Friday, August 14, 2015

PAK ARMY ..

پاک فوج، عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے. اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدات کا دِفاع کرنا ہے.پاکستان فوج کا قیام ۱۹۴۷ میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجوقوت ہے۔انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز (International Institute for Strategic Studies-IISS)) کے مطابق اپریل ۲۰۱۳ میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت ۷،۲۵،۰۰۰ تھی۔اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال ۵،۵۰،۰۰۰ افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سرانجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ ۱۲،۷۵،۰۰۰افراد تک پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے. ۔پاکستان کے آئین کےآرٹیکل ۲۴۳کے تحت، پاکستان کے صدر افواج پاکستان بشمول پاکستانی بری فوج، کے سویلین کمانڈر ان چیف یا سپاہ سالار اعظم کا منصب رکھتے ہیں۔ آئین کے مطابق صدرپاکستان، وزیر اعظم پاکستان کے مشورہ و تائید سےچیف آف آرمی سٹاف پاکستان آرمی یا سپہ سالارپاکستان بری فوج کے عہدے کے لئیے ایک چار ستارے والے جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں۔فی الوقت پاک فوج کی قیادت جنرل راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف کررہے ہیں، جبکہ جنرل راشد محمود چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی زمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
^^^تاریخ^^^میں آزادی کے بعد سے پاک فوج بھارت سے ۳ جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔عرب اسرائیل جنگ ،عراق کویت جنگ ،اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امدادکے لئے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔حالیہ بڑی کاروائیوں میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات شامل ہیں۔
لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے. افریقی، جنوبی ایشیائی اور عرب ممالک کی افواج میں ا فواج پاکستان کا عملہ بطورِ مشیر شامل ہوتا ہے.
پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے۱۹۹۳ءمیں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کےدوران پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
۱۹۴۷-۱۹۵۸
پاکستان فوج ۳ جون ۱۹۴۷ کوبرطانوی ہندوستانی فوج یا برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔تب جلد ہی آزاد ہو جانے والی مملکت پاکستان کوچھ بکتر بند، آٹھ توپخانے کی اور آٹھ پیادہ رجمنٹیں ملیں، جبکہ تقابل میں بھارت کو ۱۲ بکتر بند، ۴۰ توپخانے کی اور۲۱ پیادہ فوجی رجمنٹیں ملیں۔
۱۹۴۷ء میں غیر منظم لڑاکا جتھے،سکاؤٹس اورقبائلی لشکر،کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارت کے بزور قوت قبضہ کے اندیشہ سےکشمیرمیں داخل ہوگئے۔ مہاراجہ کشمیر نے اکثریت کی خواہش کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا۔بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔یہ اقدام بعد میں پاک بھارت جنگ ۱۹۴۷ء کا آغاز ثابت ہوا۔ بعد میں باقاعدہ فوجی یونٹیں بھی جنگ میں شامل ہونے لگیں، لیکن اس وقت کے پاکستانی بری افواج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی کی قائد اعظم محمد علی جناح کےکشمیر میں فوج کی تعیناتی کے احکامات کی حکم عدولی کے باعث روک دی گئیں۔بعد ازاں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا شمال مغربی حصہ پاکستان کے ، جبکہ بقیہ حصہ بھارت کے زیر انتظام آ گیا۔
اس کے بعد، ۱۹۵۰ کی دہائی میں ، پاکستانی ا فوج کودو باہمی دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے بھاری اقتصادی اور فوجی امداد موصول ہوئی۔ یہ معاہدے معاہدہ بغداد یا بغداد پیکٹ ، جو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یا سینٹو کے قیام کی وجہ بنا، اورساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائیزیشن یا سیٹوسنہء ۱۹۵۴ میں ہوئے۔اس امداد کے نتیجے میں افواج پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ملا۔
۱۹۴۷ ء میں پاکستان کو صرف تین انفینٹری ڈویژن ملے، جن میں نمبر ۷،۸اور ۹ ڈویژن شامل تھے۔۱۰واں، ۱۲واں اور ۱۴واں ڈویژن ۱۹۴۸ میں کھڑا کیا گیا۔۱۹۵۴ ء سے پہلے کسی وقت۹وان ڈویژن توڑ کر ۶وان ڈویژن کھڑا کیا گیا، لیکن ۱۹۵۴ ہی کے بعد کسی وقت اس کو بھی ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ امریکی امداد کا صرف ایک بکتر بند یا آرمرڈ ڈ ویژن اور چھ انفینٹری ڈویژن کے لئے مخصوص ہونا تھا۔
۱۹۵۸-۱۹۶۹
پہلی بار پاکستانی فوج کی اقتدار میں شراکت جنرل ایوب خان کی 1958 میں ایک پر امن بغاوت کے ذریعےدیکھنے میں آئی .انہوں نے کنونشنل مسلم لیگ بنائی، جس میں مستقبل کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔
۶۰ کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے، اور اپریل ۱۹۶۵ میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگی جھڑپ بھی لڑی گئی۔۶ ستمبر ۱۹۶۵ کی رات، بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا، بلکہ ۱۲۰۰ کلومیٹر بھارتی علاقہ بھی فتح کر لیا۔پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی کی لڑائی کے دوران امداد نے پاکستانی دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی عمل میں آئی، اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا۔ بھارتی مفتوحہ علاقہ واپس کر دیا گیا۔
لائبریری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات ،جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے کئے ،کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے جنگی تقابل کے بعد ، نسبتاْکہیں زیادہ کمزور پاکستانی افواج کا بھارتی جارحیت کو محض روک لینا ہی مندرجہ بالا دعوے کی تردیدکے لئے کافی ہے۔
۱۹۶۸ اور ۱۹۶۹ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بعد انہوں نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے استعفٰی دے دیا، اورجنرل یحییٰ خان نےاقتدار ۱۹۶۹ میں سنبھال لیا۔
۱۹۶۶ سے ۱۹۶۹ کے درمیان ۱۶،۱۸ اور ۲۳ ڈویژن کھڑے کئے گئے۔۹ویں ڈویژن کا دوبارہ قیام بھی اسی عرصے میں عمل میں آیا۔
۱۹۶۹-۱۹۷۱
جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں روا رکھی گئی مبینہ سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زیادتیوں کے خلاف مقبول عوامی تحریک شروع ہوئی، جو بتدریج خلاف قانون بغاوت میں بدل گئی۔ان باغیوں کےخلاف۲۵ مارچ ۱۹۷۱ کو فوجی کاروائی کی گئی، جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام فوجی اور سیاسی بغاوت پر قابو پایا جانا تھا۔ مئی ۱۹۷۱ کو آخری بڑے مزاحمتی شہر پر قابو پانے کے بعد آپریشن مکمل ہو گیا۔
آپریشن کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا، لیکن سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔ آپریشن میں مبینہ جانی نقصانات بھی بے چینی میں اضافے کا باعث بنے۔
بد امنی دوبارہ شروع ہوئی، اور اس دفعہ بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نےلڑائی کی شدت میں اضافہ جاری رکھا، تاآنکہ بھارتی افواج نے نومبر ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان میں دخل اندازی شروع کر دی۔ محدود پاکستانی افواج نے نا مساعد حالات میں عوامی تائید کے بغیر اس جارحیت کا مقابلہ جاری رکھا۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی افواج کا جوابی حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن بالآخر ۱۶ سمبر۱۹۷۱ کو ڈھاکہ میں محصور پاکستانی افواج کو لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔
۱۹۷۱-۱۹۷۷
۱۸ دسمبر ۱۹۷۱ کو بھٹو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس ، جہاں وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف حمایت حاصل کرنےکی کوشش کر رہے تھے، سے بذریعہ خصوصی پی آئی اے کی پرواز واپس بلائے گئے، اور ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ کو انہوں نے بطور صدر پاکستان اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار سنبھال لیا۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے وسط میں سول حکومت کے ایما پر بلوچستان میں غیرملکی اشارے پر بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوجی کاروائی بھی کی گئی۔
۱۹۷۷-۱۹۹۹
۱۹۷۷ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاءلحق نےعوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ذولفقار علی بھٹو کو ایک سیاستدان قصوری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا دی۔ جنرل ضیاء موعودہ ۹۰ دن میں انتخابات کروانے میں ناکام رہے، اور۱۹۸۸ میں ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے تک بطور فوجی حکمران حکومت جاری رکھی۔
۱۹۸۰ میں پاکستان نے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھافغان مجاہدین کو جارح روسی افواج کے خلاف ہتھیاروں، گولہ بارود اور جاسوسی امداد جاری رکھی-
پہلی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے ممکنہ عراقی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے لئے افواج فراہم کیں۔
^^^چیف آف آرمی سٹاف کی فہرست^^^
جنرل سر فرینک مسروی (15 اگست 1947ء - 10 فروری 1948ء)جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی (11 فروری 1948 - 16 جنوری 1951)فیلڈ مارشل ایوب خان (جنوری 16 1951 - اکتوبر 26 1958)جنرل موسیٰ خان (اکتوبر 27 1958 - جون 17 1966)جنرل یحیٰی خان (جون 18 1966 – دسمبر 20 1971)لفٹننٹ جنرل گل حسن (دسمبر 20 1971 - مارچ 3 1972)جنرل ٹکّا خان (مارچ 3 1972 – مارچ 1 1976)جنرل محمد ضیاء الحق (اپریل 1 1976 - اگست 17 1988)جنرل مرزا اسلم بیگ (اگست 17 1988 - اگست 16 1991)جنرل آصف نواز (16 اگست 1991 - 8 جنوری 1993)جنرل عبدالوحید کاکڑ (جنوری 8 1993 - دسمبر 1 1996)جنرل جہانگیر کرامت (دسمبر 1 1996 - اکتوبر 6 1998)جنرل پرویز مشرف (اکتوبر 7 1998 - نومبر 28, 2007)جنرل اشفاق پرویز کیانی (نومبر 29, 2007 سے 29 نومبر 2013)جنرل راحیل شریف (نومبر 29, 2013 موجودہ)

No comments:

Post a Comment