Monday, June 25, 2012

دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلیفہ کو منحوس قرار دے دیا گیا

متحدہ عرب امارات میں قائم دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلفیہ میں مقیم افراد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بلند ترین ٹاور میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے آسان پتہ ہے ۔برج خلیفہ متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں واقع ہے۔ اس بلند ترین عمارت کی لمبائی آٹھ سو اٹھائیس میٹر یعنی ستائیس سو سترہ فٹ بتائی جاتی ہے۔ یہ عمارت ایک سو ساٹھ منزلوں پر مشتمل ہے۔اس ٹاور میں قائم منزلوں کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اوپر والی منزلوں کو رہائیشی فلیٹس کے لیے مختص کیا گیا ہے ، درمیان میں مختلف اداروں کے دفاتر قائم ہیں جبکہ نچلی منزلوں میں فائیو سٹار ہوٹل اور ریسٹورنٹس واقع ہیں۔تقریباً دو سال قبل تعمیر ہونے والی اس عمارت میں پاکستانی اور ہندوستانی خاندان بھی رہائیش پزیر ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ برج خلیفہ میں چار سے پانچ کے قریب پاکستانی خاندان مقیم ہیں جبکہ ہندوستانیوں کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے۔ان رہائشیوں میں پنڈ دادن خان ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی نژاد کنیڈئین شہری عارف مرزا بھی شامل ہیں جو پچھلے دو سالوں سے برج خلیفہ میں فیملی سمیت مقیم ہیں۔ وہ تجارت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ برج خلفیہ میں رہنا ان کو 'اس لیے پسند ہے کیونکہ یہ دنیا کا سب آسان پتہ ہے جسے ہر ملک کا شہری با آسانی ڈھونڈ سکتا ہے۔'آصف مرزا برج خلیفہ کے رہائشی ہیںانہوں نے کہا کہ جب آپ کسی کو یہ بتاتے ہیں کہ برج خلیفہ میں رہتے ہیں تو ان کےلیے یہی کافی ہے اور مزید بتانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ دنیا کے تقریباً تمام پڑھے لکھے افراد کو اس عمارت کے بارے میں بخوبی معلوم ہے۔
ان کے بقول اس عمارت کو تجارت پیشہ افراد کےلیے ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے کیونکہ بڑے بڑے تاجر یا تو خود یہاں رہتے ہیں یا پھر اس بلڈنگ میں واقع ہوٹلز میں مقیم ہوتے ہیں۔
عارف مرزا کے مطابق اس بلڈنگ میں دنیا کے بڑے بڑے تاجروں، سربراہان مملکت، یورپ کے فٹ بال کھلاڑیوں، بین الاقوامی کرکٹرز، ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کے اداکاروں اور گلوکاروں کے فلیٹ واقع ہیں۔انٹرنیٹ سے لی گئی معلومات کے مطابق برج خلیفہ میں دنیا کا سب سے محفوظ اور تیز ترین لفٹ کا سسٹم لگایا گیا ہے جبکہ اس میں آگ سے محفوظ رہنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔اس بلڈنگ کو زلزلے سے بھی محفوظ بنایا گیا ہے اور آسمانی بجلی سے بھی یہ عمارت متاثر نہیں ہو سکتی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عمارت کو اس جدید طرز سے تعمیر کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جہاز اس کو ٹکر بھی مارے تب بھی یہ عمارت ایک دم سے نہیں گرے گی بلکہ اس میں ایسا نظام موجود ہے کہ یہ عمارت سپرنگ کی طرح دور جاکر پھر اپنی جگہ پر واپس آجائے گی ۔عارف مرزا کا کہنا ہے کہ برج خلیفہ کے اندر بڑا اچھا سوشل ماحول ہے اور پوری دنیا کے افراد اسے دیکھنے آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں رہنے والوں کو باہر جانا نہیں پڑتا بلکہ روزمرہ کی زندگی کے تمام اشیاء یا تو بلڈنگ کے اندر موجود ہیں یا پھر ملحقہ عمارت دوبئی شاپنگ مال میں دستیاب ہے۔
ان کے مطابق ہر رہائیشی فلیٹ میں جدید مانٹیر لگے ہوئے ہیں جہاں سے پوری بلڈنگ میں ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔عارف مرزا نے مزید بتایا کہ برج خلفیہ میں سکیورٹی کا انتہائی موثر نظام موجود ہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے امیر کبیر لوگ اس عمارت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔دو سال پہلے جب اس عمارت کو پہلی مرتبہ عام لوگوں کےلیے کھولا گیا تو ان دنوں یہاں فلیٹ فروخت یا کرائے کےلیے دستیاب نہیں تھے، اگر فلیٹ یا دفتر کےلیے جگہ موجود بھی تھی تو قیمتیں اتنی زیادہ تھیں کہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کےلیے بھی اس کو رکھنا مشکل تھا لیکن اب عالمی کساد بازاری نے جہاں مجموعی طور پر متحدہ عرب امارات پر منفی اثرات چھوڑے ہیں وہاں اس کی اثر سے دنیا کی یہ بلند ترین عمارت بھی نہیں بچ سکی ہے۔ آجکل یہاں دو کمروں کا فلیٹ آٹھ سے دس ہزار ریال ماہانہ یعنی دو سے ڈھائی لاکھ روپے کے کرائے پر دستیاب ہے حالانکہ پہلے یہ کرائے ستر سے اسی ہزار ریال ہوا کرتے تھے۔ یہاں کچھ ایسے فلیٹس بھی ہیں جن کے کرائے لاکھوں ریال تک بتائے جاتے ہیں۔
برج خلیفہ کے بارے میں متحدہ عرب امارات میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کے خیالات بھی پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس عمارت کی وجہ سے یو اے ای کا پوری دنیا میں نام لیا جاتا ہے۔ جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس عمارت کا تعمیر ہونا اس ملک کےلیے منحوسیت اور بدبختی کی علامت ثابت ہوا ہے کیونکہ ان کے بقول جب اس بلڈنگ کی تعمیر شروع ہوئی تو امارات میں معاشی بحران پیدا ہوا۔

 

No comments:

Post a Comment