وہ سب بابا جی کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے - ان میں سے ایک بڑی عمر کا آدمی ہاتھ باندھ کر بولا
" حضور! ہم لیہ سے آئے ہیں اور سرکار کی چوکی بھرنا چاہتے ہیں ، ہم اپنے علاقے کے مشہور قوال ہیں - لیکن اب وہاں کوئی کام نہیں رہا - حضور سے دعا کرانے آئے ہیں - "
دوسرے نے کہا ، " حضور ہمارے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہیں ............! " وہ آگے بھی کچھ کہنا کھاتا تھا مگر اس کا گلہ بند ہوگیا اور رگیں پھول سے گئیں -
ڈیرے پر موجود ایک صاحب نے کہا " اوئےاول تو لیہ میں قوال نہیں ہوتے ، دوسرے تمہاری شکلیں اور وجود ایسے ناقص ہیں کہ کم از کم تم قوال نہیں ہو سکتے - "
اتنے میں بابا جلال لنگر کے سامان کی چنگیر لے کر پہنچ گیا - قوالوں کے پیشوا نے کہا ، " حضور کھانا تو ہم کھا کے آئے ہیں - "
بابا جی نے کہا ، " تم جان کار ہو بھائی ڈیروں پر کھانا کھا کے آیا نہیں کرتے - آ کے کھایا کرتے ہیں - اب کچھ نہ کچھ تو چکھنا پڑیگا - ورنہ ہماری ریت ٹوٹ جائیگی - "
ان سب نے بسم الله ! بسم الله !! کہ کر سالن کے کٹورے اپنے سامنے رکھ لئے اور روٹیاں ہاتھ میں پکڑ کر بیٹھ گئے -
صاف دکھائی دیتا تھا کہ وہ بھوکے ہیں - آج کے نہیں ، اس دن کے جب سے انھوں نے سفر شروع کیا تھا -
کھانا کھا چکنے کے بعد بابا جی نے ان سے کہا " لو بھئی ابھی چوکی بھر لو ، پھر سب کو اپنے اپنے کام پر جانا ہے - حاضری کم ہوگئی تو تم لوگوں کو مزہ نہیں آئے گا - "
قوالی کا ٹیک آف شروع ہو گیا - بابا جی نے جھوم کر اور سر ہلا کر انھیں داد دی وہ شہ پر کر اور بھی گرم ہوگئے -
سیکریٹری صاحب نے جیب سے ایک روپیہ نکل کر اور ہاتھوں کے کٹورے میں رکھ کر بابا جی کے سامنے پیش کیا ، پیشتر اس کے کہ بابا جی اسے اچھی طرح ہاتھوں کے تصرف میں کرتے ہیڈ قوال اسے اچک کر سلام کرتا ہوا پچھلے پاؤں اپنی صف میں پہنچ گیا -
پھر بابا جی نے اپنی گودڑی سے پانچ روپے کا نوٹ نکال کر اپنی چٹکی میں پکڑا اور ہیڈ قوال اسے چٹکی سے کھینچا مار کے لے گیا -
بابا جلال نے بھی حضور کی وساطت سے ایک روپیہ دیا ، لیکن زیادہ تر بابا جی ہی رقم لاتے اور اڑاتے رہے -
بابا جی پھر اندر گئے اور نوٹوں سے جیبوں کو بھر لائے -
میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے انھیں کچھ کہا تو نہیں ، البتہ ایک دوسرے سے نگاہیں ملا کر بابا جے کے اس فعل پر خاموش تنقید ضرور کی -
میں جب بھی ان قوالوں کی آواز ، ادائیگی ، یا کلام پر ناک بھوں چڑھاتا (صاف ظاہر تھا انھیں قوالی نہیں آتی تھی )
بابا جے روپے کا ، پانچ کا یا دس کا نوٹ میری طرف بڑھا کر سر سے اثبات کا اشارہ کر کے فرماتے " جاؤ اور جا کر انھیں دے آؤ " میں طوعاً و کرہاً اپنی جگہ سے اٹھتا ، اور ہیڈ قوال صاحب کی جھولی میں نوٹ پھینک کر واپس آجاتا -
جب سارے سامعین نے اور خاص طور پر ڈیرے کے سارے اسٹاف نے لیہ سے آنے والے ان مصنوئی قوالوں کی کارکردگی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے سے نظریں ملا کر ناراض سے چہرے بنائے تو میں نے بابا جی کی طرف جھک کر کہا ! " سماع مذھب میں جائز ہے ؟"
بابا جے نے میری طرف غور سے دیکھا اور اپنا بھاری بھرکم ہاتھ میری کلائی پر رکھ کر بولے !
" ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہیں ، اور یہ بڑی دور سے بڑی آس لے کر آئے ہیں ، اگر تو اس قوالی سے ان کے اہل و عیال کا کچھ بن جائے تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے - "
از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٣٣٨
All about Pakistan,Islam,Quran and Hadith,Urdu Poetry,Cricket News,Sports News,Urdu Columns,International News,Pakistan News,Islamic Byan,Video clips
Monday, June 18, 2012
Ashfaq Ahmad In Zavia Program.....!!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment