا چرانے کی کچھ غیر معمولی صلاحیتیں بھی موجود ہیں جیسا کہ یہ سسٹم سے بلیو ٹوتھ کی مدد سے جڑنے والے آلات سے بھی معلومات چرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔سٹکس نیٹ کی طرح یہ پروگرام بھی یو ایس بی سٹک کی مدد سے پھیلایا جا سکتا ہے اور اسے نیٹ ورک سے متصل ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تاہم ضرورت پڑنے پر اس میں یہ صلاحیت بھی موجود ہے۔ویٹالی کاملک کے مطابق اس وائرس کے حجم اور اس کی نفاست سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی سائبر مجرم کا انفرادی فعل نہیں بلکہ اسے ممکنہ طور پر حکومتی سرپرستی حاصل تھی۔انہوں نے کہا کہ 'آج کل سائبر حملوں اور جاسوسی کے لیے استعمال ہونے والے پروگرام بنانے والوں کی تین اقسام ہیں; ہیکر ایکٹوسٹ، سائبر مجرم اور حکومتیں'۔ویٹالی کا کہنا تھا کہ 'فلیم کھاتوں سے رقم کی چوری کے لیے نہیں بنایا گیا اور یہ ہیکنگ کے عام پروگراموں سے بھی بالکل مختلف ہے چنانچہ سائبر مجرموں اور ایکٹوسٹس کو الگ کرنے کے بعد ہم اس نیتجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تیسرے فریق کا کام ہے'۔سرے یونیورسٹی کے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ایل وڈورڈ کا کہنا ہے کہ یہ سائبر حملہ بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'یہ حساس معلومات کا ویکیوم کلینر ہے'۔ان کا کہنا تھا کہ سٹکس نیٹ وائرس صرف ایک مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کے برعکس فلیم ایک بہت بہتر وائرس پروگرام ہے۔ان کے مطابق 'جہاں سٹکس نیٹ کا مقصدِ حیات صرف ایک تھا، فلیم ایک 'ٹول کِٹ' ہے اور اس کی مدد سے آپ جسے چاہے نشانہ بنا سکتے ہیں۔
امریکہ:2016ء تک انٹرنیٹ ٹریفک کاحجم1.3 زیٹا بائٹس تک پہنچ جانے کا امکان
ایک تازہ سروے کے مطابق موبائل انٹرنیٹ ڈیوائسز اور ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے باعث سال 2016ء تک دنیا بھر میں انٹرنیٹ ٹریفک میں موجودہ حجم کے مقابلے میں چار گنا تک اضافہ ہو جائے گا۔نیٹ ورکنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف امریکی کمپنی سسکو کے 'وژیول نیٹ ورکنگ انڈیکس' کے مطابق 2016ء تک عالمی انٹرنیٹ ٹریفک کا حجم 1.3 زیٹا بائٹس تک پہنچ جائے گا۔ ایک زیٹا بائٹ ایک ٹریلین گیگا بائٹ کے برابر ہوتا ہے۔یہ حجم سال 2011ء میں انٹرنیٹ ٹریفک کے مقابلے میں چار گنا ہے۔سسکوکے مطابق اس حیران کن اضافے کی وجہ ٹیبلٹ کمپیوٹرز، اسمارٹ فونز اور ایسی دیگر ڈیوائسز کا مسلسل تیزی سے بڑھتا ہوا استعمال ہے جن پر انٹرنیٹ استعمال ہوتا ہے۔سسکو کمپنی کے نائب صدر سوراج شیٹھی کے مطابق، '' ہر وقت انٹرنیٹ سے منسلک رہنے والے لائف اسٹائل میں ہم میں سے ہر ایک متعدد ڈیوائس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نیٹ ورک سے جڑتا جا رہا ہے۔'' شیٹھی مزید کہتے ہیں، ''بھلے وہ موبائل فون پر ویڈیو کال ہو، ٹیبلٹ کمپیوٹرز پر فلمیں دیکھنے کا عمل ہو، ویب سے منسلک ٹیلی وژن سیٹ ہوں یا ویڈیو کانفرنسنگ کا عمل، ہمارے ایسے معمولات نہ صرف زیٹابائٹ بینڈ وڈتھ کی ضرورت کو بڑھا رہے ہیں بلکہ اس مقصد کے لیے درکار نیٹ ورک میں بھی ڈرامائی تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔تاکہ مسلسل بڑھتی ہوئی ضروریات سے عہدہ برآ ہوا جا سکے۔اندازوں کے مطابق 2016ء تک دنیا بھر میں انٹرنیٹ کنکشنز کی تعداد 18.9 بلین تک پہنچ جائے گی۔ یعنی دنیا میں موجود ہر ایک فرد کے لیے اوسطا 2.5 کنکشن۔ 2011ء میں انٹرنیٹ کنکشنز کی یہ تعداد 10.3 بلین تھی۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2016ء تک دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 3.4 بلین تک پہنچ جائے گی۔ یہ تعداد اس وقت تک متوقع کُل آبادی کا قریب 45 فیصد ہوگی۔اگلے چار برسوں کے دوران صرف انٹرنیٹ ٹریفک کے حجم میں ہی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ فکسڈ لائنز پر انٹرنیٹ کی رفتار بھی موجودہ رفتار کی نسبت چار گنا تک بڑھنے کی توقع ہے۔ 2011ء میں یہ رفتار نو میگابائٹ فی سیکنڈ تھی، جبکہ اندازے کے مطابق 2016ء تک یہ رفتار 34 میگابائٹ فی سیکنڈ تک پہنچ جائے گی۔
کہکشاؤں کا تصادم چار ارب سال بعد
ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ تقریباً چار ارب سال کے بعد ہماری کہکشاں ملکی وے اپنی ہمسایہ کہکشاں اینڈرومیڈا سے ٹکرا جائے گی۔ماہرین نے یہ نتیجہ نکالنے کے لیے ہبل دوربین کی مدد لی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ لاکھوں نوری سال دور واقع یہ دونوں کہکشائیں اپنی اپنی کششِ ثقل کی وجہ سے ایک دوسرے کی جانب کھنچی چلی جا رہی ہیں اور چار ارب سال بعد یہ آپس میں ٹکرائیں گی اور اس کے دو ارب سال بعد یہ ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گی۔ماہرین کے مطابق اس تصادم کے نتیجے میں ہمارے سورج کی پوزیشن پر تو اثر پڑے گا لیکن خود سورج اور اس کے سیاروں کی تباہی کا امکان موجود نہیں ہے۔ماہرین کی ٹیم کے سربراہ اور امریکی ریاست بالٹی مور کے خلائی دوربینی سائنسی مرکز سے تعلق رکھنے والے رولینڈ وین ڈرمیرل کا کہنا ہے کہ ' آج اینڈرومیڈا نامی یہ کہکشاں آسمان پر ایک چھوٹی سی چیز دکھائی دیتی ہے اور اسے پہلی بار ماہرینِ فلکیات نے ایک ہزار سے زائد عرصہ قبل دیکھا تھا'۔ان کا کہنا ہے 'چند ہی چیزیں ہیں جن میں انسان کی دلچسپی کائنات کی قسمت اور اس کی مستقبل کے بارے میں جاننے سے زیادہ ہے اور یہ پیشن گوئی کرنا کہ یہ چھوٹی سی چیز(اینڈرومیڈا) ایک دن ہمارے سورج اور نظامِ شمسی پر غلبہ پا لے گی یقیناً ایک اچھوتی چیز ہے'۔ملکی وے اور اینڈرومیڈا میں پچیس لاکھ نوری سال کا فاصلہ ہے اور یہ ایک دوسرے کی جانب چار لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھ رہی ہیں۔ماہرینِ فلکیات کے مطابق چار ارب سال کے بعد یہ دونوں اتنی قریب آ جائیں گی کہ اینڈرومیڈا ہماری کہکشاں پر غالب آ جائے گی۔رولینڈ وین ڈرمیرل کے مطابق 'یہ جاننا ضروری ہے کہ نہ صرف اینڈرومیڈا ہماری جانب بڑھ رہی ہے بلکہ یہ اپنے اطراف کی جانب کیسے حرکت کر رہی ہے کیونکہ اسی سے پتہ چل سکتا ہے کہ آیا اینڈرومیڈا ہم سے کچھ دور سے نکل جائے گی یا وہ سیدھی ہماری جانب ہی آ رہی ہے'۔ماہرینِ فلکیات اینڈرومیڈا کی اطراف میں حرکت کو جانچنے کی کوشش ایک صدی سے کر رہے تھے لیکن اس میں ناکامی ہوتی رہی جس کی وجہ پیمائش کے لیے درکار صلاحیت کی عدم موجودگی تھی۔رولینڈ کے مطابق 'اب پہلی مرتبہ ہم نے ہبل خلائی دوربین کی مدد سے اس کی اطراف میں ہونے والی حرکت کو جسے علمِ فلکیات میں باقاعدہ حرکت کہا جاتا ہے، ناپنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ہبل سے حاصل شدہ اعدادوشمار سے تیار کیے گئے کمپیوٹر ماڈل سے پتہ چلا کہ ستاروں کے یہ دونوں بڑے جھرمٹ آخرِ کار ایک ہوجائیں گے۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ کہکشاؤں کے تصادم کے باوجود ان کے ستارے آپس میں نہیں ٹکرائیں گے کیونکہ ان کے درمیان وسیع خلاء موجود ہے۔ماہرین کے مطابق سات ارب سال میں یہ ادغام ایک بہت بڑی کہکشاں کی شکل اختیار کر لے گا جس کا مرکز منور ہوگا۔
مچھر سے مشابہہ جان لیوا ڈرون متعارف
مچھروں کو انسانی اموات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے خطرناک کیڑا مانا جاتا ہے امریکی سائینسدانوں نے اس سے مشابہہ جان لیوا مشین بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب پاکستانی علاقوں میں میزائل برسانے والے یا برندوں کے حجم کے ڈرونز کو بھول جائیں کیونکہ امریکہ نے اب مچھر ڈرونز بنانا شروع کر دیئے ہیں۔ امریکی فضائیہ نے مائیکرو جاسوس طیارے متعارف کرائے ہیں جو مکھیوں اور مچھروں کے برابر ہیں جن کی موجودگی کا عام لوگ نوٹس نہیں لیں گے۔ یہ مچھر کے سائز والے ڈرون طیارے رواں برس سے کام کرنا شروع کر دیں گے اور تصاویر کھینچنے کے ساتھ ساتھ یہ خطرناک جراثیم بھی دشمن کے علاقوں میں پھیلائے گے۔اس کے علاوہ امریکی فضائیہ اسی نوعیت کے بمبار ڈرونز کی تیاری پر بھی کام کررہی ہے جو 2015 تک تیار ہو جائیں گے۔ مستقبل میں ڈرون طیاروں کا سائز مچھر، مکھی یا تتلی کے برابرہوجائے گا تاہم ان کی سفاکی کئی گنابڑھ جائےگی۔ مائیکرو ایئر وہیکلز نامی ان ننھے منے حشرات نما ڈرون طیاروں کی امریکا میں نمائش کی جاچکی ہے اوران کی تیاری پر بھی کام جاری ہے۔ شمسی توانائی سے اڑنے والے یہ طیارے دوہزارپندرہ تک امریکی فوج کا حصہ بن جائیں گے۔ یہ ننھے ڈرون نہ صرف ٹارگٹ کی انتہائی قریب سے نگرانی کر سکیں گے بلکہ ان کی تصاویراور مقام کی درست معلومات بھی ہیڈکوارٹرکو بھیجیں گے۔ نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کئے گئے مکھی یا مچھر جتنے یہ ڈرون دوسرے کاموں کے دوران بھی دہشتگردوں کو نشانہ بنا سکتےہیں۔ مچھرنما ایک ایسا ڈرون بھی بنا لیا گیا ہے جس کے منہ پر سرنج لگی ہوتی ہے جس میں موجود انتہائی مہلک زہر کسی بھی شکار کو با آسانی موت کےگھاٹ اتار سکتا ہے۔
کیا آپ کا پاسورڈ ہیکرز کی گرفت سے محفوظ ہے۔۔؟؟
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کیآپ کا پاسورڈ کتنا مضبوط ہے۔۔؟کیا آپ کا پاسورڈ ہیک نہیں ہو سکتا۔۔؟یہ ان کیلئے ایک عام سا سوال ہے جن کیلئے آن لائن اکاؤنٹ کوئی معنی نہیں رکھتا۔۔لیکن ان کیلیئے بہت ہی زیادہ اہم جو آن لائن اکاؤنٹ کو دوسروں سے رابطہ کیلیئے استعمال کرتے ہیں۔کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا پاسورڈ کتنا مضبوط ہے۔۔؟اگرآپ واقعی جاننا چاہتے ہیں تو آپ کیلیئے ایک آن لائن ٹول حاضر ہے۔۔۔اس ٹول کا نام ہے۔
How Secure Is My Password?
میرا پاسورڈ کتنا مضبوط ہے۔۔؟؟یہ ٹول آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کا پاسورڈ کتنا مضبوط ہے۔۔۔؟؟آپ کے پاسورڈ کو ہیک کرنے کیلیئے ایک عام کمپیوٹر کو کتنا عرصہ لگے گا۔۔؟؟میں نے اس کے ذریعے ایک پاسورڈ کو چیک کیا۔ٹول کے مطابق اس پاسورڈ کو ہیک کرنے کیلیئے عام کمپیوٹر کو 256 ملین سال لگیں گے۔۔۔
نوٹ: اس طرح کی سائٹس کہتی ہیں کہ "ہم کسی قسم کی معلومات یا پاسورڈ سٹور نہیں کرتے"۔
لیکن اپنے تحفظ کیلیئے آپ اپنے اصلی پاسورڈ کا ملتا جلتا پاسورڈ ٹرائی کریں۔جیسا کہ اگر آپ کا پاسورڈمیاں جی ہے تو آپ ابرار 874 ٹرائی کرسکتے ہیں۔
اسطرح آپ کو یہ پتہ چل سکتا ہے کہ ہندسوں اور الفاظ کے ملاپ سے پاسورڈ کتنا مضبوط ہوسکتا ہے۔
لنک یہ ہے
http://howsecureismypassword.net
آپ یہاں کلک کرکے مائیکرو سافٹ کا پاسورڈ چیکر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
لنک یہ ہے
https://www.microsoft.com/security/pc-s ... ecker.aspx
لوگوں کو خاموش کر دینے والا سائنسی آلہ۔
جاپان کے سائنسدانوں نے حال ہی میں دعویٰ کیاہے کے انہوں نےایک ایسا آلہ تیار کیا ہے جس سے کسی بھی فرد کی بولنے کی صلاحیت کواچانک روکا جاسکتا ہے اس آلے کوسپیچ جیمر کا نام دیا گیا ہے۔ جو کہ کسی بھی وقت زیادہ بولنے والوں کو اچانک خاموش کر سکتا ہے خبر رساں ایجنسی کے مطابق سائیسدانوں نےکہا کہ سپیچ جیمر نام کا یہ آلہ زیادہ بولنےوالوں کو اچانک خاموش کر سکتا ہے چاہے وہ کسی میٹنگ یا فلم کے دوران شورکررہےہوں یا پھرلائبریری میں فون پراونچی آواز میں بات کر رہے ہوںاس آلے کو بنانے والوں نے ماہرین نفسیات کی اس دریافت کافائدہ اُٹھایا ہےجب آپ ہی کے الفاط صرف ایک سیکنڈ کی تاخیرکے بعد دوہرائے جاتے ہیں تو آپ بات کرنےمیں تقریباغیر فعال ہوجاتے ہیں اس آلے کو ہاتھہ میں پکڑا جاسکتا ہے اس میں ایک مائیکروفون اور سپیکر ہےجو بولنےوالے کی آواز کو ریکارڈ کرتا ہےسائنسدانوں کا کہنا ہے کے یہ اس آواز کو سپیکر کو بھیج دیتا ہےاور اسے 0.2 سیکنڈکی تاخیر کے بعد دوبارہ سناتاہےمائیکروفون اور سپیکر کی ایک سمت ہوتی ہے اور دور ہی اسے بندوق کی طرح بولنے والے کی طرح کیا جاسکتا ہے
دُنیا کا سب سے چھوٹا اور تیز ترین گیگاپکسل کیمرا
امریکی انجینیئروں نے دُنیا کا سب سے چھوٹا اور تیز ترین گیگاپکسل کیمرا بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ہوائی اڈوں کی سکیورٹی اور عسکری نگرانی کے ساتھ آن لائن اسپورٹس کوریج کو بہتر کرنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس نئے گیگا پکسل کیمرے کا سائز بیڈسائیڈ کیبینیٹ کے برابر بتایا گیا ہے، جو قبل ازیں دستیاب کیمروں کے مقابلے میں لی گئی تصویر کو ایک ہزار گنا زیادہ تفصیل سے دکھا سکتا ہے۔ایک پِکسل دراصل کسی ڈیجیٹل تصویر میں ایک چھوٹا لائٹ پوائنٹ ہے اور پکسلز کے کثیر مجموعے سے ہی ایک تصویر تشکیل پاتی ہے۔دورِ حاضر کے کیمروں سے لی گئی تصاویر کا پیمانہ میگا پکسلز (دس لاکھ پکسلز) ہیں اور عام کیمرا آٹھ سے چالیس میگاپکسلز تک ہوتا ہے۔ ایک گیگاپکسل ایک ہزار میگا پکسلز سے بنتا ہے اور اس میں ایک ارب پکسلز ہوتے ہیں۔اِن دنوں زیادہ تر گیگاپکسل امیجز متعدد میگاپکسل تصاویر کو کمپیوٹر کے ذریعے باہم ملا کر بنائے جاتے ہیں۔نئے گیگاپکسل کیمرے کے بارے میں سائنسی تحقیق کے جریدے 'نیچر' میں تفصیل جاری کی گئی ہے۔ یہ کیمرا بنانے والی ٹیم کے رکن اور شمالی کیرولینا میں ڈیوک یونیورسٹی سے وابستہ ڈیوڈ بریڈی نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا: ''ہمارا کیمرا ایک سیکنڈ کے دسویں حصے سے بھی کم وقت میں ایک گیگاپکسل تصویر ریکارڈ کرتا ہے۔گیگاپکسل امیج میں وہ تفصیل بھی دکھائی دیتی ہے جو انسانی آنکھ سے اوجھل ہو اور بعدازاں 'زُوم اِن' کے ذریعے واضح طور پر اس کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔۔ اس کا آپٹیکل سسٹم چھ سینٹی میٹر اورگیند کی شکل کے لینس پر مشتمل ہے جس کے گرد اٹھانوے مائیکرو کیمرے لگے ہیں اور ہر کیمرا چودہ میگاپِکسل سینسر کے ساتھ ہے۔بریڈی کا کہنا ہے کہ اس کیمرے کے آپٹیکل سسٹم کا وزن دس کلوگرام ہے جبکہ کیمرا مجموعی طور پر پینتالیس کلوگرام وزنی ہے۔بریڈی کہتے ہیں کہ اجرامِ فلکی کے مشاہدے کے لیے انتہائی خاص نوعیت کی گیگاپکسل دُور بینیں اور فضائی نگرانی کے آلات پہلے سے ہی استعمال میں ہیں، تاہم نئے کیمرے کے مقابلے میں ان کا سائز زیادہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایسے کیمرے کی قیمت ہائی ریزولوشن مووی کیمرے کے برابر ہو گی، یعنی ایک لاکھ ڈالر سے ڈھائی لاکھ ڈالر تک۔بتایا جاتا ہے کہ پانچ سال میں قیمتیں نیچے آ سکتی ہیں، جس کے بعد دستی گیگاپکسل کیمرے بھی متعارف کروائے جا سکتے ہیں۔بریڈی کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کھیلوں کے مقابلے اسٹریمنگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر دکھانے کے لیے استعمال ہو سکتی ہے جس کی مدد سے ناظرین کھیل کو کسی بھی پہلو سے زُوم اِن کر کے دیکھ سکیں گے۔