شہر میں کوئی دکان نہیں کھلی تھی، گلیوں میں کوئی ذی روح نہیں تھا، بس ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دانتوں پر دانت جماے چلتے جا رہے تھے، چلتے جا رہے تھے-
یہاں تک کہ ریلوے سٹیشن آگیا، ہم پلیٹ فارم پر آگیے، جہاں زندگی کے کچھ آثار تھے، ہم سب سے پہلے چائے کے کھوکھے پر گئے اور ہاتھی کا پتا پوچھا، جواب میں چائے والے نے قہقہہ لگا کر ہمیں آگے بھیج دیا-
ہم پان سگریٹ کی ریڑھی پر گئے اور ہاتھی طلب کیا اس نے قہقہہ لگایا اور ہاتھ سے ٹکٹ گھر کی طرف اشارہ کر دیا-
ہم بکنگ کلرک کے پاس گئے ،اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میرے بیٹے نے ہاتھی کا مطالبہ کر دیا، یہاں بھی نتیجہ تانبائی کی دکان سے مختلف نہ نکلا-
یہاں پہنچ کر علی زچ ہو گیا، اس نے منہ بسورتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے کھینچ کر ریلوے سٹیشن سے باہر لے آیا، ہم عین چوراہے میں کھڑے ہو گئے،
میں نے شفقت سے اس کے سرد ہوتے ہوئے گالوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر ہوا میں بوسہ دے کر پوچھا :
" بیٹا اب بتاؤ کہاں جائیں ؟"
علی نے اوپر میری طرف دیکھا اور پھر روہانسا ہو کر بولا:
"ابو میرا خیال ہے ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے-"
میں نے نیچے جھک کر اس کا مفلر درست کیا اور پھر اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
" ہاں یار میرا بھی ایسا ہی خیال ہے اگر تم کہو تو کل چڑیا گھر والوں سے پوچھ لیتے ہیں، اگر کہیں سے ہاتھی ملتا ہوگا تو جا کر خرید لیں گے کیوں؟"
"ہاں یہ ٹھیک ہے-" علی نے پر جوش لہجے میں کہااور ہم دونوں واپس گھر کی طرف چل پڑے -
میری بیوی اور میرے والد گھر کے باہر ہمارا انتظار کر رہے تھے، علی نے میرا ہاتھ چھڑایا اور بھاگ کر میرے والد کی ٹانگوں سے لپٹ گیا-
میرے والد نیچے جھکے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر بولے:
"کیوں پھر ہو آئے بازار سے ؟"
علی نے سر اوپر اٹھایا اور چلا کر بولا:
"دادا ابو، دادا ابو، ہاتھی دکانوں پر نہیں ملتے، اگر ملتے ہوتے تو میرے ابو مجھے ضرور خرید کر دیتے-"
ننھے علی کے یہ الفاظ میرے والد پر بم کی طرح گرے ، ان کے منہ سے چیخ نکل گئی اور میں اپنے آنسو چھپاتا ہوا اندر چلا گیا-"
دانشور نے روک کر آنکھوں پر رومال رکھ لیا -
جب خاموشی کا وقفہ ناقابل برداشت ہو گیا تو ہم میں سے ایک نے آنسوؤں کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا:
"یار آپ کے والد کے منہ سے چیخ کیوں نکلی تھی؟"
دانشور نے دبیز شیشوں والا چشمہ گود سے اٹھایا اور اسے اپنی ناک پر جما کر بولا:
"اس لئے کہ بچپن میں جب ایک بار میں نے ہاتھی خریدنے کی ضد کی تھی تو میرے والد نے تھپڑ مار مار کر میرے گال سرخ کر دے تھے-"
ہم تینوں خاموش تھے، ہم تینوں اپنے اپنے بچپن کے ہاتھی تلاش کر رہے تھے، ہم تینوں اپنے اپنے گال سہلا رہے تھے، ہم تینوں اپنے اپنے بچوں کو یاد کر رہے تھے-
از جاوید چودھری ، زیرو پوانٹ، عنوان: ذات کے خلا ، صفحہ نمبر 10
All about Pakistan,Islam,Quran and Hadith,Urdu Poetry,Cricket News,Sports News,Urdu Columns,International News,Pakistan News,Islamic Byan,Video clips
Wednesday, December 19, 2012
والدین کے نام ایک خاموش پیغام
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment