Sunday, December 16, 2012

ذہن خود غرض ہے تاریخ بتاتی ہے ہمیں

ذہن خود غرض ہے تاریخ بتاتی ہے ہمیں 
ذہن کو دل کا طرف دار نہ سمجھا جائے 

عشق میں خون کے آنسو ہی سند رکھتے ہیں 
آبلہ پائی کو معیار نہ سمجھا جائے 

وہ جو دو چار بدلتے ہیں مقدر سب کا 
ایسے دو چار کو دو چار نہ سمجھا جائے

شیخ تنقید کیا کرتا ہے مہ خانوں پر 
شیخ کو صاحب کردار نہ سمجھا جائے 

آزمائش سے گزرتی ہے محبت پہلے 
ایسے اقرار کو اقرار نہ سمجھا جائے 

اہل خانہ کے بھی تم غور سے چہرے دیکھو 
صرف دشمن پس دیوار نہ سمجھا جائے 

کیسا جملہ کہا فرہاد نے تیشہ رکھ کر 
عشق دشوار ہے دشوار نہ سمجھا جائے 

 

No comments:

Post a Comment